خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں کی تحصیل بکاخیل میں رہنے والے وزیر قبائل پچھلے دو ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں اُس پائپ لائن سے قدرتی گیس فراہم کی جائے جو ان کے علاقے سے گزاری جا رہی ہے۔ بصورتِ دیگر ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے کبھی بھی بچھنے نہیں دیں گے۔
ان مظاہرین نے بنوں شہر سے 32 کلومیٹر جنوب میں واقع تختی خیل نامی گاؤں میں ایک نہر کے پل کے پاس عین اس جگہ احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے جہاں سے پائپ لائن نے گزرنا ہے۔ ستمبر 2022 کے تیسرے ہفتے میں اس دھرنے میں شریک دو درجن کے قریب لوگ ایک شامیانے کے نیچے موجود ہیں جس کے ارد گرد لوہے کے کئی بڑے بڑے پائپ بکھرے ہوئے ہیں۔
ان سے کچھ فاصلے پر ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے مقامی یونین کونسل کے 46 سالہ چیئرمین سعیداللہ کا کہنا ہے کہ دھرنے کے لیے یہ خاص مقام اس لیے منتخب کیا گیا ہے کہ حکومتی اہل کار یا پائپ لائن نصب کرنے والی کمپنی کے ملازمین کہیں "بزورِ طاقت یا مقامی لوگوں سے گٹھ جوڑ کر کے" اس پر کام شروع نہ کر دیں۔
اس احتجاج کی بنیاد اِس سال جون میں کیا جانے والا ایک حکومتی اعلان ہے جس کے مطابق ماڑی پیٹرولیم نامی ایک نیم سرکای کمپنی نے خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کی تحصیل سپین وام کے شیوا نامی مقام سے حال ہی میں قدرتی گیس کے ذخائر دریافت کیے ہیں۔ حکومت کا کہنا تھا کہ یہ ذخائر ایک پائپ لائن کے ذریعے بنوں اور لکی مروت کے اضلاع سے گزارے جائیں گے تاکہ انہیں پنجاب کے ضلع میاںوالی میں داؤد خیل کے مقام پر گیس کی ترسیل کے قومی نظام سے جوڑا جا سکے۔
اس اعلان کے کچھ روز بعد ہی لوہے کے بڑے بڑے پائپ اور انہیں نصب کرنے کے لیے درکار بھاری مشینری شیوا سے تقریباً 90 کلومیٹر جنوب میں واقع بکاخیل تحصیل میں پہنچ گئی۔ ان کی آمد سے مقامی لوگوں کو یقین ہو گیا کہ مجوزہ پائپ لائن ان کے علاقے سے گزرنے والی ہے۔ لہٰذا وہ توقع کرنے لگے کہ جلد ہی کھانا پکانے اور سردیوں میں حرارت کے حصول کے لیے وہ لکڑیوں اور کوئلے پر انحصار کرنے کے بجائے اس پائپ لائن سے گزرنے والی گیس استعمال کر پائیں گے۔
اس توقع کے پیشِ نظر 19 جولائی 2022 کو بکاخیل منڈی نامی قصبے کے ایک ہوٹل میں مقامی نوجوانوں اور بکاخیل، جانی خیل اور مومند خیل نامی وزیر قبائل کے عمائدین کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس کے شرکا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ نہ صرف انہیں گیس فراہم کرنے کی فوری منظوری دی جائے بلکہ پائپ لائن کی تنصیب کے منصوبے میں بکاخیل تحصیل کے لوگوں کو نوکریاں بھی دی جائیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو وہ پائپ لائن کو اپنے علاقے سے گزرنے ہی نہیں دیں گے۔
لیکن جب اس اجلاس کے چھ روز بعد بھی کسی سرکاری اہل کار نے مقامی لوگوں کے مطالبات پر کان نہ دھرا تو انہوں نے پائپ لائن پر کام کرنے والی بھاری مشینری کو روک کر اپنا احتجاجی دھرنا شروع کر دیا۔ سعیداللہ کہتے ہیں کہ اس احتجاج کے آغاز سے محض چند گھنٹے بعد ہی بنوں کی ضلعی انتظامیہ اور گیس کمپنیوں کے اہل کار "ہمارے پاس آئے اور ہمیں کہنے لگے کہ ہم پائپ لائن پر کام مت روکیں کیونکہ جلد ہی ہمیں گیس مل جائے گی"۔ لیکن، ان کے مطابق، "ان اہل کاروں نے ہمیں اپنے وعدے پر عمل درآمد کی کوئی ٹھوس یقین دہانی نہ کرائی اس لیے ہم نے دھرنا جاری رکھا"۔
عوام بمقابلہ حکام
بکاخیل کے لوگوں نے دھرنے میں شرکت کے لیے باریاں مقرر کر رکھی ہیں تاکہ مظاہرین کی ایک خاص تعداد ہر وقت احتجاج کے لیے اس میں موجود رہے۔ تاہم، سعیداللہ کے بقول، "ضرورت پڑنے پر قریبی دیہات سے دیگر لوگوں کو بھی بلایا جا سکتا ہے"۔
شروع میں ان کے احتجاج کی دیکھا دیکھی ضلع بنوں ہی کی تحصیل میریان اور بنوں کے جنوب میں واقع ضلع لکی مروت کے لوگوں نے بھی گیس کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کرنے شروع کر دیے تھے۔ تاہم لکی مروت کے مظاہرین نے بعدازاں اپنے علاقے سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مولانا عبدالشکور کی یقین دہانی پر اپنا احتجاج ختم کر دیا۔
پائپ لائن بچھانے والی سرکاری کمپنی، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ، کے ایک اہل کار اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں بنوں کی ضلعی انتظامیہ نے بھی سیاست دانوں کے ذریعے تختی خیل میں جاری دھرنے کو ختم کرانے کی کوشش کی۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ بنوں کے ڈپٹی کمشنر نے ان کی "کمپنی اور چند مقامی سیاستدانوں کے ساتھ دو ملاقاتیں کیں جن میں بکاخیل کو گیس کی فراہمی، پائپ لائن کے منصوبے میں خیبرپختونخوا کے رہائشی لوگوں کے لیے ملازمتوں کو یقینی بنانے، گیس کی قیمت پر خیبرپختوںخوا کو سالانہ رائلٹی کی ادائیگی اور بنوں ڈویژن میں صنعتی علاقے کے قیام کی منظوری جیسے معاملات پر بات چیت کی گئی"۔
لیکن سعیداللہ کہتے ہیں کہ ایک طرف تو ان ملاقاتوں میں مظاہرین کے بجائے "ایسے لوگوں کو شریک کیا گیا جن کا ہمارے احتجاج سے کوئی تعلق نہیں تھا" جبکہ دوسری طرف ان میں موجود سیاست دان گیس کی فراہمی کی کوئی حتمی ضمانت دے ہی نہیں سکتے تھے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "آج تو یہ لوگ حکومت کا حصہ ہیں لیکن کل کو جب یہ حکومت میں نہیں ہوں گے تو ان کے پاس اپنا وعدہ پورا کرنے کا کوئی اختیار موجود نہیں ہوگا"۔
اس لیے وہ کہتے ہیں کہ "جب تک ہمیں حکومتی سطح پر کوئی تحریری ضمانت نہیں دی جائے گی تب تک ہم اپنا دھرنا جاری رکھیں گے"۔
ضلعی انتظامیہ نے ان کے احتجاج کو روکنے کا ایک دوسرا طریقہ استعمال کرتے ہوئے اس میں شامل لوگوں کے خلاف 20 اگست 2022 کو تھانہ بکاخیل میں ایک مقدمہ بھی درج کرایا۔ اس مقدمے میں ان پر امن و امان میں خلل ڈالنے، ریاستی اداروں کے خلاف نعرے لگانے، ٹریفک بند کرنے اور لاؤڈ سپیکر کا غیرقانونی استعمال کرنے کے الزامات لگائے گئے۔
لیکن سعیداللہ کہتے ہیں کہ مظاہرین نے "نہ تو ٹریفک بند کی ہے اور نہ ہی کسی ادارے کے خلاف نعرے لگائے ہیں"۔ وہ پُل سے تھوڑی دور لگے شامیانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف ایک پرامن طریقے سے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں"۔
وہ مرے نصیب کی بارشیں
ماڑی پیٹرولیم کے 40 فیصد حصص کا مالک افواج پاکستان سے منسلک صنعتی ادارہ فوجی فاؤنڈیشن ہے۔ اس کے باقی مالکان میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (20 فیصد حصص)، حکومت پاکستان (20 فیصد حصص) اور ایسے انفرادی سرمایہ کار (20 فیصد حصص) شامل ہیں جنہوں نے اس کے حصص سٹاک مارکیٹ کے ذریعے خرید رکھے ہیں۔
اس کمپنی کے مطابق شیوا میں دریافت ہونے والے ذخائر سے روزانہ دوکروڑ 50 لاکھ مکعب فٹ گیس اور تین سو بیرل تیل نکالا جائے گا جو شمالی وزیرستان، بنوں اور لکی مروت کی مقامی ضرورتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تاہم بنوں کی ضلعی انتظامیہ کے اہل کاروں نے مظاہرین کو بتایا ہے کہ تکنیکی وجوہات کے باعث اس ذخیرے سے نکلنے والی گیس براہ راست انہیں فراہم نہیں کی جا سکتی۔ ان کے بقول اس کام کے لیے درکار مشینری پائپ لائن پر اسی وقت ہی نصب کی جا سکتی ہے جب اسے گیس کی ترسیل کے قومی نظام سے منسلک کیا جا چکا ہو۔
لیکن مظاہرین کو خدشہ ہے کہ پائپ لائن بچھنے کے بعد انہیں کبھی گیس فراہم نہیں کی جائے گی۔ دھرنے میں شریک ایک مقامی سماجی کارکن، گوہر وزیر، اس خدشے کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1950 کی دہائی میں بلوچستان کے علاقے سوئی سے نکلنے والی قدرتی گیس "کراچی اور لاہور سمیت پورے ملک کے کئی حصوں تک تو پہنچ گئی لیکن سوئی کے بیشتر لوگ ابھی تک لکڑیاں اور کوئلہ استعمال کر رہے ہیں"۔ خیبرپختونخوا کے ضلع کرک کی بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وہاں پائی جانے والی گیس بھی اسی طرح "پورے پنجاب میں تو چلی گئی ہے لیکن خود کرک کے بیشتر علاقوں میں دستیاب نہیں"۔
وفاقی ادارہ برائے شماریات کی طرف سے 2020 میں جاری کردہ اعداوشمار ان کی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بالترتیب تین فیصد اور آٹھ فیصد دیہی علاقوں میں گیس بطور ایندھن استعمال کی جاتی ہے جبکہ پنجاب میں یہ شرح 16 فیصد ہے۔
'آپ کا اعتبار کون کرے'
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے 28 جولائی 2022 کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں نہ صرف پائپ لائن بچھانے کے منصوبے سے متعلق تمام معلومات فراہم کی جائیں بلکہ گیس کی فراہمی کی مانگ کرنے والے لوگوں کی بات بھی سنی جائے۔
ان کے مطالبے کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیرِ پیٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ مظاہرین کو فوری طور پر گیس فراہم نہیں کی جا سکتی کیونکہ پچھلی حکومت کے زمانے سے اس کے نئے کنکشن دینے پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ پابندی ملک میں گیس کی قلت کے پیشِ نظر لگائی گئی ہے تاکہ اس کے نئے دریافت ہونے والے ذخائر ترجیحاً ان لوگوں تک پہنچائے جا سکیں جن کے پاس پہلے ہی اس کے کنکشن موجود ہیں۔
انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے وزیر قبائل کے مطالبات توانائی کے شعبے پر کام کرنے والی کابینہ کی کمیٹی کو بھیج دیے ہیں جو جلد ہی ان پر عمل درآمد کے لیے کوئی آئینی اور قانونی طریقہ وضع کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں
'ہمیں پینے کا پانی میسر نہیں جبکہ بجلی گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بڑے بڑے تالاب بنائے جا رہے ہیں'۔
تاہم محسن داوڑ کہتے ہیں کہ کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود "اس کمیٹی میں ابھی تک اس معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی"۔ اسی لیے کچھ روز پہلے انہوں نے "مصدق ملک اور سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ دوبارہ اس مسئلے پر بات کی ہے اور شہباز شریف سے ملاقات کا وقت بھی مانگا ہے"۔ اس کے باوجود وہ تسلیم کرتے ہیں اس ضمن میں ابھی تک کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔
بنوں کے اسسٹنٹ کمشنر خیام ناصر اس سلسلے میں ہونے والی ایک اور اہم ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی (جو 2018 کے عام انتخابات میں ضلع بنوں سے پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے ہیں) اور سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے کچھ سینئر اہل کار حال ہی میں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے سپیکر کے دفتر میں ملے ہیں۔ ان کے مطابق "اس ملاقات کے دوران ڈپٹی سپیکر نے ہدایت جاری کی کہ گیس کے نئے ذخائر سے شمالی وزیرستان، بنوں، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع میں رہنے والے لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر گیس فراہم کی جائے"۔
سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے ایک اہل کار بھی کہتے ہیں کہ "زاہد اکرم درانی اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں"۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ان کی کمپنی نے بکاخیل اور میریان تحصیلوں کو گیس فراہم کرنے کے لیے ایک سروے بھی مکمل کر لیا ہے۔
اگرچہ وہ کہتے ہیں کہ اس سروے کے نتیجے میں گیس کی فراہمی فوری طور پر شروع نہیں ہوجائے گی بلکہ "اس میں ابھی وقت لگے گا" اس کے باوجود ان کا خیال ہے کہ اس کے بعد وزیر قبائل کو فوراً اپنا احتجاج ختم کر دینا چاہیے تھا۔ اس لیے وہ حیران ہیں کہ یہ لوگ "اپنے مطالبات میں لچک کیوں نہیں دکھا رہے اور ابھی تک پائپ لائن کی تنصیب کو کیوں روک کر بیٹھے ہیں"۔
سعیداللہ کہتے ہیں کہ اس غیرلچک دار رویے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مظاہرین کسی قسم کے زبانی وعدوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "جب تک حکومت اپنی یقین دہانیوں کی باقاعدہ تحریری منظوری نہیں دے گی اس وقت تک ہمارا دھرنا ختم نہیں ہوگا"۔
تاریخ اشاعت 3 اکتوبر 2022