سڑکوں پہ میرے شہر کی کب تک دھواں رہے: کیا برقی گاڑیاں چلا کر پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے نجات حاصل کر سکتا ہے؟

postImg

ارسلان حیدر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

سڑکوں پہ میرے شہر کی کب تک دھواں رہے: کیا برقی گاڑیاں چلا کر پاکستان ماحولیاتی آلودگی سے نجات حاصل کر سکتا ہے؟

ارسلان حیدر

loop

انگریزی میں پڑھیں

حسن نقوی بجلی سے چلنے والی ایک ایسی موٹر سائیکل پر روزانہ تقریباً 40 کلومیٹر سفر کرتے ہیں جو لاہور میں بنائی گئی ہے۔ وہ اسی شہر کے جنوبی رہائشی علاقے خیابان امین میں رہتے ہیں جہاں سے جوہر ٹاؤن میں واقع ان کے دفتر کا فاصلہ تقریباً 17 کلومیٹر ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچھلے چند سالوں میں پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے مسلسل اضافے کی وجہ سے برقی موٹرسائیکل خریدنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب ان کے گھر میں ایسی تین موٹرسائیکلیں موجود ہیں جنہیں چارج کرنے کے نتیجے میں ان کے بجلی کے ماہانہ بل میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوتا۔

لیکن وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ موٹرسائیکل استعمال کرنے سے وہ کوئی مالی بچت کر پا رہے ہیں۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "برقی موٹرسائیکلوں کی خراب بیٹریاں اور غیرموثر چارجر تبدیل کرنے پر آنے والے اخراجات پٹرول کی مد میں ہونے والی بچت کو کھا جاتے ہیں"۔ ان کے مطابق پٹرول سے چلنے والی موٹرسائیکل پر روزانہ 40 کلومیٹر سفر طے کرنے پر ایک سال میں 84 ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن ایک برقی موٹرسائیکل میں لگی پانچ بیٹریاں اور دو چارجر تبدیل کرنے پر اٹھنے والے سالانہ اخراجات بھی تقریباً اتنے ہی ہوتے ہیں۔ 

برقی موٹرسائیکل میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس پر ایک وقت میں محدود فاصلہ ہی طے کیا جا سکتا ہے۔ 30 سالہ حسن نقوی کہتے ہیں کہ "اگر میں اسے روزانہ چھ گھنٹے چارج کروں تو یہ صرف 50 کلومیٹر ہی چل پاتی ہے۔ اس لیے جب کسی وجہ سے مجھے اپنا معمول کا راستہ تبدیل کرنا پڑے یا مجھے کسی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہو تو راستے میں ری چارجنگ کی سہولت نہ ہونے کے باعث یہ رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے"۔  

برقی گاڑیوں سے متعلق 2019 میں بنائی گئی پاکستان نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی میں اس مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے شہروں سے لے کر موٹروے اور شاہراہوں تک ایسی گاڑیوں کی چارجنگ کا نیٹ ورک قائم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ تاہم اس پالیسی کی منظوری کے باوجود ابھی تک اس نیٹ ورک کے قیام میں کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔ 

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ نیٹ ورک قائم کرنے کے لیے سڑکوں پر بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی ایک مخصوص تعداد کا ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر چارجنگ سٹیشن موجود ہوں لیکن ان پر گاڑیاں ہی نہ آئیں تو اس شعبے میں سرمایہ لگانے والوں کو کوئی مالی فائدہ نہیں ہو گا۔ دوسری جانب اگر برقی گاڑیوں کے لیے چارجنگ کی سہولتیں عام نہ ہوں تو لوگ ایسی گاڑیاں خریدنے پر مائل ہی نہیں ہوں گے۔ 

یونیورسٹی آف لاہور میں موجود انٹیگریٹڈ سنٹر آف ایکسیلینس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر آزر انور خان سمجھتے ہیں کہ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ برقی گاڑیوں کو چارج کرنے کا نیٹ ورک پہلے قائم کیا جانا چاہیے مگر اس پر آنے والے اخراجات حکومت کو براشت کرنا چاہئیں۔ انہوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ (موٹرسائیکلوں، رکشوں، کاروں، بسوں اور ٹرکوں سمیت) بجلی سے چلنے والی چار سو 18 گاڑیوں کو چلانے کے لیے ملک بھر میں 16 چارجنگ سٹیشنوں کی ضرورت ہو گی۔ ان کے مطابق اتنے چارجنگ سٹیشنوں کی تعمیر پر 44 لاکھ امریکی ڈالر لاگت آئے گی جبکہ انہیں چالو رکھنے پر نو لاکھ 60 ہزار امریکی ڈالر خرچ ہوں گے۔

اس کے علاوہ برقی گاڑیوں کی تیاری یا پہلے سے پٹرول پر چلنے والی گاڑیوں کو برقی گاڑیوں میں تبدیل کرنے پر بھی اندازاً ایک کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر لاگت آئے گی جبکہ اس کام کے لیے درکار تحقیق، قواعدوضوابط کی تیاری اور مارکیٹ کو منظم رکھنے پر مزید 17 لاکھ ڈالر خرچ ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح "یہ پورا نظام قائم کرنے پر دو کروڑ 20 لاکھ امریکی ڈالر صرف کرنا پڑیں گے"۔ 

تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام رقم سات سال میں واپس آ جائے گی کیونکہ چار سو 18 گاڑیوں کو پٹرول یا ڈیزل سے چلانے پر سالانہ تقریباً 30 لاکھ امریکی ڈالر خرچ ہوتے ہیں اس لیے جب یہ بجلی سے چلیں گی تو ہر سال یہ رقم بچ رہی ہو گی۔ اگر چارجنگ کے اس نظام میں شمسی اور ہوائی بجلی جیسی قابل تجدید توانائی استعمال کی جائے تو پھر ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے باعث ہونے والی مالی بچت کو بھی اس رقم میں شامل کیا جا سکتا ہے جس سے یہ نظام قائم کرنے پر آنے والی لاگت پانچ سال ہی میں واپس مل جائے گی۔ 

سب سوالوں کا ایک جواب

ان فوائد کے باجود پاکستان کے لوگ برقی گاڑیوں کی جانب راغب ہونے میں متذبذب دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے مکمل اعداوشمار کا حصول مشکل ہے کیونکہ انہیں اکٹھا کرنے کا کوئی مرکزی نظام موجود نہیں لیکن محتاط اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں موجود برقی موٹر سائیکلوں کی تعداد بمشکل چند ہزار ہی ہو گی۔ برقی کاروں کی تعداد تو ہزاروں کے بجائے محض درجنوں میں ہے جبکہ شاید ہی کوئی بس یا ٹرک بجلی سے چلتے ہوں۔

<div>یونیورسٹی آف لاہور کے محقق پیٹرول موٹر سائیکل کو الیکٹرک موٹر سائیکل میں تبدیل کر رہے ہیں۔</div>
یونیورسٹی آف لاہور کے محقق پیٹرول موٹر سائیکل کو الیکٹرک موٹر سائیکل میں تبدیل کر رہے ہیں۔

ایسی گاڑیاں خریدنے میں لوگوں کی ہچکچاہٹ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ روایتی گاڑیوں سے کہیں زیادہ مہنگی پڑتی ہیں۔ حسن نقوی کے تجربے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ لوگ اس ڈر سے بھی برقی گاڑی یا موٹرسائیکل چلانے سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کی بیٹری خالی نہ ہو جائے۔

ڈاکٹر آزر انور خان سمجھتے ہیں کہ پاکستانیوں کو اس ہچکچاہٹ پر جلدازجلد قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق اس جلدی کی وجہ محض الیکٹرک گاڑیوں کے ماحولیاتی فوائد نہیں بلکہ پاکستان کی درآمدات اور برامدات کی مالیت میں بڑھتا ہوا فرق ہے۔ تجارتی خسارہ کہلانے والا یہ فرق اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ دوسرے ممالک کو اشیا اور خدمات کی فروخت سے پاکستان کو جتنے ڈالر حاصل ہوتے ہیں وہ بیرون ملک سے اشیا اور خدمات کی خریداری پر خرچ ہونے والے ڈالروں سے کہیں کم ہوتے ہیں۔ 

2019 میں شائع ہونے والی 'پاکستان میں برقی گاڑیاں: پالیسی سے متعلق سفارشات' نامی لمز انرجی انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس خسارے کا ایک بڑا حصہ (جو اگست 2022 میں 3.3 ارب امریکی ڈالر تھا) پٹرولیم کی درآمدات سے وجود میں آتا ہے۔ اس کے مطابق موجودہ معاشی حالات کو سامنے رکھا جائے تو 2025 میں پاکستان کے پٹرولیم کی درآمدات پر اٹھنے والے اخراجات 30.7 ارب امریکی ڈالر ہوں گے جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ اور بھی بڑھ جائے گا۔ اسی لیے ڈاکٹر آزر انور خان کہتے ہیں کہ "پاکستان کو فوری طور پر برقی گاڑیاں متعارف کرانے کی ضرورت ہے تاکہ پٹرولیم کی درآمدات اور تجارتی خسارے میں کمی آئے"۔ 

لمز انرجی انسٹیٹیوٹ، جو لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کا حصہ ہے، میں تحقیق کار کے طور پر کام کرنے والے حافظ محمد اویس کا کہنا ہے کہ برقی گاڑیوں کا ایک اور ممکنہ مالی فائدہ یہ ہے کہ ان کی بدولت حکومت بجلی بنانے والے کارخانوں کو پیداواری صلاحیت کی مد میں کی جانے والی ادائیگیوں، یعنی کیپیسٹی چارجز (capacity charges) ، سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے۔ یہ ادئیگیاں حکومت پاکستان بجلی بنانے والے نجی شعبے کے کارخانوں کو کرتی ہے تاکہ وہ اپنی پیداواری صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ حد تک برقرار رکھ سکیں خواہ وہ اس کو پوری طرح استعمال کریں یا نہیں۔  

بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں سے بجلی خرید کر اسے تقسیم کار کمپنیوں کو مہیا کرنے والے سرکاری ادارے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) نے اندازہ لگایا ہے کہ 2025 میں پاکستان کے پاس اپنی ضرورت سے 15 ہزار میگا واٹ اضافی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو گی جس سے ملک پر ہر سال کیپسٹی چارجز کی مد میں ایک ہزار پانچ سو ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔

حافظ محمد اویس کہتے ہیں کہ برقی گاڑیاں متعارف کرانے سے اس فاضل بجلی کی کافی مقدار استعمال ہونے لگے  گی جس کے نتیجے میں کیپیسٹی چارجز میں بھی بڑی حد تک کمی آ جائے گی۔ مثال کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ محض پانچ لاکھ برقی گاڑیوں کے سڑکوں پر آ جانے سے کیپیسٹی چارجز پر آنے والے سالانہ اخراجات 21 ارب روپے تک کم ہو جائیں گے۔ 

پاکستان میں بڑی سڑکوں اور موٹر وے پر برقی گاڑیوں کی چارجنگ کا نیٹ ورک قائم کرنے کے حوالے سے بنائی گئی لمز انرجی انسٹیٹیوٹ کی ایک اور رپورٹ میں برقی گاڑیوں کا ایک فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ملک میں زمین پر چلنے والی تمام مشینی ٹرانسپورٹ کو بجلی پر منتقل کر دیا جائے تو اس سے خارج ہونے والی ضررساں گیسوں کی مقدار میں 63 فیصد کمی آ جائے گی۔ اس کمی کے نتیجے میں آلودگی سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل بھی کم ہو جائیں گے اور موسمیاتی تبدیلی کے سبب  آنے والی قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے بھی نسبتاً کم وسائل درکار ہوں گے۔ 

وسائل بمقابلہ مسائل

بین الحکومتی عالمی ادارے انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) کی جاری کردہ معلومات کے مطابق تیل اور گیس جیسے معدنی ایندھن پر چلنے والی گاڑیاں دنیا بھر میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا 37 فیصد پیدا کرتی ہیں۔ یہ گیس موسمیاتی تبدیلی کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے۔ 

برقی گاڑیوں کو طویل عرصہ سے اس کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم اس دیرینہ بحث نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق 2015 کے پیرس معاہدے میں پہلی مرتبہ ایسی گاڑیوں کے فروغ کے حوالے سے ایک عالمی یقین دہانی کی شکل اختیار کی۔ بعدازاں گزشتہ برس سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اس معاہدے کے فریقین کی سالانہ کانفرنس (سی او پی) میں 38 ممالک نے 2040 تک ہر طرح کی زمینی ٹرانسپورٹ تیل اور گیس سے بجلی پر منتقل کرنے کا وعدہ کیا۔ 

اگرچہ پاکستان ان ممالک میں شامل نہیں ہے لیکن برقی گاڑیوں سے متعلق اس کی قومی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ 2030 تک 30 فیصد نئی کاریں اور 50 فیصد نئے موٹرسائیکل، رکشے اور ٹرک بجلی سے چلیں گے۔ اگرچہ حافظ محمد اویس اس تجویز کو ایک ترقی پسندانہ قدم قرار دیتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس پر خاطر خواہ عمل درآمد نہیں ہورہا۔ 

اس حوالے سے ان کا ایک اہم خدشہ یہ ہے کہ اس پالیسی میں واضح طور پر نہیں بتایا گیا کہ برقی گاڑیوں سے متعلق اہداف کا حصول کیونکر ممکن ہو گا کیونکہ "ہمارے پاس اس پالیسی پر عملدرآمد کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ ہی نہیں ہے"۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ اس پالیسی میں اعلیٰ معیار کی برقی گاڑیوں کی تیاری اور ان کی مارکیٹ کو منظم کرنے جیسی کوئی بات نہیں ملتی. ان کے مطابق یہ ایک ایسی خامی ہے جس کا نتیجہ غیرمعیاری گاڑیوں کی تیاری کی صورت میں نکل سکتا ہے جن کی بیٹریاں اور چارجر تواتر سے تبدیل کرانے کی ضرورت پڑے گی۔

جیسا کہ حسن نقوی تصدیق کرتے ہیں یہ تبدیلیاں ان مالی فوائد کو باآسانی ضائع کر دیتی ہیں جو برقی گاڑیاں استعمال کرنے والے لوگوں کو روایتی توانائی پر آنے والے خرچ میں کمی سے حاصل ہوتے ہیں۔ 

توانائی کے شعبے کے دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ یہ پالیسی اس بات کی بھی وضاحت نہیں کرتی کہ ان گاڑیوں میں کس طرح کی بجلی استعمال ہونی چاہیے۔ کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں بیٹریوں پر تحقیق کرنے والے سائنس دان عاطف پرویز کہتے ہیں کہ "معدنی ایندھن سے پیدا ہونے والی بجلی سے چارج کی جانے والی برقی گاڑیاں ڈرائیونگ کے دوران تو آلودگی خارج نہیں کریں گی لیکن یہ بجلی بنانے کے عمل میں فضا پہلے ہی آلودہ ہو چکی ہوتی ہے"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پیاسی دھرتی، جلتے سائے: موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کس طرح شانگلہ کے قدرتی ندی نالے اور چشمے تیزی سے سوکھ رہے ہیں۔

توانائی کے شعبے سے متعلقہ قانونی امور کے ماہر اور لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل زین مولوی کا بھی کہنا ہے کہ معدنی ایندھن سے پیدا ہونے والی بجلی سے چارج ہو جانے والی برقی گاڑیاں دراصل مضر گیسوں کے اخراج کے مسئلے کو ٹرانسپورٹ کے شعبے سے بجلی پیدا کرنے والے شعبے میں منتقل کر دیں گی۔ پاکستان کی قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے بارے میں ستمبر 2022 کے آغاز میں ہونے والے ایک ویبنار میں ان کا یہاں تک کہنا تھا کہ برقی گاڑیوں کو چارج کرنے کے ذرائع میں پن بجلی کو بھی شامل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ "بڑے پیمانے پر پن بجلی بنانے والے پلانٹس کے پیداکردہ ماحولیاتی، آبی اور سماجی مسائل کا حجم ان سے حاصل ہونے والے فوائد کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے"۔ اسی لیے وہ حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ برقی گاڑیوں کی چارجنگ کے لیے توانائی کے متبادل قابل تجدید ذرائع (جن میں ہوائی اور شمسی توانائی قابل ذکر ہیں) پر ہی انحصار کرے۔

لیکن انہیں شکایت ہے کہ حکومت قابل تجدید بجلی پیدا کرنے کے ان متبادل ذرائع کے فروغ کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہی۔ اپنے دعوے کے حق میں وہ توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں توسیع کے رحجانات کی نشاندہی کرنے والے منصوبے (آئی جی سی ای پی 30-2021) کی تازہ ترین رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں۔ یہ ایک سرکاری دستاویز ہے جو تخمینہ لگاتی ہے کہ مستقبل میں کون سے ذرائع سے کتنی بجلی پیدا ہو گی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ نو برس میں ہوائی چکیوں اور شمسی پینلوں سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ تو ہو گا لیکن 2030 تک پاکستان میں استعمال ہونے والی مجموعی بجلی میں ان دونوں ذرائع کا مجموعی حصہ محض 11 فیصد تک ہی رہے گا۔

اس لیے ان کا استدلال ہے کہ بڑے پیمانے پر برقی گاڑیاں متعارف کرائے جانے کے باوجود پاکستان میں ماحول کے لیے مضر گیسوں کے اخراج میں کوئی بڑی کمی نہیں آئے گی کیونکہ یہ گاڑیاں جس بجلی سے چارج کی جائیں گی اس کی تیاری اُسی ٹیکنالوجی کے تحت ہو گی جو پہلے ہی ماحول کو تباہ کیے دے رہی ہے۔ 

تاہم ڈاکٹر عرفان یوسف برقی گاڑیوں سے متعلق قومی پالیسی پر ہونے والی اس تمام تنقید کو بے محل قرار دیتے ہیں۔ وہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں مشیر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پالیسی کا بنیادی مقصد نقل و حمل کے شعبے سے مضر گیسوں کے اخراج میں کمی لانا ہے اور یہ مقصد اسے بجلی پیدا کرنے کے قابل تجدید متبادل ذرائع کے فروغ کے لیے بنائی گئی حکومتی پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ کیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ 

اس لیے ان کے خیال میں برقی گاڑیوں کو متعارف کرانے اور قابل تجدید متبادل ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کی مقدار بڑھانے کا کام "ایک ساتھ ہونا چاہیے اور ہو گا بھی"۔

تاریخ اشاعت 19 اکتوبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.