زریاب خان، قدرتی حسن کے لیے مشہور ضلع اپر دیر کے مرکزی شہر دیر کے رہائشی ہیں۔ وہ یہاں ہر جانب لگے گندگی کے ڈھیروں سے سخت نالاں ہیں۔
"ہم میونسپل اہلکاروں کے پاس شکایت لے کر جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ انہیں نہ گاڑیوں کا فیول مل رہا ہے نہ ہی تنخواہیں، اس لیے وہ احتجاجاً صفائی نہیں کر رہے۔"
"جب ٹی ایم اے میں جا کر اپنی مشکلات تحصیل چیئرمین کو بتاتے تو وہ فنڈز کا رونا رونا شروع کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تو ملازمین کی تنخواہیں تک نہیں ہیں، گلی محلوں کی صفائی کے لیے پیسے کہاں سے لائیں۔"
ضلع اپردیر کی ٹی ایم ایز کے ملازمین نے چھ، چھ ماہ تنخواہیں نہ ملنے پر احتجاج کیا تو صوبائی حکومت نے ان کو ادائیگیاں کیں۔
زریاب خان کہتے ہیں کہ پہلی بار ایسی حکومت دیکھی ہے جو دعویٰ کرتی تھی کہ تمام اختیارات اور ترقیاتی فنڈز نچلی سطح پر منتقل کریں گے لیکن اب مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے فنڈز جاری ہی نہیں کررہی۔
"ہر طرف تعفن کے باعث بازار جانے کو بھی دل نہیں کرتا۔"
اِس ہاتھ دو، اُس ہاتھ لو
یہ معاملہ صرف دیر شہر یا ضلع اپر دیر تک محدود نہیں بلکہ صوبے کے تمام اور خصوصاً پسماندہ اضلاع کی صورت حال ایسی ہی ہے۔
خیببرپختونخوا میں تحریک انصاف کی سابق حکومت نے 22-2021ء میں دو مراحل میں بلدیاتی انتخابات کرائے تھے۔ پہلے مرحلے میں پشاور سمیت 17 اضلاع میں سے بیشتر میں اپوزیشن جماعتوں کے حمایت یافتہ مئیرز، تحصیل چیرمین اور ویلج چیئرمین جیت گئے تھے جبکہ دوسرے مرحلے میں بیشتر حلقوں میں حکمران جماعت کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔

مجموعی طور پر صوبے کے تحصیل چیئرمینوں اور میئرز کی 131 نشستوں میں سے 45 تحریک انصاف کو ملیں جبکہ آزاد امیدواروں اور دوسری سیاسی جماعتوں کو 86 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ حکمران جماعت کے لئے یہ نتائج مایوس کن تھے۔
خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ 2019ء کے تحت ہونے والے یہ انتخابات 31 مارچ 2022ء کو مکمل ہوئے لیکن نومنتخب نمائندوں نے ابھی اپنے عہدوں کا چارج بھی نہیں سنبھالا تھا کہ صوبائی حکومت نے تین جون 2022ء کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں بڑے پیمانے پر ترامیم کر ڈالیں۔
-
بلدیاتی قانون 2019ء کے تحت میونسپل سروسز سمیت نو محکمے (جنہیں ڈیوالوڈ ڈیپارٹمنٹس بھی کہا جاتا ہے) بلدیاتی اداروں کے حوالے کیے گئے تھے۔ ترمیمی ایکٹ 2022ء نے بیشتر محکمے واپس لے لیے۔
-
بلدیاتی اثاثوں کا انتظام و دیگر اختیارات بھی ڈپٹی کمشنروں، اسسٹنٹ کمشنروں اور تحصیل میونسپل افسروں (ٹی ایم اوز) کے سپرد کر دیے گئے۔
-
یہاں تک کہ تحصیل کونسل کے اکاؤنٹ پر ٹی ایم او کے ساتھ چیئرمین کے جوائنٹ دستخط کا اختیار بھی ختم کر دیا گیا۔
اس ترمیم سے پہلے بلدیاتی ادارے سیکشن 30 کی ذیلی شق 2(بی) کے تحت صوبائی حکومت سے فنڈز یا گرانٹس لیتے تھے۔ مگر نئی ترمیم میں حکومت نے نا صرف اس شق کو مکمل طور پر ختم کر دیا بلکہ بلدیاتی اداروں کے فنڈز بھی روک لیے جس سے یہ ادارے عضو معطل بن کر رہ گئے۔
بعدازاں جولائی 2024ء میں ترقیاتی منصوبوں کے انتظامی اور مالی اختیارات بھی بلدیاتی اداروں سے سیکرٹری لوکل کونسل بورڈ کو منتقل کر دیے گئے۔

'حکومت نہ خود کوئی کام کرتی ہے اور نہ دوسروں کو کرنے دیتی ہے'
رفیع اللہ خان، جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر تحصیل چیئرمین دیر منتخب ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا پر 13 سال سے ایسی حکومت مسلط ہے جو نہ خود کوئی کام کرتی ہے اور نہ دوسروں کو کرنے دیتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ 2019ءکے قانون کے تحت قومی فنانس کمیشن (این ایف سی) اور صوبائی (پی ایف سی) ایوارڈز کی 20 فیصد رقم پر بلدیاتی اداروں کا اختیار تسلیم کیا گیا تھا۔ اب یہ حق چھین لیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹی ایم اے دیر کی ماہانہ آمدنی 20 سے 22 لاکھ روپے ہے جو اڈے، سلاٹر ہاوس، پبلک لیٹرین، واٹرسپلائی، محصولات اور فرنیچر ٹیکس سے آتے ہیں۔ یہ رقم ٹی ایم اے کے جنرل اکاؤنٹ جمع ہوتی ہے۔
'اس پر بھی ہمارا اختیار ختم کر دیا گیا تھا جو ہم نے عدالتی حکم امتناع کے ذریعے بحال کرایا ہوا ہے۔"
ان کے بقول صوبائی حکومت نے انتخابات کے بعد سے کوئی ترقیاتی فنڈز نہیں دیے، منتخب میئرز و چیئرمینوں کو بالکل بے بس کر دیا ہے۔
"لوگ گلی کوچوں کی صفائی، واٹر سپلائی اور اچھا سیوریج سسٹم چاہتے ہیں لیکن ہم وسائل کی مجبوریوں کی وجہ سے کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ دفتر آنے والے شہریوں کے بعض سنگین مسائل اپنی جیب سے حل کرانا پڑتے ہیں لیکن آخر ایسا کب تک چلے گا۔"

'اختیارات اپنے ہی پاس رکھنے ہیں تو حکومت نمائندوں کو گھر ہی بھیج دے'
بلدیاتی نمائندوں نے اختیارات کے چھن جانے پر پہلے دن سے ہی احتجاج شروع کر دیا تھا لیکن دو سال قبل اس احتجاج نے باقاعدہ شکل اختیار کر لی۔ جب مردان کے مئیر حمایت اللہ مایار کی قیادت میں صوبے کے تمام چیئرمین و مئیرز جمع ہوئے اور 'لوکل کونسلز ایسوسی ایشن' کے پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کے لیے پریس کانفرنسوں، مظاہروں، دھرنوں کا سلسلہ شروع کیا۔
مایار کہتے ہیں کہ حکومت نے متعدد بار فنڈز و اختیارات کی بحالی کے وعدے کیے لیکن ابھی تک ان پر عمل نہیں کیا۔ مایوس ہو کر لوکل کونسلز ایسوسی ایشن کے ساتھ ساتھ بعض نمائندوں نے انفرادی طور پر بھی عدالتوں سے رجوع کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس وقت بلدیاتی نمائندوں کی کم از کم پانچ درخواستیں پشاور ہائیکورٹ میں زیرالتوا اور زیر سماعت ہیں جن میں لوکل گورنمنٹ رولز میں ترامیم، منتقل(ڈیوالولڈ) محکموں کی واپسی، اختیارات میں کمی اور فنڈز کی معطلی کو چیلنج کیا گیا ہے۔
اس دوران صدر لوکل کونسلز ایسوسی ایشن حمایت اللہ مایار نے چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ کو ایک خط بھی لکھا جس میں بلدیاتی فنڈز اور اختیارات کا مسئلہ حل کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔
چیئرمینوں اور میئرز کا موقف ہے کہ صوبائی حکومت نے پی ٹی آئی مخالف امیدواروں کے بلدیاتی انتخابات جیتنے کی وجہ سے مقامی حکومتوں کے قوانین تبدیل کیے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ میں ایسے ہی ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ اگر حکومت تمام اختیارات اپنے ہی پاس رکھنا چاہتی تو تمام بلدیاتی نمائندوں کو ایک ساتھ گھر بھیج دے۔
عدالت عالیہ نے فنڈز کی معطلی اور اختیارات کی مرکزیت کے حوالے سے حکومت سے جوابات طلب کر رکھے ہیں مگر تا حال کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

'تحریک انصاف نے اپنے ہی بنائے بلدیاتی نظام کو تباہ کر دیا ہے'
میئر مردان حمایت اللہ مایار عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور لوکل کونسلز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کے صدر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ 2022ء سے اب تک صوبائی حکومت نے بلدیاتی اداروں کو پی ایف سی ایوارڈ کے تحت ایک پیسہ بھی جاری نہیں کیا۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے قانون میں ترامیم کے ذریعے تحصیل چیئرمینوں اور مئیرز کے اختیارات کو روند ڈالا۔ "پچھلے تین سال میں اپنے ہی بنائے بلدیاتی نظام کو تباہ کر دیا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔"
ان کا کہنا ہے کہ 2019ءکے قانوں کے تحت نو محکمے تحصیل کونسلز کے حوالے کیے گئے تھے مگر ان میں سے آج تک کسی ایک کا دفتر بھی تحصیل سطح پر قائم نہیں کیا گیا۔
"ہم نے بلدیاتی نظام کو بچانے کے لیے وزیراعلیٰ، وزراء اور صوبائی سیکرٹریوں سے کئی ملاقاتیں کیں جن میں حکومت نے ہمارے مطالبات کو جائز تسلیم کیا۔ ہم نے احتجاج کیے، عمران خان کو کھلا خط لکھا اور عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا لیکن اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوا۔"
حمایت اللہ مایار کا کہنا ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کی رولز سمیت بحالی اور فنڈز کے اجرا تک احتجاج جا ری رکھیں گے۔ بلدیاتی اداروں کو 2022ء سے اب تک(چار سال) کی پی ایف سی کے تحت واجب الادا رقم جاری کی جائے۔
"ایوارڈ میں مقامی حکومتوں کا حصہ 20 سے بڑھا کر 30 فیصد کیا جائے۔ چونکہ ہمارے تین سال ضائع ہوچکے ہیں اس لیے موجودہ بلدیاتی اداروں کی مدت میں بھی تین سال کی توسیع ہونی چاہیے۔"

'اگر فنڈز بلدیاتی نمائندوں کو دے دیے گئے تو ہمیں کون ووٹ دے گا'
عیان الدین خان، تحصیل واڑی کے چیئرمین ہیں جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتے تھے۔ ان کے مطابق حکمران جماعت کے نمائندوں کو بھی وہی مشکلات درپیش ہیں جن کا شکوہ اپوزیشن کے میئر اور چیئرمین کرتے ہیں۔
"تین سال ہوگئے ہیں ہم نے ٹکے کا کام نہیں کیا۔ صوبائی حکومت نے پی ٹی آئی کے چیئرمینوں کو 10، 10 کروڑ روپے فنڈز دیے تھے لیکن اپوزیشن ارکان کے عدالت سے رجوع کرنے پر وہ بھی ہم سے واپس لے لیے گئے۔"
صوبائی حکومت کے ذمہ داران آن دی ریکارڈ تو اس مسئلے پر بات نہیں کرتے تاہم آف دی ریکارڈ اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی کے اپنے ارکان اسمبلی ہی بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز اور اختیارات دینے کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔
ایک حکومتی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'لوک سجاگ' کو بتایا کہ ممبران کا کہنا ہے کہ "اگر بلدیاتی نمائندوں کو رقوم دی گئیں اور ان کے ذریعے کام ہوئے تو ہمیں کون ووٹ دے گا؟"

وزیر بلدیات ارشد ایوب تسلیم کرتے ہیں کہ بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز نہ ملنے سے مایوسی پائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت صوبے کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے کیونکہ وفاقی حکومت بھی صوبے کے بقایا جات ادا نہیں کررہی ہے۔
"ہم بہت جلد بلدیاتی قوانین اور رولز میں بڑی تبدیلی کا فیصلے کرنے جارہے ہیں جس سے تحصیل چیئرمینز و میئرز کے اختیارات کی بحالی اور انہیں ترقیاتی فنڈز کی فراہمی ممکن ہو جائے گی۔"
تاریخ اشاعت 8 فروری 2025