'مہنگی بجلی کاروبار کھا گئی'، ملتان میں چلتی پاور لومز کوڑیوں کے مول کباڑ میں بکنے لگیں

postImg

شہزاد عمران خان

postImg

'مہنگی بجلی کاروبار کھا گئی'، ملتان میں چلتی پاور لومز کوڑیوں کے مول کباڑ میں بکنے لگیں

شہزاد عمران خان

پینسٹھ سالہ خادم حسین انصاری ملتان کے علاقہ انصار کالونی میں رہتے ہیں۔ ان کا خاندان تقسیم ہند کے موقع پر ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ متحدہ ہندوستان میں ان کے اجداد کپڑا بنانے کے کام سے منسلک تھے جنہوں نے پاکستان آنے کے بعد بھی اسی کام کو جاری رکھتے ہوئے ملتان کے علاقے منظور آباد میں کپڑے کا کارخانہ لگایا۔

اس زمانے میں کپڑا ہاتھوں سے چلنے والی کھڈیوں پر تیار کیا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ یہ گھریلو صنعت معدوم ہوتی گئی اور لکڑی کی بنی ہوئی کھڈیوں کی جگہ بجلی سے چلنے والی مشینوں نے لے لی تاہم اس سے وابستہ لوگ خوش حال ہی رہے۔ اب کچھ عرصہ سے یہ صنعت زوال کا شکار ہے اور اس سے وابستہ لوگوں کے حالات بگڑ رہے ہیں۔

خادم انصاری کہتے ہیں کہ 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آنے کے بعد اس شعبے پر 20 فیصد ٹیکس لگانے سے اس کا زوال شروع ہوا۔

ان کے بیٹے عمران خادم کے مطابق اب بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے اس کاروبار کو تباہ کر دیا ہے۔ 2017ء میں ایک پاور لوم کا بجلی کا بل تقریباً آٹھ ہزار روپے آتا تھا۔ اب یہ 37 ہزار روپے تک پہنچ گیا ہے۔ دستی پاور لوم کا بل پانچ ہزار روپے آتا تھا جو اب 18 ہزار روپے سے زیادہ آ رہا ہے۔

"شہر میں تقریباً 50 ہزار سے زیادہ پاور لوم مشینیں کباڑیوں کو فروخت کر دی گئی ہیں۔ بڑی مشین جو 10 لاکھ روپے میں خریدی گئی تھی کباڑ میں اس کی قیمت دو لاکھ روپے تک مل رہی ہے۔ ہمیں یہ کاروبار ترک کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ہم مزید کسی نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔"

 پاور لومز ایسوسی ایشن ملتان کے صدر خالق قندیل انصاری نے بتایا کہ اس کاروبار سے وابستہ ہزاروں مزدور بے روز گار ہو چکے ہیں۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بدولت یہ انڈسٹری تباہ ہو گئی ہے۔ اس صنعت سے وابستہ بہت سے لوگ کارخانہ دار نہیں ہیں بلکہ انہوں نے ٹھیکے پر یا کرایے پر مشینیں لے رکھی ہیں۔

"ملکی معیشت کی بہتری میں اس صنعت کا اہم کردار ہے لیکن حکومت اسے ریلیف دینے ک بجائے ٹیکس لگا رہی ہے۔ اس سے جڑے بڑے کاروباری لوگ اپنے کارخانوں کو دوسرے ممالک میں منتقل کر چکے ہیں۔ اس سے ایک جانب مقامی مزدور بے روزگار ہوئے ہیں اور دوسری طرف برآمدات میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے۔

ملتان کے علاقے شریف پورہ کے رہائشی محمد آصف کے والد حاجی عبدالرشید 50 برس سے پاور لوم کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ  پہلے دھاگہ مہنگا کیا گیا اور اب آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

"فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر جو ظلم ہو رہا ہے وہ سمجھ سے بالا ہے۔ ایک کام کی اجرت تمام اخراجات شامل کر کے سو روپے بنتی ہے۔ جب دو ماہ بعد بجلی کے بل میں دو ماہ پہلے کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز شامل کر دیے جاتے ہیں تو ہمیں خسارہ ہوتا ہے۔ بجلی کے بلوں میں اضافے سے مزدوروں کے گھروں میں نوبت فاقوں تک آ گئی ہے۔"

محمد شاہد ابراہیم رشید آباد پاور لوم ایسوسی ایشن کے نائب صدر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکسٹائل کے حوالے سے ملتان شہر کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہاں لگ بھگ ایک لاکھ سے زیادہ پاور لومز کام کر رہی ہیں۔ منظور آباد، عثمان آباد، شریف پورہ، انصار کالونی، خونی برج، احمد آباد اور دیگر کئی علاقوں میں یہ کارخانے بڑے تعداد میں کام کر رہے ہیں صرف رشید آباد کے علاقے میں چار ہزار سے زیادہ پاور لومز لگی ہوئی تھیں جن میں سے بیشتر بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث بند ہو چکی ہیں۔

اصغر علی انصار کالونی میں 30 برس سے کباڑ کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چند برس سے پاور لوم کے کاروبار کی بدحالی کے باعث پاور لوم مشینوں کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مالک چالو حالت کی مشینیں بھی فروخت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

مہنگی بجلی اور مہنگے دھاگے کی وجہ سے فیصل آباد میں پاورلومز کی بندش۔

اکرم کباڑیہ نے انصار کالونی میں کباڑ کا گودام بنا رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کارخانہ داروں کو مشینیں فروخت کرتے وقت روتے بھی دیکھا ہے۔ جب پاور لوم کی مشینیں ان کے پاس سکریپ کی صورت میں آتی ہیں تو وہ انہیں ڈھلائی کے کارخانے میں بھیج دیتے ہیں جہاں لوہے کو پگھلا کر دیگر اشکال میں ڈھال دیا جاتا ہے۔

ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) کے ڈائریکٹر کمرشل اسد حماد کا کہنا ہے کہ حکومت بجلی ہر طرح کی سبسڈی ختم کرتی جا رہی ہے اور پٹرول اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بجلی کی قیمت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ اگر زراعت کی طرح پاورلومز کو بھی سبسڈی دی جائے تو یہ صنعت تباہی سے بچ سکتی ہے۔

ملتان میں محکمہ سمال انڈسٹریز کے ڈپٹی ڈائریکٹر زاہد محمود نے بتایا کہ پاورلوم انڈسٹری کا کوئی بھی کارخانہ دار قرض کے حصول کے لیے سمال انڈسٹری کے دفتر میں نہیں آتا۔ محکمے مارک اپ دیگر بینکوں کی نسبت سب سے کم ہے جس کی شرح صرف پانچ فیصد ہے۔ اگر اس صنعت سے تعلق رکھنے والے کاروباری لوگ قرض کے حصول کی درخواست دیں تو ان کی مدد کر کے ان کا کاروبار بچایا جا سکتا ہے۔

تاریخ اشاعت 21 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.