صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

postImg

رضوان الزمان منگی

postImg

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

رضوان الزمان منگی

اٹھائیس سالہ احسان علی بگٹی موٹر سائیکل مکینک ہیں جنہوں نے اپنے گاؤں گلزار کاپاری سے چار کلومیٹر پر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر صحبت پور میں ورکشاپ بنا رکھی ہے۔ گرمی ہو یا سردی صبح سویرے ان کا پہلا کام شہر سے دو گیلن پانی خرید کر گھر لانا ہوتا ہے جبکہ وہ شام کو دکان سے واپسی پر بھی دو گیلن پانی ساتھ لاتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے دیہات میں متمول لوگوں نے پختہ جبکہ غریب لوگوں نے کچے تالاب (جوہڑ) بنا رکھے ہیں جن میں پٹ فیڈر کینال کی نہروں (ڈسٹری بیوٹریز) یا کھالوں (واٹر کورسز) کا پانی سٹور کر لیا جاتا ہے جسے لوگ سارا سال خود بھی پیتے ہیں اور جانوروں کو بھی پلاتے ہیں۔

2023ء کی مردم شماری کے مطابق تقریباً دو لاکھ 40 ہزار  نفوس کی آبادی کا ضلع صحبت پور پانچ تحصیلوں پر مشتمل ہے جن میں تحصیل صحبت پور، مانجھی پور، فرید آباد، حیرالدین اور سید محمد کنرانی شامل ہیں۔

احسان علی کے مطابق مانجھی پور شہر اور یونین کونسل گورا ناڑی کے سوا تقریباً پورے ضلعے کا زیر زمین پانی انتہائی کڑوا ہے جبکہ سرکاری واٹر سپلائی سکیموں کے ذریعے فراہم کیا جانے والا پانی بھی پینے کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے لوگ دور دراز سے گدھا گاڑیوں، موٹرسائیکل یا پھر رکشے پر پینے کا پانی بھر لاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ضلعی صدر مقام صحبت پور میں بھی یہ حالت ہے کہ شہری 40 روپے گیلن پانی خریدتے ہیں جبکہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ (پی ایچ ای) کی پائپ لائنیں چوک ہو چکی ہیں۔ واٹر سپلائی میں گٹروں کا پانی شامل ہونے سے سرکاری پانی میں بدبو آتی ہے جس کو پینا تو دور اس سے کپڑے دھونا بھی ممکن نہیں۔

"مجھے پینے کے چار گیلن پانی پر روزانہ 160 روپے یعنی ماہانہ چار ہزار 800 روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں جبکہ جو لوگ پانی خریدنے کی سکت نہیں رکھتے وہ یہی سرکاری یا تالابوں والا پانی پینے پر مجبور ہیں۔"

اسی سالہ حاجی صحبت خان کھوسہ صحبت پور کی یوسی موذئی کے زمیندار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2004ء میں پٹ فیڈر کینال بننے سے پہلے ان علاقوں میں زیر زمین پانی میٹھا تھا جہاں 50 سے 100 فٹ کے درمیان گہرائی پر بور کے ذریعے ہینڈ پمپ سے لوگ صاف پانی لیتے تھے۔

"تاہم پٹ فیڈر کینال آنے کے دس سال بعد ہمارے علاقے کو سیم و تھور نے گھیر لیا جس سے زمینیں خراب ہونا شروع ہو گئیں جبکہ زیر زمین پانی میں تو جیسے کسی نے نمک ملا دیا ہو۔ یوں پانی کڑوا ہونے کے بعد ہمیں مجبوراً گاؤں میں تالاب بنانے پڑے اور کھالوں کا پانی ہماری قسمت یا مجبوری بن گیا۔"

عالمی ادارہ صحت  (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا میں دو ارب افراد پینے کے لیے غیر محفوظ پانی استعمال کر رہے ہیں جو اسہال، ہیضہ، پیچش، ٹائیفائیڈ اور پولیو سمیت کئی بیماریوں کا باعث بنتا ہے جبکہ ہیضے سے سالانہ پانچ لاکھ پانچ ہزار اموات ہو جاتی ہیں۔

اقوام متحدہ کا ادارہ ہنگامی امداد برائے اطفال  (یونسیف) کی 2018ء کی ایک رپورٹ کے مطابق  پاکستان میں دو کروڑ 72 لاکھ سے زائد افراد کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں جبکہ ملک میں آلودہ پانی اور خراب ماحول کے باعث ڈائریا سے سالانہ پانچ سال سے کم عمر 39 ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

صاف پانی کی اہمیت کے پیش نظر پاکستان میں پرویز مشرف دور میں بلوچستان سمیت ملک میں 'کلین واٹر فار آل' منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ تاہم بلوچستان میں اس کے مطلوبہ نتائج سامنے نہ آ سکے۔

جس پر اس صوبے میں مسائل کی تشخیص کے لیے (یونسیف) اور پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے کلین وائر فار آل پراجیکٹ (بلوچستان)  کی صورت حال سے متعلق ایک رپورٹ (اویلیویشن رپورٹ) تیار کرانے کا فیصلہ کیا جو ستمبر 2018ء میں جاری کی گئی تھی۔

یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2007ء میں وفاقی حکومت نے بلوچستان میں پہلے مرحلے (فیز1) میں 567 فلٹر پلانٹس نصب کرنے کا منصوبہ بنایا جو 2008ء سے 2011ء کے درمیان یونین کونسل (20,000 افراد کے لیے ایک پلانٹ) کی سطح پر ٹھیکیداروں کے ذریعے لگائے گئے۔

پہلے اس منصوبے کی نگرانی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کو سونپی گئی مگر بعد ازاں یہ ذمہ داری پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ (پی ایچ ای ڈی) کو منتقل کر دی گئی تھی۔ یہ منصوبہ شروع ہوا تو اس کا ہدف 575 (567+8 اضافی پلانٹس) واٹر فلٹریشن کی تنصیب مقرر کیا گیا جن میں واٹر فلٹریشن پلانٹس، الٹرا فلٹریشن (یو ایف) اور ریورس اوسموس (آر او) پلانٹس شامل تھے۔

تاہم 2011ء میں پہلا مرحلہ ختم ہوا تو صرف 409 الٹرا فلٹریشن پلانٹس اور 13 آر او پلانٹس لگائے گئے تھے جبکہ یو ایف پلانٹس میں سے 45 غیر فعال رہے۔

اس دوران 2010ء میں ڈیوولیوشن پلان کے تحت صاف پانی کا منصوبہ مرکز سے صوبائی حکومت کو منتقل ہو چکا تھا جبکہ پلانٹس کو بجلی کی قلت، مینٹیننس کے اخراجات، سیاسی مداخلت سمیت کئی مسائل کا سامنا تھا جس کے باعث صارفین کو یا تو غیر محفوظ پانی مل رہا تھا یا پھر پلانٹس بند پڑے تھے۔

یہ رپورٹ انکشاف کرتی ہے کہ فیز ون کے خاتمے پر جب ان پلانٹس کی بلوچستان انجینئرنگ سروسز سے تھرڈ پارٹی ویریفکیشن (تصدیق) کرائی گئی تو پتا چلا تھا کہ 41 فیصد پلانٹس غیر فعال ہیں۔

تاہم یونیسف نے پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ تعاون جاری رکھا اور 2015ء میں صاف پانی منصوبے کے فیز ٹو کی تیاری شروع کر دی گئی جس پر عمل درآمد کا آغاز دو سال بعد ہوا۔ دوسرے مرحلے میں 85 سولر پلانٹس لگائے جانے تھے جن میں 24 آر او اور 61 الٹرا فلٹریشن پلانٹس شامل تھے۔

اس رپورٹ کے مطابق ان میں سے 409 الٹرا فلٹریشن پلانٹس پر 812.187 ملین روپے جبکہ 33آر او پلانٹس پر246.236 روپے لاگت آئی تھی۔

کلین ڈرنکنگ واٹر فار آل فیز II کی انتظامیہ کا تخمینہ تھا کہ دوسرا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد بلوچستان کی آبادی کو ڈھائی لٹر پانی فی کس روزانہ مہیا کیا جا سکے گا۔ تاہم ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ مقدار روزانہ کم از کم ساڑھے سات لٹر فی کس ہونی چاہیے۔

لیکن اس دوران بلوچستان حکومت نے جامع تشخیصی (ایویلیوایشن) پالیسی تیار کرنے کے لیے یونیسیف سے مدد مانگ لی۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 8 مئی 2018 ء کو کل 409 فلٹریشن پلانٹس میں سے 60 فیصد خراب تھے یا غیر فعال پائے گئے تھے۔(صفحہ 53) تاہم ضلع صحبت پور میں جو 40 فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے ان میں سے 19 فعال اور 21 غیر فعال تھے (صفحہ 31)جبکہ 15 اضلاع کے تشخیصی سروے میں 80 فیصد لوگوں نے پانی کی فراہمی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔

یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ فنڈز کی کمی، ضلعی سطح پر ہنر مند و تربیت یافتہ افراد کی عدم موجودگی، ناکافی بجلی، پلانٹس کے لیے واٹرسورس کا ناقص انفراسٹرکچر (یا جگہ کا غلط انتخاب) صاف پانی کی ناکافی فراہمی کی بڑی وجوہات ہیں۔

"محکمہ پی ایچ ای کی طرف سے پلانٹس کے بنیادی ڈھانچے کی ناقص دیکھ بھال، خراب نگرانی، تخریب کاری، کرپشن اور سیاسی مسائل نے معاملات کو گھمبیر بنا رکھا ہے جبکہ اہم سٹیک ہولڈرز پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس اور مقامی حکومت کے درمیان ہم آہنگی (کوارڈی نیشن) کا فقدان تھا۔"

"پلانٹس کو چلانے کے لیے بجٹ اور مرمت کا ریکارڈ اور ڈیٹا نا کافی تھا جبکہ 2015ء کے بعد شاہد ہی کبھی فلٹریشن پلانٹس کا پانی ٹیسٹ کیا گیا ہو جبکہ میں زیادہ تر آپریٹرز یہاں تک کہ پی ایچ ای کا اپنا عملہ بھی فنڈز کی کمی کی شکایت کرتا رہا۔"

تاہم پی ایس ایل ایم سروے  کے مطابق 2020-2019ء میں مجموعی طور پر ضلع صحبت میں 56.1 فیصد لوگ پانی کے امپرووڈ یعنی بہتر ذرائع ( نل کا پانی، ہینڈ پمپ، موٹر پمپ، کھودا ہوا محفوظ کنواں، فلٹر پلانٹس، محفوظ چشمہ یا بوتل کا پانی) استعمال کرتے تھے۔

لیکن 2022ء کی طوفانی بارشیں اور سیلاب سب کچھ بہا لے گیا۔ سیلاب کے بعد جمع پانی کے نتیجے میں صحبت پور، جھل مگسی، نصیر آباد، جعفرآباد اور کچھی کے اضلاع میں ملیریا اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں بڑھ گئیں۔

سیلاب سے اس صوبے میں جہاں سیکڑوں واٹر سپلائی سکیمیں تباہ ہوئیں وہیں ضلع صحبت پور میں پہلے سے ناکافی واٹر سپلائی اور سینی ٹیشن کا نیٹ ورک بھی برباد ہو گیا۔

حاجی صحبت خان کھوسہ کا کہنا تھا کہ طویل عرصہ وہ بھی تالاب کا پانی پیتے رہے لیکن اب ان کے گاؤں سے سات کلو میٹر دور جروار پل پر او جی ڈی سی ایل نے میٹھے پانی کے بور لگائے ہیں جہاں سے موٹر سائیکل لوڈر والے پانی لاتے ہیں اور وہ 40 روپےگیلن خرید کر استعمال کرتے ہیں۔

"اب ہم نہانے کے لیے بھی پانی خریدتے ہیں ورنہ تالاب کے پانی سے جسم پر سرخ دانے، خارش اور شدید جلن ہوتی ہے۔ سیلاب کے بعد یہاں صاف پانی میسر نہ ہونے کے باعث بیماریاں پھیل گئی تھیں لیکن پھر آرمی والوں نے یہاں ٹینکر کے ذریعے پانی پہنچانا شروع کیا لیکن بعد میں جروار پل پر بور لگے تو علاقے میں بیماریاں کچھ کم ہوئیں۔"

میر محمد بگٹی عرف بابو مانجھی پور کے رہائشی ہیں جو ان دنوں سرگودھا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے کم و بیش 30 رشتہ دار خاندان کئی دہائیوں سے شہر سے تین کلو میٹر دور گوٹھ محمد عالم بگٹی میں رہائش پذیر تھے۔

"ہمارے سارے رشتہ داروں کو بیماریوں نے جکڑ رکھا تھا جن کی وجہ سے درجنوں افراد جوانی ہی میں انتقال کر گئے جبکہ بچوں میں دست، الٹی اور پیچش عام تھی۔ میں نے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا تو معلوم ہوا کہ بیماریوں کی جڑ جوہڑ کامضر صحت پانی ہے۔"

"ہم نے صاف پانی کی فراہمی کے لیے ضلعی محکموں کو درخواستیں دیں مگر کسی نے بات نہیں سنی۔ بالآخر تنگ آ کر میں نے اپنے قبیلے کے بزرگوں کو مانجھی پور شہر منتقل ہونے کا مشورہ دیا جن میں سے ہمارے کچھ خاندان کافی پس و پیش کے بعد یہاں نقل مکانی پر راضی ہوئے جس کو دو سال بیت چکے ہیں۔ یقین مانیں! اب بچوں بڑوں سب کی حالت بہتر ہے۔"

ڈاکٹر مشتاق احمد داجلی صحبت پور میں محکمہ ہیلتھ سے وابستہ ہیں۔ وہ تصدیق کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں جوہڑوں یا تالاب کے پانی کے استعمال کی وجہ سے گردے اور پیٹ کی بیماریاں عام ہیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں زیادہ تر بچے دست، الٹی اور کمزوری کی شکایات کے ساتھ آتے ہیں۔

اب صورت حال یہ ہے کہ محکمہ پی ایچ ای کی بیشتر واٹر سپلائی سکیمیں اور متعدد فلٹریشن پلانٹس عرصہ دراز سے بند پڑے ہیں۔

واٹر سپلائی کے معاملے پر سرکاری محکموں میں کوارڈی نیشن کا اب بھی یہ عالم ہے کہ چئیرمین ڈسٹرکٹ کونسل صحبت پور اور دیگر ارباب اختیار نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ ان معاملات پر محکمہ پی ایچ ای ہی بہتر جواب دے سکتا ہے۔ جبکہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر نے بار بار رابطہ کرنے پر بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔

اس سلسلے میں لوک سجاگ نے محکمہ پی ایچ ای کے ایکسیئن شکراللہ بلوچ سے رابطہ کیا تو انہوں نے پہلے تو بات کرنے سے انکار کر دیا تاہم بعد ازاں وہ واٹر سپلائی کی تفصیل بتانے پر رضامند ہو گئے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ضلع بھر میں اس وقت محکمہ پی ایچ ای کی 12 واٹر سپلائی سکیمیں ہیں جن میں سے تین سولر سسٹم اور نو بجلی پر چل رہی ہیں جبکہ کل 53 فلٹریشن پلانٹس ہیں جن میں 40 فعال اور 13 غیر فعال ہیں۔

لیکن پی ایچ ای حکام اور اہلکار اب بھی وہی فنڈز کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں۔ ایکسیئن بتاتے ہیں کہ ضلع بھر میں واٹر سپلائی سکیمیں چلانے کے لیے پہلے ان کے محکمے کو ہر تین ماہ بعد چھ لاکھ روپے ملتے تھے لیکن سیلاب کے بعد یہ رقم نصف یعنی تین لاکھ روپے کر دی گئی جس سے مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔

"ہم جو سکیمیں چھ لاکھ میں فعال نہیں کر پا رہے تھے وہ محض تین لاکھ روپے میں کیسے چل رہی ہوں گی؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ صحبت پور سکیم کے تالاب میں پٹ فیڈر کینال سے بذریعہ اوچ کینال اور خیر واہ پانی آتا ہے جو تالابوں سے سیٹلنگ ٹینک اور پھر فلٹر ٹینک ہو کر شہر کو سپلائی کے لیے جاتا ہے۔ تاہم سیلاب کے بعد یونیسف نے آٹھ واٹر سپلائی سکیموں کو فعال کرکے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پورے ضلع صحبت پور میں ایک لیڈی ڈاکٹر: 'ایسا نہ ہوتا تو بیٹی کے سر پر ماں کا سایہ سلامت ہوتا'

شکراللہ بلوچ نے بتایا کہ صحبت پور شہر کی تقریباً 47 ہزار آبادی کو روزانہ 6 لاکھ گیلن پانی مہیا کیا جاتا ہے جس کے لیے ملنے والے سہ ماہی فنڈز واٹر سپلائی سکیموں کی رپئیرنگ اور مینٹینس کے لیے ناکافی ہے۔

"سیلاب کے بعد ہمیں واٹر فلٹریشن پلانٹس کے لیے کوئی رقم نہیں ملی جس کے باعث اکثر پلانٹس کی حالت خراب ہے تاہم یونیسیف نے مزید 10 فلٹریشن بحال کر کے دینے کا کہا ہے لیکن ان پر ابھی کام نہیں ہو سکا۔"

شہریوں کو پانی کی فراہمی میں مشکلات کا اعٹراف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کے بعد تحصیل فریدآباد میں ایک فلاحی تنظیم نے تین واٹر سکیمیں بحال کر کے دی تھیں لیکن یہاں بھی آپریٹرز کو کئی ماہ تک تنخواہیں نہیں مل پاتیں۔

" اپریل سے مئی کے آخر تک کینالز بھل صفائی کے لیے بند ہو جاتی ہیں جبکہ گرمیوں میں پانی کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ ایک تو ہمارے پاس سٹوریج میں گنجائش کم ہے، اوپر سے بجلی اور وولٹیج کی کمی بھی پانی کی قلت کا باعث بن جاتی ہے جبکہ کوئی موٹر جل جائے تو مرمت کے الگ مسائل ہیں۔"

ایکسیئن پی ایچ ای نے بتایا کہ صحبت پور کے لیے حال ہی میں ایشئین ڈیویلپمنٹ بینک کی طرف سے ایک پراجیکٹ دیا گیا ہے جس کی لاگت سات کروڑ کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے۔ اگر یہ بن گیا تو کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن اس پر کام ہوگا یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

"ہمارے ضلع میں واٹر سپلائی اور فلٹریشن پلانٹس کے لیے بڑا پراجیکٹ درکار ہے۔" تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ صرف دو تین کے سوا تمام واٹر فلٹریشن پلانٹ فعال ہیں۔

ڈاکٹر مشتاق احمد داجلی کہتے ہیں کہ پی ایچ ای کی واٹر سپلائی کا پانی تو قطعی پینے کے قابل نہیں ہے جبکہ ٹینکرز والے جو پانی شہر لاتے ہیں وہ بھی اکثر خراب ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ کئی کئی دن دھوپ میں کھڑے رہتے ہیں جن میں کائی جم چکی ہوتی ہے اور ان ٹینکرز کو کوئی صاف نہیں کرتا۔ محکمہ پی ایچ ای والوں کو اپنا پانی ٹیسٹ کرانے کے بعد سپلائی کرنا چاہیے۔

پی ایچ ای کی طرف سے مضر صحت پانی سپلائی ہونے کی شکایات پر ایکسیئن شکراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ محکمہ کی طرف اکثر اوقات پانی ٹیسٹ کیا جاتا ہے تاہم انہوں نے کوئی ایک واٹر ٹیسٹنگ رپورٹ بھی شئیر کرنے سے انکار کر دیا۔

تاریخ اشاعت 23 اپریل 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رضوان الزمان منگی کا تعلق بلوچستان کے ضلع صحبت پور سے وہ 10 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مختلف اداروں کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.