میڈیکل کالجوں کے داخلہ ٹیسٹ میں بد انتظامی: 'پی ایم سی نے ہزاروں طلبا کا مستقبل داؤ پر لگا دیا'۔

postImg

فریال احمد ندیم

postImg

میڈیکل کالجوں کے داخلہ ٹیسٹ میں بد انتظامی: 'پی ایم سی نے ہزاروں طلبا کا مستقبل داؤ پر لگا دیا'۔

فریال احمد ندیم

حسن بھٹی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نے پڑھائی میں ہمیشہ اچھی کارکردگی دکھائی ہے لیکن انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور میں اول رہنے کے باوجود میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے کوالیفائی نہ کر سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT) 2019 میں اچھے نمبر نہیں لیے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس سال دوبارہ یہ امتحان دینے کا فیصلہ کیا اور اس کی تیاری شروع کر دی۔

ابتدا میں سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا مگر جوں جوں ٹیسٹ کی تاریخ قریب آتی گئی انہیں ایک کے بعد دوسری مشکل پیش آنے لگی۔

سب سے پہلے کورونا وائرس آیا جس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مارچ کے اختتام میں ملک بھر میں تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ نتیجتاً حکومت انٹرمیڈیٹ کے طلبا کے امتحانات کا انعقاد نہ کر سکی۔ چنانچہ پہلے سال کے امتحان میں حصہ لینے والوں کو گریڈ دینے کا ایک پیچیدہ نظام متعارف کرایا گیا جبکہ دوسرے سال کا امتحان دینے والوں کو وہی گریڈ دے دیے گئے جو انہوں نے پہلے سال میں حاصل کیے تھے۔

اگرچہ اس کا اطلاق حسن بھٹی جیسے طلبا پر براہ راست نہیں ہوا کیونکہ وہ پہلے ہی انٹرمیڈیت کا امتحان دے چکے تھے۔ تاہم بالواسطہ طور پر اس سے ان کے میڈیکل کالج میں داخلے کے امکانات پر ضرور زد پڑی۔

آئیے جانتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا:

طلبا کو میڈیکل کالج میں داخلہ انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں ان کی کارکردگی اور MDCAT میں ان کے حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر ملتا ہے۔ داخلے کے عمل میں ان دونوں عوامل کو مساوی حیثیت دی جاتی ہے۔ تاہم 2020 میں کورونا کی وبا کے باعث چونکہ طلبا کو دوسرے سال بھی وہی گریڈ دے دیے گئے جو انہوں نے پہلے سال میں حاصل کیے تھے اس لیے اس مرتبہ 1000 سے زیادہ نمبر لینے والے طلبا کی تعداد گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دگنی رہی۔ اس سے حسن بھٹی اور دوسری مرتبہ MDCAT  کے امتحان میں بیٹھنے والے طلبا کے لیے مقابلہ بڑھ گیا۔

دوسرا مسئلہ یہ سامنے آیا کہ MDCAT کا حکومت کی جانب سے مقررہ نصاب 2020 کی دوسری ششماہی کے دوران کئی مرتبہ تبدیل ہوا۔

ماضی میں پنجاب، بلوچستان اور آزاد جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبا کے لیے یہ نصاب لاہور میں قائم یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس) اور خیبر پختونخواہ کے طلبا کے لیے ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایوولیوشن ایجنسی (ای ٹی ای اے) تیار کرتی تھی۔ سندھ میں صوبائی حکومت ہر سال کسی ایک میڈیکل کالج/ یونیورسٹی کو  یہ نصاب تیار کرنے کے لیے نامزد کرتی تھی۔

اس سال ستمبر میں نئے نئے بنے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) نے ملک میں طبی تعلیم اور صحت کے نگران ادارے کے طور پر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) ۔۔جو 1962 سے کام کر رہی تھی۔۔کی جگہ لے لی۔ اس کے فوراً بعد پی ایم سی نے اعلان کیا کہ 2020 سے MDCAT کا امتحان صوبائی سطح کے بجائے ملکی سطح پر لیا جائے گا اور اس کا نصاب بھی ملک بھر میں یکساں ہو گا۔

اس فیصلے سے ان تمام طلبا کو دھچکا لگا جو 15 نومبر 2020 کو ہونے والے اس امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ انہیں کوئی اندازہ نہیں تھا کہ نیا نصاب کیسا ہو گا۔
طلبا کا مطالبہ ہے کہ میڈیکل کالجوں میں داخلے کا امتحان انٹرمیڈیٹ نصاب کے مطابق ہونا چاہیے۔

تین اکتوبر 2020 کو جب پی ایم سی نے اعلان کیا کہ راولپنڈی کے ایک سرکاری ادارے نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس (این یو ایم ایس) نے نیا نصاب تیار کیا ہے تو طلبا کے بدترین خدشات درست ثابت ہوئے۔ نیا نصاب اس سے قبل پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ میں رائج نصابوں سے نمایاں طور پر مختلف تھا۔ اس تبدیلی کے باعث ٹیسٹ سے 42 دن پہلے حسن بھٹی کو اعتماد نہیں رہا کہ وہ اس کی اچھے طریقے سے تیاری کر پائیں گے۔

چار روز بعد پی ایم سی نے اپنا یہ اعلان واپس لے لیا اور کہا کہ اس سال انٹری ٹیسٹ سابقہ نصابوں کی بنیاد پر ہی ہو گا۔ مزید دو دن کے بعد پی ایم سی نے اپنی بات ایک مرتبہ پھر تبدیل کر لی اور ایک نئے مشترکہ قومی نصاب کا اعلان کیا جو NUMS کے بنائے نصاب کی نقل تھا۔

ان دو تبدیلیوں کے باعث حسن بھٹی کے چھ قیمتی دن ضائع ہوئے تاہم ابھی انہیں مزید بہت کچھ دیکھنا تھا۔

26 اکتوبر کو پی ایم سی نے اعلان کیا کہ 9 اکتوبر کو جس مشترکہ قومی نصاب کا اعلان کیا گیا تھا اس پر انٹری ٹیسٹ سے پہلے نظر ثانی کی جائے گی۔ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ نظر ثانی شدہ نصاب کب جاری ہو گا اور یہ پہلے نصاب سے کتنا مختلف ہو گا۔ حسن بھٹی کے پاس انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

چند روز بعد جب نظر ثانی شدہ نصاب پی ایم سی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا تو اس سے طلبا کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہو گئے۔ پہلا یہ کہ نصاب کی خاطر خواہ تفصیلات نہیں دی گئی تھیں اور دوسرا یہ کہ اس میں زیادہ تر اسی نصاب کی پیروی کی گئی تھی جو وفاقی حکومت کے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے جبکہ سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں رائج نصاب اس سے مختلف ہے۔

حسن بھٹی اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں ان تبدیلیوں کے خلاف آواز اٹھانا ہو گی۔ چنانچہ انہوں نے تین دیگر طلبا کے ساتھ مل کر لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں عدالت سے کہا گیا کہ پی ایم سی کو انٹری ٹیسٹ کی تاریخ آگے بڑھانے کا حکم دیا جائے تا کہ طلبا نئے نصاب کے مطابق تیاری کر سکیں۔

لیکن لاہور ہائی کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی اور انہیں اپنے مسائل پی ایم سی کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی کے پاس لے جانے کو کہا۔

چنانچہ حسن بھٹی اور متعدد دیگر طلبا لاہور میں ڈاکٹر ارشد تقی سے ملے اور انہیں نصاب میں تبدیلی کے نتیجے میں جنم لینے والے خدشات اور طلبا کی تضیع اوقات سے مطلع کیا۔ ڈاکٹر ارشد تقی نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ امتحان میں حتمی نصاب سے ہٹ کر ایک سوال بھی نہیں پوچھا جائے گا۔ بالفرض نصاب سے ہٹ کر کوئی سوال آیا تو طلبا امتحان کے دوران مہیا کیے گئے اعتراض فارم پر اس کی نشاندی کر سکیں گے۔ مزید یقین دہانی کرانے کے لیے انہوں نے اپنی بات تحریری صورت میں لکھ کر اس پر دستخط کر کے طلبا کے حوالے کر دی۔

حسن بھٹی اور ان کے ساتھی اپنی شکایت کا ازالہ ہونے پر مطمئن ہو گئے۔

لیکن سندھ میں میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے کے خواہش مند طلبا کو کچھ اور ہی مسائل کا سامنا تھا۔ سب سے پہلے تو انہیں یہ سوال درپیش تھا کہ اس سال کون سا ادارہ MDCAT کا امتحان لے گا۔ ماضی میں سندھ حکومت خود اس امتحان کا انعقاد کراتی تھی مگر اس سال کے آغاز میں پارلیمان کے منظور کردہ پی ایم سی ایکٹ 2020 کی رو سے یہ امتحان منعقد کرانے کا اختیار پی ایم سی کو مل گیا ہے جس نے ملک بھر میں ایک یکساں نصاب کے تحت امتحان لینا ہے۔ اس سارے معاملے میں دقت یہ ہے کہ سندھ پی ایم سی کو قانونی ادارہ تصور نہیں کرتا اور اس کی کارروائیوں کا بائیکاٹ کر رہا ہے۔ اسی لیے صوبائی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ 18 اکتوبر کو خودMDCAT   کے امتحان کا انعقاد کرے گی۔

طلبا نے شکایت کی ہے کہ داخلہ ٹیسٹ میں بہت سے سوالات نصاب سے ہٹ کر پوچھے گئے۔

نتیجتاً سندھ میں MDCAT کا امتحان دینے کے خواہش مند 20 ہزار سے زیادہ طلبا کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کا ٹیسٹ پی ایم سی لے گی یا صوبائی حکومت۔لہٰذا 14 اکتوبر کو چار طلبا نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں انہوں نے استدعا کی کہ سندھ میں صوبائی سطح پر لیے جانے والے MDCAT امتحان کو روکا جائے اور پی ایم سی کی جانب سے امتحان لینے کے طریقہ کار کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔ درخواست گزار طلبا کا کہنا تھا کہ امتحان لینے کے لیے پہلے مرحلے میں پی ایم سی ایکٹ 2020 کے سیکشن 15 کی رو سے نصاب وضع کرنے کے لیے ایک تعلیمی بورڈ قائم کیا جانا لازم ہے  لیکن پی ایم سی یہ بورڈ قائم کیے بغیر امتحان لے رہا ہے۔

16 اکتوبر کو سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو انٹری ٹیسٹ لینے سے روک دیا اور امتحان کی پہلے سے اعلان کردہ تاریخ سے صرف چار روز پہلے 11 نومبر کو یہ فیصلہ بھی دیا کہ امتحان اسی صورت قانونی تصور ہو گا جب اس کے انعقاد سے پندرہ روز پہلے ماہرین تعلیم کے ایک بورڈ کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہو۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 'نیشنل اینڈ ڈینٹل اکیڈیمک بورڈ امتحانی طریقہ کار  اور MDCAT کے ضابطوں کی تشکیل کا تفصیل سے جائزہ لے کر ایک مشترکہ نصاب کا اعلان کرے گا جس کے بعد ہی نیشنل میڈیکل اتھارٹی کے ذریعے جتنا جلد ممکن ہو امتحان کی نئی تاریخ مقرر کی جائے گی'۔

عدالت نے پی ایم سی کی طرف سے طلبا کو اعتراض فارم مہیا کرنے سے بھی یہ کہہ کر روک دیا کہ 'امتحان میں پورے سوال نامے کا جائزہ لینے اور پھر اس فارم کو بھرنے میں طلبا کا بہت سا وقت خرچ ہو جائے گا'۔

عدالت نے پی ایم سی فوری طور پر ماہرین تعلیم کے بورڈ سے حتمی نصاب کی منظوری لینے کو بھی کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ پی ایم سی اپنے یہ اقدامات اٹھانے کے بعد عدالت کو مطلع کرے گی جو یہ فیصلہ کرے گی کہ انٹری ٹیسٹ کے انعقاد کی حتمی تاریخ کیا ہو گی۔

19 نومبر کو جلدی جلدی تعلیمی ماہرین کا بورڈ قائم کرنے کے بعد پی ایم سی نے اعلان کیا کہ MDCAT امتحان 29 نومبر کو منعقد ہو گا۔ بورڈ کے منظور شدہ حتمی نصاب کا اعلان ایک روز بعد ہوا۔ جب اس نصاب کی تفصیلات سامنے آئیں تو طلبا کو اندازہ ہوا کہ یہ نصاب 26 اکتوبر کو پی ایم سی کی جانب سے اعلان کردہ نصاب ہی کی نقل تھا۔

یہ دیکھ کر درخواست گزار طلبا ایک مرتبہ پھر سندھ ہائی کورٹ پہنچ گئے جہاں انہوں نے پی ایم سی کے اقدام کو توہین عدالت قرار دیتے ہوئے اس کی منسوخی کی استدعا کی۔ عدالت نے طلبا کو ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کرائی کہ حتمی نصاب ماہرین ہی کا ترتیب دیا ہوا ہو گا اور اگر انٹری ٹیسٹ میں کوئی مواد نصاب سے ہٹ کر پایا گیا تو طلبا اسے دوبارہ عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں۔

تاہم ان نصابی تبدیلیوں نے اکثر طلبا کو اچھے گریڈ حاصل کرنے کے امکانات کی بابت شکوک میں مبتلا کر دیا کیونکہ نیا نصاب ان کتابوں کی بنیاد پر بنایا گیا تھا جو وفاقی حکومت کے زیرِ اہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں اور یہ نصاب ان کتابوں سے مختلف ہے جو وہ اب تک پڑھتے چلے آئے تھے۔

ان تبدیلیوں نے حسن بھٹی کو بھی دل شکستہ کر دیا۔ عدالتی کارروائیوں کے نتیجے میں ان کے 26 قیمتی دن ضائع ہو گئے تھے جن میں انہوں نے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنا تھی۔ درحقیقت ملک بھر میں ایک لاکھ 35 ہزار سے زیادہ طلبا کو اسی صورت حال کا سامنا تھا۔

انیس سالہ عمر احمد لاہور میں پنجاب گروپ آف کالجز کے نمایاں طالب علم رہے ہیں۔ انہوں نے بھی MDCAT 2019 میں شرکت کی مگر مطلوبہ سکور حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے 89 فیصد نمبر حاصل کیے تھے جبکہ کامیابی کے لیے 91.5 فیصد نمبر درکار تھے۔ چنانچہ انہوں نے بھی اس سال دوبارہ امتحان دینے کا فیصلہ کیا۔

تاہم نصاب میں تواتر سے ہونے والی تبدیلیوں نے امتحان کے لیے ان کی تیاری کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہیں بہت مختصر وقت میں نا صرف نئے موضوعات کے بارے میں پڑھنا پڑا بلکہ نئی کتابوں سے بھی رجوع کرنا پڑا۔ وہ کہتے ہیں 'میں سخت الجھن میں تھا کہ آیا مجھے امتحان میں شرکت کرنی بھی چاہیے یا نہیں'۔

اگرچہ انہوں نے امتحان دے دیا ہے مگر پچھتاوے کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ امتحان میں چار سے پانچ فیصد سوالات نصاب سے ہٹ کر آئے تھے جو ایک اچھی خاصی شرح کہی جا سکتی ہے کیونکہ انٹری ٹیسٹ میں کامیابی اور ناکامی کے درمیان 0.1 فیصد سے بھی کم فرق ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے سوالات کے ساتھ دیے گئے جوابات کے آپشن ہی غلط تھے۔ وہ یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ پی ایم سی کو اپنے اعتراضات سے آگاہ کرنے والے بہت سے طلبا کو اعتراض فارم بھی نہیں دیے گئے تھے۔

سجاگ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے بے حد مایوسی ہوئی ہے۔ میرے پاس اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے میڈیکل کے علاوہ دیگر پہلو تلاش کرنے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہا'۔

آرمی پبلک سکول راولپنڈی کی طالبہ بینش صابر نے بھی اس سال دوسرا انٹری ٹیسٹ دیا ہے۔ پہلی کوشش میں وہ صرف 0.5 نمبروں کے فرق سے کسی میڈیکل یا ڈینٹل کالج میں داخلہ لینے سے محروم رہ گئی تھیں۔

چونکہ اس سال MDCAT کا نصاب مسلسل تبدیل ہوتا رہا اس لیے انہیں مسلسل خدشہ رہا کہ وہ دوسرے ٹیسٹ میں بھی اچھی کارکردگی نہیں دکھا پائیں گی۔ ڈاکٹر ارشد تقی کی یقین دہانی کے بعد انہوں نے خدشات کی پروا نہ کرتے ہوئے امتحان میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہوں نے طلبا سے کہا تھا کہ نصاب سے ہٹ کر کوئی سوال نہیں آئے گا اور اگر ایسا ہوا تو طلبا اس کی نشاندہی کر پائیں گے۔

انتیس نومبر کو جب انہوں نے امتحانی مرکز میں بیٹھ کر سوالنامہ دیکھا تو ان کا یہ اعتماد پارہ پارہ ہو گیا۔ انہیں پہلے چار سوالات کا جواب دینے میں پندرہ منٹ لگے کیونکہ وہ سب نصاب سے ہٹ کر آئے تھے۔ یہ دیکھ کر ان کے اندیشوں میں مزید اضافہ ہو گیا کہ کچھ سوالوں کے آگے درست جوابی آپشن نہیں لکھے گئے تھے جبکہ ایسے سوالات بھی تھے جن کے سامنے ایک سے زیادہ درست آپشن دیے گئے تھے۔

بینش بوجھل دل کے ساتھ امتحان مرکز سے باہر آئیں۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس سال بھی وہ میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں لے پائیں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ 'اگرچہ میں نے دوسری مرتبہ امتحان دینے کے لیے جوش و ولولے سے تیاری کی تھی مگر مجھے یوں لگتا ہے کہ اس مرتبہ میرے نمبر پہلے سے بھی کم آئیں گے'۔
پنجاب گروپ آف کالجز سرگودھا میں تعلیم حاصل کرنے والی شمیم طارق کے خاندان میں بہت سے لوگ ڈاکٹر ہیں۔ اسی لیے ان پر والدین کی جانب سے میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے بے حد دباؤ ہے۔ لیکن بہت سے دوسرے طلبا کی طرح وہ بھی انٹرمیڈیٹ کے پہلے سال میں اچھے نمبر نہ لے سکیں اس لیے انہوں ںے اپنی تمام توجہ دوسرے سال اچھے نمبر لینے پر مرکوز کر دی۔

تاہم کورونا کی وبا کے سبب یہ امتحان  ملتوی ہو گیا اور انہیں دوسرے سال کے لیے وہی نمبر دیے گئے جو انہوں نے پہلے سال کے امتحان میں لیے تھے۔ نتیجتاً انٹرمیڈیٹ میں ان کے مجموعی نمبر اتنے نہیں بنتے تھے کہ وہ انہی کے بل بوتے پر میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکیں۔

چنانچہ MDCAT ہی ان کی آخری امید تھی۔ اس امتحان میں بہت اچھے نمبر لینے کی صورت میں انٹرمیڈیٹ کے نمبروں کی کمی پوری ہو سکتی تھی اور یوں انہیں میڈیکل کالج میں داخلہ مل سکتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے پنجاب میں رائج نصاب کے مطابق اس امتحان کی تیاری کے لیے دو اکیڈمیوں میں داخلہ لے لیا۔

تاہم نصاب میں کی جانے والی متواتر تبدیلیوں کے باعث انہیں اچھے نمبر لینے کے اپنے امکانات دم توڑتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کے زیرِ اہتمام چلنے والے اداروں میں رائج کتابوں کی بنیاد پر بنایا گیا نصاب اس نصاب سے بہت مختلف ہے جو وہ پڑھتی رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'جب میں امتحان دے رہی تھی تو میرے ہاتھ منجمد ہو گئے۔ میرا بلڈ پریشر گر گیا اور مجھے یوں لگا جیسے میں بے ہوش ہو جاؤں گی۔ میں نے پرچہ حل کرنا چھوڑ دیا اور نگران سے کہا کہ وہ مجھے کوئی میٹھی چیز لا دے تا کہ میں اپنی توجہ برقرار رکھ سکوں'۔

انہیں پی ایم سی سے بہت سے شکایات ہیں۔ وہ اسے اپنا اور ہزاروں طلبا کا مستقبل برباد کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں 'میری تمام تیاری ضائع ہو گئی'۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

افغانستان میں طالبان کے آنے سے طورخم بارڈر کے آر پار لوگوں اور تجارتی سامان کی آمدورفت شدید مشکلات کا شکار۔

شمیم طارق کو یہ شکایت بھی ہے کہ پی ایم سی نے بہت سے طلبا کی جانب سے سوال نامے پر اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب نہیں دیا۔ وہ اس بات سے بھی ناخوش ہیں کہ کوویڈ۔19 سے متاثرہ طلبا کو MDCAT کی تیاری کے لیے فاضل وقت دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ایسے طلبا کا انٹری ٹیسٹ بعد میں لیا جائے گا جس سے انہیں ہم پر برتری حاصل ہو جائے گی'۔

محمد آصف یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس) لاہور میں ڈائریکٹر میڈیا اینڈ پبلیکیشنز کے عہدے پر کام کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سال پی ایم سی نے MDCAT کا امتحان لینے میں بہت عجلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ سجاگ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ 'پی ایم سی کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ امتحان کیسے لینا ہے۔ اس سلسلے میں قائم کیا گیا تعلیمی ماہرین کا بورڈ ایسے لوگوں پر مشتمل تھا جو انٹرمیڈیٹ کے نصاب کو نہیں سمجھتے۔ اس کے بجائے پی ایم سی کو مشترکہ قومی نصاب بنانے کے لیے مخصوص مضامین کے ماہرین کی ضرورت تھی۔

سندھ ہائی کورٹ میں طلبا کی نمائندگی کرنے والے وکیل جبران ناصر کا بھی یہی خیال ہے کہ امتحان لینے کے لیے پی ایم سی کا طرزعمل مثالی نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ 'یہ ادارہ نا صرف پی ایم سی ایکٹ 2020 پر عملدرآمد میں ناکام رہا بلکہ اس نے بہت سے مواقع پر عدالتی احکامات کی بھی خلاف ورزی کی۔ کیونکہ یہ نومبر میں MDCAT کے انعقاد پر اڑا ہوا تھا اسی لیے اس نے طلبا کی جانب سے فیصلے پر نظرثانی کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی'۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عدالت کی جانب سے نصاب کے تفصیلی تجزیے سے متعلق بورڈ کو دیے گئے حکم کے برعکس پی ایم سی نے اس بورڈ کا کردار محض نصاب پر دستخط کرنے تک محدود کر دیا۔ چنانچہ اس کے ذمے پہلے سے طے کیے گئے نصاب کی منظوری دینے کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ 'پی ایم سی نے دیانت داری سے کام نہیں لیا۔ اس نے ایک لاکھ 35 ہزار سے زیادہ طلبا کے مستقبل سے کھیلا جو کہ ایک نہایت افسوس ناک بات ہے'۔

ڈاکٹر ارشد تقی نیشنل ہسپتال لاہور میں اینستھیٹسٹ ہیں۔ وہ لاہور ہی کے راشد لطیف میڈیکل کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے بھی کام کرتے ہیں جبکہ پی ایم سی کی صدارت ان کا تیسرا عہدہ ہے۔

سجاگ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ امتحان سے متعلق مواد سندھ ہائی کورٹ کے 11 نومبر کو دیے گئے فیصلے سے پہلے ہی امتحانی مراکز میں پہنچایا جا چکا تھا جس میں اعتراض فارم بھی شامل تھا۔ اسی لیے یہ فارم بعض جگہوں پر دستیاب تھے اور بعض جگہوں پر موجود نہیں تھے۔

نصاب سے متعلق خدشات پر بات کرتے ہوئے وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تعلیمی ماہرین کے بورڈ کی جانب سے اس کی منظوری محض ایک رسمی کارروائی تھی۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ سلیبس مخصوص مضامین کے ماہرین نے تیار کیا تھا جس میں انٹرمیڈیٹ کے عام سلیبس کو بطور خاص مدنظر رکھا گیا۔ تاہم اس کے باوجود اگر  امتحان میں کوئی سوال نصاب سے ہٹ کر پوچھے گئے تو اس میں پی ایم سی کا قصور نہیں ہے۔ وہ اسے وفاقی اور صوبائی بورڈز کی نصابی کتابوں کے مابین موضوعات کے معمولی فرق کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

طلبا کا مطالبہ ہے کہ میڈیکل کالجوں میں داخلے کا ٹیسٹ دوبارہ لیا جائے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ انٹری ٹیسٹ کے نتائج کا اعلان ہونے سے پہلے امتحان کا تجزیہ کیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں 'اس طرح ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا اچھے نمبر لینے والے طلبا نے بھی کسی مخصوص سوال کا غلط جواب دیا ہے یا نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو پھر اس سوال کو متعلقہ مضمون کے ماہرین کے سامنے رکھا جائے گا۔ اگر یہ سوال واقعتاً غلط نکلا تو پھر اسے 'مارکنگ سکیم' سے نکال دیا جائےگا۔

ڈاکٹر ارشد تقی انٹری ٹیسٹ میں ناقص کارکردگی پر طلبا کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے 'طلبا یہ دیکھ کر خوف کا شکار ہو گئے کہ ٹیسٹ مشکل ہے اور اسی لیے انہوں نے امتحان پاس کرنے کا موقع کھو دیا۔ سچ یہ ہے کہ ایک ٹیسٹ اسی طرح ہی لیا جاتا ہے۔ آخر ہم مستقبل کے ڈاکٹر منتخب کر رہے ہیں جنہوں نے تربیت اور علاج کے دوران غیر یقینی کیفیت اور دباؤ سے ہی نمٹنا ہوتا ہے'۔

امتحان ملتوی کرنے کا مطالبہ کرنے والے طلبا کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'یا تو ایسے طلبا MDCAT کے حوالے سے سنجیدہ ہی نہیں تھے یا انہوں نے تیاری نہیں کی تھی'۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے 'سنجیدہ طلبا' سے سنا ہے کہ تین چار سوالات کے علاوہ باقی سوالنامہ بالکل ٹھیک تھا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ 'ہمیں امتحان کا دوبارہ انعقاد کیے بغیر داخلوں کا عمل شروع کرنا چاہیے'۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 5 جنوری 2021  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 12 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فریال احمد ندیم نے کنیئرڈ کالج لاہور سے عالمی تعلقات میں بی ایس آنرز کیا ہے۔ وہ صحت اور تعلیم سے متعلق امور پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.