نئی قانون سازی: صحت کے شعبے میں بحران کا خدشہ

postImg

فریال احمد ندیم

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

نئی قانون سازی: صحت کے شعبے میں بحران کا خدشہ

فریال احمد ندیم

loop

انگریزی میں پڑھیں

جمال اعوان کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی (کے ای ایم یو) کے فارغ التحصیل ہیں اور میو ہسپتال لاہور میں ٹرینی ڈاکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ 2019 سے وہ احتجاجی مظاہروں میں اکثر و بیشتر دکھائی دیتے رہے ہیں۔ ان کے احتجاج  کی وجہ پچھلے ایک سال متعارف کرائے گئے بعض ایسے قوانین ہیں جن کا مقصد پاکستان میں طبی شعبے کے انتظام و انصرام میں تبدیلیاں لانا ہے۔

پنجاب میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹوشنز ریفارمز ایکٹ (ایم ٹی آئی ایکٹ) ایسا پہلا قانون ہے۔ اسے پنجاب اسمبلی نے مارچ 2020 میں منظور کیا تھا۔ اگرچہ اس کی منظوری نوجوان ڈاکٹروں اور پنجاب حکومت کے مابین کئی ماہ تک جاری رہنے والے تنازعے کے بعد عمل میں آئی تھی۔ جمال کے مطابق اس قانون میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس سے نئے ڈاکٹروں کی پیشہ وارانہ ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی۔ وہ کہتے ہیں 'مجھے خدشہ ہے کہ مجھ سمیت اپنی تربیت مکمل کرنے والے بہت سے نئے ڈاکٹر اس قانون کے باعث بیروزگار رہ جائیں گے'

صوبائی حکومت نے اس قانون کے ذریعے ایسے تمام سرکاری ہسپتالوں کو انتظامی اور مالی طور پر خودمختار بنا دیا ہے جو میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ملحق ہیں۔ اب ایسے ہسپتالوں کو صوبائی حکومت کے قائم کردہ خودمختار بورڈ چلائیں گے جن کے پاس ڈاکٹروں کو بھرتی اور برخاست کرنے کا اختیار بھی ہو گا۔ جمال سمجھتے ہیں کہ ایم آئی ٹی کا قانون ایک ایسے شکاری کی طرح ہے جو ڈاکٹروں کا پیچھا کر کے ان پر حملہ کرتا ہے۔

اس قانون کے بعد ایک اور قانون لایا گیا جسے پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020 (پی ایم سی ایکٹ 2020) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جمال کے مطابق 'یہ قانون گویا پاکستان میں طبی شعبے کے پیشہ ور لوگوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش ہے'۔ پاکستان بھر میں بہت سے ڈاکٹروں کی طرح ان کی بھی یہ رائے ہے کہ 'اس دوسرے قانون نے طب کے تعلیمی اداروں کو من مرضی سے اساتذہ کو تعینات اور انہیں برخاست کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے'۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس قانون کے نتیجے میں یا تو بہت سے ادارے رقم بچانے کے لیے کمتر قابلیت کے حامل اساتذہ بھرتی کریں گے یا اعلیٰ عہدوں پر جونیئر اساتذہ کی تعیناتی عمل میں آئے گی۔ اس سے بھی بدترین بات یہ ہو سکتی ہے کہ ادارے باہر سے اساتذہ کو بلوائیں گے جس سے کسی تعلیمی ادارے کے ساتھ طویل عرصہ سے وابستہ رہنے والوں کی فوقیت اور تجربہ نظر انداز ہونے کا خدشہ ہے۔

میڈیکل ٹریبونل ایکٹ 2020 نامی ایک تیسرے قانون نے مندرجہ بالا قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کے حوصلے پست کر دیے ہیں۔ اس قانون کے باعث یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں کو ایم ٹی آئی ایکٹ یا پی ایم سی ایکٹ کے تحت چلنے والے ہسپتالوں اور طبی تعلیم کے اداروں میں بھرتی نہیں کیا جائے گا۔

یہ تینوں قوانین سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کے سر پر لٹکتی تلوار ہیں۔ جمال کے مطابق اگر کوئی ڈاکٹر مندرجہ بالا قوانین کے خلاف احتجاج کرے گا تو اسے ادارہ جاتی نظم و ضبط توڑنے کی پاداش میں نوکری سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں 'اسی لیے ہزاروں ڈاکٹر اب خود کو منفی طور سے متاثر کرنے والے قوانین کے خلاف احتجاج کا جمہوری حق بھی استعمال نہیں کر سکتے'۔ اس حق کو استعمال کرنے کی صورت میں یا تو وہ نوکریاں کھو دیں گے یا پاکستان میں ان کے پریکٹس کرنے کا اجازت نامہ بھی منسوخ ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں میڈیکل گریجوایٹ اور پریکٹس کرتے ڈاکٹروں کی بڑی تعداد بیرون ملک جانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں 'پاکستان میں پہلے ہی ڈاکٹروں کی بہت کمی ہے کیونکہ طبی ماہرین کو یہاں کام کرنے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ چونکہ ریاست انہیں سہولیات دینے سے انکار کر رہی ہے اس لیے اب یہ کمی مزید سنگین صورت اختیار کر لے گی۔

فیملی فزیشنز اور جنرل پریکٹیشنرز کو طبی تعلیم فراہم کرنے کے لیے لاہور میں قائم ادارے پاکستان اکیڈمی آف فیملی فزیشنز (پی اے ایف پی) کے صدر ڈاکٹر طارق میاں کا بھی یہی خیال ہے کہ پی ایم سی ایکٹ ڈاکٹروں کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'پوری طبی برادری ان قوانین کی مخالف ہے کیونکہ انہیں بناتے وقت ڈاکٹروں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی'۔ ان کا کہنا ہے کہ 'سینیٹ نے بھی پی ایم سی آرڈیننس 2019 مسترد کر دیا تھا کیونکہ اس میں سنگین نوعیت کی خامیاں تھیں۔ اسی لیے حکومت کو یہ قانون پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں منظور کرانا پڑے'۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ایم سی ایکٹ کے تحت بنایا گیا پاکستان میڈیکل کمیشن پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (جو اب غیر فعال ہو چکی ہے) کی طرح ایک آزاد اور خودمختار ادارہ نہیں ہے بلکہ 'یہ ایک سرکاری محکمہ ہے کیونکہ اس کے تمام ارکان کا تقرر وزیر اعظم نے کیا ہے اور اس میں بھی طبی برادری کے نمائندوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا'۔

قانون پر قانون

ایم ٹی آئی ایکٹ کے ذریعے لائی گئی ایک بڑی تبدیلی سرکاری ہسپتالوں میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں کی نجی پریکٹس سےمتعلق ہے۔ یہ قانون میڈیکل کالجوں/یونیورسٹیوں سے ملحق ہسپتالوں کے تمام کنسلٹنٹس کو اپنے ہی ہسپتال میں شام کے اوقات میں نجی پریکٹس کی اجازت دیتا ہے۔

اس کے مطابق شام کے اوقات میں نجی پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر اپنے مریضوں کے لیے اسی ہسپتال کے بیڈ، آپریشن تھیٹر اور دوسرا طبی ساز و سامان بھی استعمال کر سکیں گے۔ اس کے عوض ڈاکٹر ادارے کو کچھ رقم کی ادائیگی کرنے کے پابند بھی ہوں گے۔ تاہم جو بات اس ادائیگی کو مضحکہ خیز بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس رقم کا کچھ حصہ ادارے کے ملازمین میں تقسیم کیا جائے گا جس میں یہ کنسلٹنٹ خود بھی شامل ہیں۔ باالفاظ دیگر جو رقم وہ دیں گے اس کا کچھ حصہ انہی کو واپس کر دیا جائے گا۔

پی ایم سی ایکٹ نے نیشنل لائسنسنگ ایگزیمینیشن کی صورت میں فارغ التحصیل طلبہ کے طبی پیشہ اختیار کرنے کی راہ میں ایک نئی رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ تمام میڈیکل گریجوایٹس کے لیے پریکٹس شروع کرنے سے پہلے یہ امتحان پاس کرنا لازمی ہے اور اسی صورت میں انہیں پریکٹس کے لیے لائسنس جاری کیا جائے گا۔ اگر کوئی گریجوایٹ این ایل ای میں ناکام رہتا ہے تو اسے دوبارہ امتحان دینے اور کامیابی حاصل کرنے تک لائسنس جاری نہیں کیا جاتا۔

ایم ٹی آئی ایکٹ کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے غریب مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں سے نکال باہر کیا جا سکتا ہے حالانکہ یہ علاج معالجے کے لیے ان کی واحد امید ہوتے ہیں۔ چونکہ کنسلٹنٹس کی نجی پریکٹس کے دوران ہسپتال میں آنے والے مریض صبح کے وقت بھی وارڈز میں موجود ہوں گے اس لیے نئے آنے والے عام مریضوں کے لیے بیڈز اور دیگر سہولیات کی کمی ہو جائے گی۔ بہت سے نوجوان ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ہسپتالوں اور غریب مریضوں کی قیمت پر نجی پریکٹس کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔

جمال اعوان جیسے بہت سے نوجوان ڈاکٹر اور میڈیکل گریجوایٹ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ قانون ان کی نجی پریکٹس میں رکاوٹ ثابت ہو گا کیونکہ ان کے پرانے، سینئر اور با رسوخ ساتھی سرکاری ہسپتالوں میں نجی پریکٹس کے لیے دستیاب تمام جگہوں اور وسائل پر قبضہ جما لیں گے۔

ایم ٹی آئی ایکٹ کے قانون کی منظوری سے چند ماہ پہلے صدر پاکستان عارف علوی نے پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس بھی جاری کیا تھا جس نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو تحلیل کر کے پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے نام سے ایک نیا نگران ادارہ قائم کیا۔ پی ایم ڈی سی پاکستان میں طبی پیشے کی نگرانی کرنے والے ادارے کے طور پر طویل عرصہ سے کام کر رہی تھی۔ لیکن ڈاکٹروں، اساتذہ اور نرسوں سمیت تمام طبی عملے نے اس آرڈیننس کے خلاف پرزور احتجاج کیا ہے۔

ان میں سے بعض لوگوں نے اس آرڈیننس کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج بھی کیا جس نے بعد ازاں اسے غیر قانونی قرار دیا۔ عدالت نے حکومت سے پی ایم ڈی سی کو بحال کرنے اور اس کے 220 ملازمین کو واپس لینے کے لیے بھی کہا جنہیں آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ملازمتوں سے سبکدوش کر دیا گیا تھا۔ تاہم ستمبر 2020 میں حکومت نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیے گئے ایک ایکٹ کے ذریعے پی ایم سی کو دوبارہ متعارف کرایا۔ یہاں پر یہ امر اہم ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں نے اس مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔

ڈاکٹروں کے پی ایم سی ایکٹ پر عدم اطمینان کی متعدد وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ اس نے نیشنل لائسنسنگ ایگزیمینیشن (این ایل ای) کی صورت میں فارغ التحصیل طلبہ کے طبی پیشہ اختیار کرنے کی راہ میں ایک نئی رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔ تمام میڈیکل گریجوایٹس کے لیے پریکٹس شروع کرنے سے پہلے یہ امتحان پاس کرنا لازمی ہے کیونکہ اسی صورت میں انہیں پریکٹس کے لیے لائسنس جاری کیا جائے گا۔ اگر کوئی گریجوایٹ این ایل ای میں ناکام رہتا ہے تو اسے دوبارہ امتحان دینے اور کامیابی حاصل کرنے تک لائسنس جاری نہیں کیا جاتا۔

این ایل ای امتحان دینے والوں کو ابھی تک یہ علم نہیں ہے کہ ان سے امتحان میں کون سے سوالات اور کس طرح پوچھے جا سکتے ہیں۔ یہ نیا نظام طلبہ کے امتحان لینے والے اداروں پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اس لیے بہت سے تازہ تازہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان پر ایک اضافی ٹیسٹ مسلط کرنے کے بجائے موجودہ  امتحانی نظام کو ہی بہتر بنانا چاہیے تھا اس سے وقت اور توانائی دونوں کی بچت ہوتی۔

تاہم اس ٹیسٹ پر مبنی نظام کی تشکیل کرنے والے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ بیرون ملک منتقل ہونے والے تمام پاکستانی ڈاکٹروں کو وہاں پریکٹس شروع کرنے کے لیے اسی طرح کا ٹیسٹ پاس کرنا پڑتا ہے'۔ اگروہ دوسرے ممالک میں یہ امتحان دے سکتے ہیں تو پھر پاکستان میں ایسا کرنے میں کیا قباحت ہے'۔

بیشتر ڈاکٹروں کو پی ایم سی ایکٹ کے حوالے سے دوسری بڑی شکایت یہ ہے کہ اس میں ان کے خلاف انضباطی کارروائی کے لیے میڈیکل ٹریبونل بنانے کے لیے کہا گیا ہے جس کے ارکان میں شامل طبی و قانونی ماہرین کا تقرر وزیر اعظم کریں گے۔ ڈاکٹروں کے خلاف لاپروائی یا نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے الزام میں انضباطی کارروائی پی ایم سی، کسی طبی ادارے یا کسی بھی مریض کے کہنے پر شروع کی جا سکتی ہے۔ ٹریبونل کی جانب سے قصور وار پائے گئے ڈاکٹروں کو جرمانے سے لے کر لائسنس کی منسوخی تک سزائیں دی جاسکتی ہیں۔

ڈاکٹر طارق میاں کہتے ہیں کہ ٹریبونل کی موجودگی میں انضباطی کارروائی کے مستقل ڈر کی وجہ سے بہت سے ڈاکٹر پیچیدہ طبی کیسز کو ہاتھ نہیں ڈالیں گے جس کے نتیجے میں ملک کا پورا نظام صحت منفی طور سے متاثر ہو گا۔

ڈاکٹروں کی کوئی نمائندگی نہیں

پی ایم سی ایکٹ کے تحت پاکستان میڈیکل کمیشن تین اداروں پر مشتمل ہے جن میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈیمک بورڈ اور نیشنل میڈیکل اتھارٹی شامل ہیں۔

سترہ ارکان پر مشتمل نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈیمک بورڈ وزیراعظم کے تعینات کردہ ماہرین تعلیم پر مشتمل ہے۔ انہیں ملک بھر میں انڈر گریجوایٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے طلبہ کے لیے یکساں نصاب تیار کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ یہ لوگ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ (ایم ڈی سی اے ٹی) اور نیشنل لائسنسنگ ایگزیمینیشن (این ایل ای) کے لیے امتحانی ڈھانچہ اور نصاب بھی وضع کریں گے۔

نیشنل میڈیکل اتھارٹی کو کمیشن کا سیکرٹریٹ بنایا گیا ہے جس کے پاس متذکرہ بالا دونوں امتحانوں کے انعقاد کا اختیار ہو گا۔ اسے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو علاج معالجے کے لیے لائسنس جاری کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔ اس کے سات ارکان طبی شعبے سے لیے جائیں گے جبکہ دیگر کی تعیناتی ان کی خاص پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر عمل میں آئے گی۔

نو رکنی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو دیگر دونوں اداروں کے کام کی نگرانی سونپی گئی ہے۔ اس کے ارکان کو وزیر اعظم نامزد کریں گے جن میں چار ڈاکٹر، ایک فلاحی شخصیت، ایک وکیل، ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، ایک وفاقی سیکرٹری اور پاک فوج کا سرجن جنرل شامل ہیں۔ وفاقی حکومت کے پاس اس کے صدر اور نائب صدر کا تقرر کرنے کا اختیار بھی ہو گا جن کو کونسل کے ارکان میں سے ہی منتخب کیا جائے گا۔

حال ہی میں غیر فعال ہو جانے والی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے آخری صدر ڈاکٹر طارق بھٹہ کہتے ہیں کہ ان ارکان کا تقرر میرٹ پر نہیں ہوا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ 'بہت سے وائس چانسلروں، سربراہان شعبہ، سینئر پروفیسروں اور طبی تعلیمی اداروں کے نمایاں اساتذہ کی موجودگی میں ایک اسسٹنٹ پروفیسر کو کونسل کا صدر اور ایک ایسے وکیل کو اس کا نائب صدر بنایا گیا ہے جس کا اس پیشے سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور وہ اس شعبے کے مسائل کی بابت کچھ نہیں جانتا'۔

ڈاکٹر طارق بھٹہ اس بات پر بھی خوش نہیں ہیں کہ کونسل کے بیشتر ارکان کا تعلق سرکاری کے بجائے نجی شعبے سے ہے جبکہ پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں اور طبی تعلیمی اداروں کی تعداد اب بھی نجی اداروں سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ کہتے ہیں 'نجی شعبے کو کونسل میں نا جائز اکثریت دی گئی ہے جبکہ اس میں سرکاری شعبے کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے'۔

پاکستان میں ڈاکٹروں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے لاہور کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی بھی پی ایم سی کے ڈھانچے کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ اس کا قیام شفاف طور سے عمل میں نہیں آیا کیونکہ اس میں مفاد عامہ کو سامنے رکھنے کے بجائے کاروبار کو مقدم رکھنے والے نجی شعبے کے تجارتی مفادات کو ترجیحی حیثیت دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کورونا وبا کے اثرات یا کھاد کمپنیوں کی مَن مانی: ڈی اے پی کی قیمت ایک سال میں دگنی ہو گئی۔

وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ طبی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو کمیشن میں خاطر خواہ جگہ نہیں دی گئی۔ اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ 'اکیڈیمک بورڈ میں میڈیکل کے اساتذہ کی نمائندگی کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو ان کی سفارشات قبول یا رد کرنے کا مکمل اختیار ہے'۔

اپنے لوگ اپنا قانون

پی ایم سی ایکٹ ڈاکٹر نوشیرواں برکی کی اختراع ہے۔ وہ وزیراعظم عمران خان کے کزن، عمران خان کی مرحوم والدہ کی یاد میں لاہور میں بنائے گئے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن اور نیشنل ہیلتھ ٹاسک فورس کے چیئرمین ہیں جو وزیر اعظم عمران خان نے صحت کے شعبے میں اصلاحات کے لیے قائم کی ہے۔

ڈاکٹر نوشیرواں برکی پیشے کے اعتبار سے پروفیسر آف میڈیسن ہیں اور امریکی ریاست کنکٹیکٹ کے شہر فارمنگٹن میں یوکون جان ڈیمپسی ہسپتال میں پھیپھڑو ں کے ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پی ایم سی کا مقصد پاکستان میں صحت کے شعبے کو اس انداز میں بہتر بنانا ہے کہ یہ عالمی معیار پر پورا اتر سکے۔ ان کے خیال میں پی ایم ڈی سی کی نگرانی میں پاکستان کی طبی برادری ان معیارات سے بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'طبی تعلیمی اداروں نے نصاب پر

پوری طرح عمل نہیں کیا، علاج معالجے کے لیے لائسنسوں کے اجرا کے لیے ضوابط نظر انداز کیے گئے اور ڈاکٹروں کی جانب سے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے انحراف اور لاپروائی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا'۔

نوشیرواں برکی کا کہنا ہے کہ پی ایم سی کو حالات میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے قائم کیا گیا۔ 'اس کا بنیادی مقصد ڈاکٹروں کے مفاد کا تحفظ کرنا نہیں بلکہ عام لوگوں کو طبی عملے کی لاپروائی اور نا اہلی سے تحفظ دینا ہے'۔
 

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 12 جنوری 2021  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 19 جنوری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فریال احمد ندیم نے کنیئرڈ کالج لاہور سے عالمی تعلقات میں بی ایس آنرز کیا ہے۔ وہ صحت اور تعلیم سے متعلق امور پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.