پشاور میٹرو بس سروس: شہریوں کے لیے سہولت یا خزانے پر بوجھ؟

postImg

غلام دستگیر

postImg

پشاور میٹرو بس سروس: شہریوں کے لیے سہولت یا خزانے پر بوجھ؟

غلام دستگیر

پشاور کا بس ریپِڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) سسٹم محض پینتیس دِن چلنے کے بعد رک گیا ہے اور اس کو چلانے والوں کو معلوم نہیں کہ یہ دوبارہ کب رواں ہو سکے گا۔ اس غیر معینہ تعطل کی وجہ یہ ہے کہ اگست کی 13 تاریخ سے لے کر 16 ستمبر تک اس کی بسوں میں فنی خرابیوں کے باعث چار بار آگ لگ چکی ہے۔

بی آر ٹی چلانے والے ادارے ٹرانس پشاور کے ترجمان محمد عمیر خان کا کہنا ہے کہ بس سروس بحال کرنے سے پہلے جس کمپنی نے یہ بسیں بنائی ہیں اس کی ٹیم ہر بس کو تکنیکی اعتبار سے مکمل طور پر پرکھے گی۔ 'جب تمام بسیں نقائص سے پاک پائی جائیں گی تبھی وہ دوبارہ چلنا شروع ہوں گی'۔

سسٹم کی خوبیاں اور خامیاں

بی آر ٹی کا افتتاح 13 اگست کو وزیراعظم عمران خان نے کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے اسے ملک کا سب سے بہترین میٹرو بس منصوبہ قرار دیا۔

بی آر ٹی کا ایک گھنٹے کا سفر پشاور کے مشرقی علاقے چکمنی سے شروع ہوتا ہے اور شہر کے وسط سے گذرتے ہوئے 27.5 کلومیٹر کے بعد مغرب میں کارخانو مارکیٹ پر ختم ہوتا ہے۔ اس راستے پر 31 بس سٹیشن بنائے گئے ہیں جو ایک دوسرے سے 850 میٹر کے اوسط فاصلے پر ہیں۔

بڑی عمر کے خان گل اس ماہ کی دس تاریخ کو کالا چشمہ لگائے، سر پر سفید رومال اور سفید رنگ کی ٹوپی پہنے اور اپنے کم سن پوتے کو گود میں بٹھائے پہلی دفعہ بی آر ٹی کی بس میں ہشت نگری سے کارخانو مارکیٹ تک سفر کر رہے ہیں۔ وہ بی آر ٹی کی سروس کے شروع ہونے پر بہت خوش ہیں۔ 
تاہم اسی دن چمکنی میں واقع سٹیشن پر موجود مسافروں کو  کچھ شکایت بھی ہے- ان کا کہنا ہے کہ انہیں قریب ترین سڑک سے سٹیشن تک پہنچنے کے لئے ایک کلو میٹر سے زائد کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ 

پشاور کے قریبی شہر نوشہرہ سے آئے ہوئے جواں سال سمیع ﷲ کے لیے تو یہ راستہ طے کرنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ بڑی عمر کے لوگوں، خواتین اور بچوں کے لیے اتنا لمبا سفر پیدل طے کرنا مشکل ہے۔ ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ’جب تک کسی متبادل راستے کا انتظام نہیں ہو جاتا اُس وقت تک اس راستے پر دھوپ سے بچاؤ کے لیے کم از کم سائبان کا انتظام ہی کر دیا جائے‘۔

اسی طرح جیسے جیسے بس چمکنی سے آگے بڑھتی ہے اس میں بھیڑ بڑھنے لگتی ہے اور سیٹ حاصل کرنا محال ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ لگ بھگ پانچ کلو میٹر بعد ہشت نگری سٹیشن پر اس میں تِل دھرنے کی جگہ بھی نہیں رہتی۔

خان گل کو بھی سِیٹ حاصل کرنے کے لئے اپنے گھر کے قریب ترین سٹیشن سے چار سٹیشن پیچھے جانا پڑا۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ بسوں کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ لوگ ’بھیڑ بکریوں کی طرح ان میں سوار نہ ہوں‘۔

بسوں میں حفاظتی اقدامات کا بھی فقدان ہے۔ دورانِ سفر لاؤڈ سپیکر سے بار بار اعلان کیا جاتا ہے کہ مسافر اپنے سامان کی خود حفاظت کریں۔

پشاور صدر میں ایف سی چوک سٹیشن سے بس میں سوار ہونے والے ادھیڑ عمر مظہر حسین کے بقول ’بی آر ٹی پر لوگوں کی جیب کٹنا معمول کی بات ہے'۔ وہ اپنے گھر اور دفتر کے درمیان ان بسوں میں روزانہ سفر کرتے ہیں۔

ایک حالیہ سفر کے دوران انہوں نے ایک ہاتھ سے بس کی چھت پر لگے ہینڈل کو تھاما ہوا ہے جبکہ دوسرے ہاتھ سے انہوں نے اپنی قمیض کی بغلی جیب کو پکڑ رکھا ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ جیب کٹنے کی اہم وجہ بسوں میں گنجائش سے زیادہ لوگوں کا سوار ہونا ہے۔

ان کے خیال میں ’کوئی ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ ایک خاص تعداد سے زیادہ لوگ بس میں سوار نہ ہو سکیں۔ اس سے نہ صرف جیب کٹنے کے واقعات کم ہوں گے بلکہ لوگ بھی سکون سے سفر کریں گے‘۔

کئی مسافروں کو یہ بھی شکایت ہے کہ حیات آباد سٹیشن ایک کھلے گندے نالے پر بنایا گیا ہے جس کی ناقابلِ برداشت بو کی وجہ سے وہاں چند لمحے کھڑا ہونا بھی محال ہے۔ اس سٹیشن پر تعینات ایک بی آر ٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ مسافر تو کچھ دیر بعد وہاں سے چلے جاتے ہیں لیکن اُنہیں وہیں دس سے بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنا ہوتی ہے جس کے دوران ’بدبو کے ساتھ ساتھ مچھر بھی ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں‘۔

اسی سٹیشن پر ایک مکینک برقی سیڑھیوں کی مرمت میں مصروف ہے حالانکہ انہیں چلتے ہوئے ابھی ایک مہینہ ہی ہوا ہے۔ بی آر ٹی کے مختلف حصوں میں اس طرح کے تکنیکی مسائل روز کا معمول ہیں۔  

منصوبے میں شامل چند دیگر سہولتیں – جیسا کہ مسافروں کی گاڑیوں کے لیے پارکنگ کی جگہ، بی آر ٹی کے ٹریک کے ساتھ بنائی جانے والی تجارتی عمارات اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے والا بائیسکل ٹریک -- ابھی زیرِ تعمیر ہیں۔ ان میں سے کچھ سہولتوں کے مکمل ہونے میں مزید کئی سال لگ سکتے ہیں۔

بسوں کی پارکنگ اور مرمت کے لیے بنائے جانے والے تین ڈپوؤں میں سے بھی صرف ایک ابھی مکمل ہوا ہے جبکہ باقی دو میں سے ایک پر 70 فیصد اور دوسرے پر 75 فیصد کام باقی ہے۔

بی آر ٹی کے مالی اور انتظامی معاملات

خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بی آر ٹی کی ابتدائی لاگت 49 ارب 34 کروڑ 60 لاکھ روپے تھی تاہم اس کے شروع ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی اس کا تخمینہ 66 ارب 43 کروڑ 70 لاکھ تک جا پہنچا لیکن بات یہیں نہیں رکی بلکہ اب تک اس پر 71 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔

لاگت میں اِن تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ منصوبے کے ڈیزائن کو بھی 37 بار بدلا گیا ہے۔ ان میں سے ایک اہم تبدیلی یہ تھی کہ ابتدائی طور پر بی آر ٹی کا ٹریک چمکنی سے حیات آباد تک بنایا جانا تھا لیکن بعد میں اس میں ایک کلو میٹر کا اضافہ کر کے اسے کارخانو مارکیٹ تک بڑھا دیا گیا۔ اسی طرح گلبہار اور تہکال کے مقامات پر فلائی اوورز کی تعمیر بھی ابتدائی ڈیزائن میں شامل نہ تھی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی رجسٹریشن: 'اگر جیب میں پیسے نہیں تو ایکسائز دفتر کا رخ نہ کریں'

اس منصوبے کے لیے حکومت نے ایشیائی ترقیاتی بنک (اے ڈی بی) سے 47 کروڑ 10 لاکھ امریکی ڈالر قرضہ لیا ہے جو اسے بیس سال میں واپس کرنا ہے۔ 17 اکتوبر 2020 کو انگریزی روزنامے ایکسپریس ٹریبون میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت اس قرضے پر 15 ارب روپے صرف سُود کی مد میں ادا کرے گی۔

ایک اور قرضہ فرانس کے ایک بینک سے لیا گیا ہے جس کی مالیت 12 کروڑ 20 لاکھ امریکی ڈالر ہے۔ ان دونوں قرضوں پر سود کی ادائیگی 2023 سے شروع ہو گی۔

خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے بی آر ٹی کی تعمیر پر اپنے ذرائع سے بھی رقم خرچ کی ہے۔ ابتدائی طور پر اس رقم کا تخمینہ 7 ارب 46 کروڑ 50 لاکھ روپے لگایا گیا تھا لیکن بعد میں اسے بڑھا کر 13 ارب 11 کروڑ 70 لاکھ روپے کر دیا گیا۔

صوبائی حکومت نے بی آر ٹی کو چلتا رکھنے کے لیے بھی ایک ارب 60 کروڑ روپے سالانہ مختص کیے ہیں لیکن اگر بی آر ٹی کی بسوں میں حکومتی اندازوں سے کم مسافر سوار ہوتے ہیں تو اس رقم میں اضافہ کرنا پڑے گا-

خیبر پختونخوا کے ٹرانسپورٹ کے وزیر شاہ محمد کا کہنا ہے کہ اگر بسوں میں سفر کرنے والے لوگوں کی روزانہ تعداد ساڑھے تین لاکھ سے چار لاکھ تک پہنچ جائے تو اس سروس کو رواں دواں رہنے کے لیے صوبائی حکومت کی مالی امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔ تاہم مسافروں کی بھیڑ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بی آر ٹی کے لیے درآمد کی گئی 200 بسیں اتنے مسافروں کے لئے انتہائی نا کافی ہے۔ ان میں سے بھی محض 130 بسیں حالیہ تعطل سے پہلے چل رہی تھیں جبکہ باقی، محمد عمیر خان کے مطابق، جانچ پڑتال کے مختلف مراحل سے گذر رہی ہیں۔

الزامات اور تحفظات

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے 19 جولائی 2018 کو جمعیت علماءِ اسلام (فضل) کے ایک مقامی رہنما امان ﷲ حقانی کی جانب سے دائر کی گئی ایک پٹیشن پر فیصلہ سناتے ہوئے اس منصوبہ کو 'مشکوک' قرار دیا اور قومی احتساب بیورو کو ہدایت کی کہ وہ پانچ ستمبر 2018 تک اس کی مکمل چھان بین کر کے تحقیقی رپورٹ پشاور ہائیکورٹ میں جمع کرائے۔

لیکن خیبر پختونخوا حکومت نے اس فیصلے کے خلاف فوری طور پر سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی جس کے نتیجے میں اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قومی احتساب بیورو کو تحقیقات کرنے سے روک دیا۔

اسی طرح 7 دسمبر 2019 کو پشاور ہائی کورٹ نے مختلف لوگوں کی جانب سے دائر کی گئی ایک ہی جیسی پٹیشنز پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ بی آر ٹی کو شروع کرنے سے پہلے اس کے معاشی، مالیاتی اور تکنیکی امور کی سرکاری قواعد و ضوابط کے مطابق مکمل جانچ پڑتال نہیں کئی گئی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’بی آر ٹی کی فی کلو میٹر لاگت 242 کروڑ 70 لاکھ روپے ہے جو بہت زیادہ ہے‘ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو حکم دیا کہ 45 روز کے اندر اندر اس منصوبے کی مکمل چھان بین کر کے اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔

لیکن ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ نے4  اپریل 2020  کو ایک حکم امتناعی کے ذریعے ایف آئی اے کو چھان بین سے روک دیا۔  

یکم اپریل 2019 کو خیبر پختونخوا کی صوبائی انسپیکشن ٹیم نے بھی صوبائی وزیر اعلیٰ کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں بی آر ٹی کی تعمیر کے دوران سات ارب روپے کی خُرد بُرد کا انکشاف کیا۔ انسپیکشن ٹیم نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ یہ منصوبہ کسی جامع منصوبہ بندی کے بغیر شروع کیا گیا جس کی وجہ سے اس میں کئی تبدیلیاں کرنا پڑیں جو کہ اس کی لاگت میں خطیر اضافے کا باعث بنی ہیں۔

رواں برس فروری میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں بھی بی آر ٹی میں ناقص منصوبہ بندی،  مالی بے ضابطگیوں اور اربوں روپے کے ضیاع کی نشاندہی کی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس منصوبے میں 10.4 ارب روپے کے ایسے اخراجات شامل ہیں جو اس میں تبدیلیوں کے باعث ہوئے ہیں حالانکہ آڈیٹر جنرل کے مطابق صوبائی حکومت ان اخراجات کی قطعی مجاز نہ تھی۔ اس رپورٹ میں ساڑھے نو کروڑ روپے کی تنخواہوں کا بھی ذکر ہے جو کہ بغیر کسی سروس سٹرکچر کے بی آر ٹی کے ملازمین کو دی گئیں۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 19 ستمبر  2020  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 10 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

غلام دستگیر خیبر پختونخوا کے سیاسی، معاشی و سماجی امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بلوچستان: بجلی نہ ملی تو لاکھوں کے باغات کوڑیوں میں جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں چھوٹے پن بجلی منصوبوں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.