چھ اکتوبر کی شام 26 سالہ نوجوان صدام حسین کو بھلائے نہیں بھولتی۔
اُس روز سارا دن وقفے وقفے سے بارش ہو رہی تھی۔ سہ پہر کے وقت جب کچھ لمحوں کے لئے بارش تھمی تو صدام حسین نے اپنے چھوٹے بھائی 21 سالہ نیاز حسین کو ساتھ لیا اور ایک ٹریکٹر ٹرالی پر بیٹھ کر اپنے قصبے ٹالپر وڈا کے مرکزی بازار جا پہنچے جہاں سے انہیں گھر کے لئے سودا سلَف لانا تھا۔
واپسی پر سواری دستیاب نہ ہونے کے باعث دونوں بھائی گاؤں کی مرکزی سڑک کے راستے پیدل گھر کو راوانہ ہوئے۔ ابھی دونوں بھائیوں نے کچھ ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ اچانک نیاز حسین کا پاؤں پھسلا اور وہ سیلابی پانی کے نیچے ایک گہرے گڑھے میں جا گرا۔ اپنے آنسوؤں کے آگے بند باندھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے صدام حسین نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا کہ "نیاز کو بچانے کے لئے میں نے بھی پانی میں چھلانگ لگا دی اور سیلاب کے تند و تیز موجیں مجھے بھی ساتھ بہانے لگیں"۔
خوش قسمتی سے صدام حسین کا ہاتھ درخت کی ایک ٹہنی پر پڑا جسے انہوں نے مضبوطی سے تھام لیا۔ نصف گھنٹے بعد گاؤں کے لوگ ادھر آئے اور انہوں نے صدام حسین کی جان بچائی۔ اس کے بعد دو گھنٹے کی تگ و دو کے بعد نیاز کی لاش پانی سے نکالی جا سکی۔
صدام حسین تاسف بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ "اس لمحہ کی اذیت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا جب آپ کا کوئی اپنا آپ کی آنکھوں کے سامنے مر رہا ہو اور آپ کچھ نہ کر سکیں"۔
وہ دن اور آج کا دن، چھوٹے بھائی کی موت کی وجہ سے صدام حسین نے دوبارہ اس جگہ کا رُخ نہیں کیا۔
صدام حسین کا تعلق خیرپور شہر سے 55 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ایک گاؤں ٹالپر وڈا سے ہے جس کا آدھے سے زیادہ حصہ 18 اگست کو آنے والے سیلاب کی وجہ سے اب بھی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس قصبے کی مرکزی سڑک شمال مغرب کی جانب ہے جس کی دوسری طرف حدِ نگاہ تک پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ یہاں کے رہائشیوں کے بقول اس جگہ پر کافی تعداد میں گڑھے ہیں جن میں سے بعض کی گہرائی 20 فٹ سے بھی زیادہ ہے۔
صدام حسین کا دو کمروں کا گھر جس میں اس کے سن رسیدہ والدین، دو بھائی اور تین بہنیں رہتی تھیں بھی سیلابی ریلے کی نذر ہو چکا ہے۔ اب یہ کنبہ گاؤں میں اپنے چچّا کے ہاں ایک چھوٹے سے خستہ حال کمرے میں رہائش پذیر ہے۔
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد
اسی گاؤں کی مرکزی سڑک کے کنارے آباد 45 سالہ صدام علی کی 16 سالہ بہن بھی بپھرے سیلاب کی موجوں کی نذر ہوئی۔
سیلاب کی وجہ سے ان کے گھر میں کئی فٹ تک پانی جمع ہو گیا تھا جس کے باعث انہیں کچھ ہی فاصلے پر واقع ایک ٹیلے پر منتقل ہونا پڑا۔ اسی دوران 30 اگست کی ایک دوپہر ان کی چھوٹی بہن سیلابی پانی میں گھرے ہوئے اپنے گھر سے کچھ برتن لے کر پانی سے گزر کر واپس ٹیلے پر آ رہی تھی کہ ایک گڑھے میں گر گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ "اس روز بارش بھی بہت تیز تھی اور پانی کا نشیبی علاقوں کی طرف بہاؤ بہت تیز تھا جس کی وجہ سے میری بہن کی لاش بہہ کر دور نکل گئی جسے ڈھونڈنے میں تین دن لگے"۔
یہ بھی پڑھیں
کیا ہوا کیوں یہ سہانی بستیاں بیمار ہیں: 'ڈِگری کے سیلاب زدگان ہیضہ، بخار اور جلدی امراض کا شکار ہو رہے ہیں'۔
انہیں اپنی بہن کو اسی ٹیلے پر سپردِ خاک کرنا پڑا کیونکہ اس قصبے کا واحد قبرستان بھی پانی میں ڈوب چکا ہے۔
صدام علی نے بانس اور لکڑی کے ٹکڑوں سے ایک کشتی نما سواری بنا رکھی ہے جسے وہ ایک بیس فٹ لمبے بانس کے ذریعے آگے پیچھے دھکیلتے ہیں۔ اس سواری میں وہ قصبے کے لوگوں کو رضاکارانہ طور پر ٹیلے پر لاتے اور لے جاتے ہیں۔
سندھ کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے 25 نومبر کو جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق حالیہ سیلاب میں ضلع خیرپور میں 92 اموات ہوئی ہیں جو صوبے کی کسی بھی دوسرے ضلع میں سب سے زیادہ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ضلع میں سیلاب کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہاں پر 12 لاکھ 18 ہزار 177 لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلنا پڑا جو ضلع کے کُل آبادی کا نصف ہے۔
صدام علی بتاتے ہیں کہ امداد تو دور کی بات ہے ان کے پاس کوئی سرکاری اہل کار یا منتخب مقامی نمائندہ احوال پُرسی کے لئے بھی نہیں آیا۔ اس گاؤں کے باسی امدادی سامان کی بجائے گاؤں میں کھڑے پانی کی نکاسی کے خواہاں ہیں کیونکہ انہیں ہر وقت یہی خدشہ لاحق رہتا ہے کہ کوئی اور اس پانی میں گر جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔
تاریخ اشاعت 30 نومبر 2022