گزشتہ برس اگست میں آنے والے سیلاب نے بلوچستان کے ضلع صحبت پور کو برباد کر کے رکھ دیا جہاں دیگر نقصانات کے علاوہ 90 ہزار ایکڑ پر چاول کی فصل کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اس علاقے میں سیلاب سے ہونے والی شدید تباہی کا سبب پٹ فیڈر کینال کو قرار دیا گیا ہے جس کے کنارے ٹوٹنے سے صحبت پور اور نواحی علاقے پانی میں ڈوب گئے تھے۔
پٹ فیڈر کینال سندھ کی سرحد کے ساتھ بلوچستان کے اضلاع میں زراعت کو فروغ دینے کے لیے 1965 میں بنائی گئی تھی۔ یہ نہر گڈو بیراج میں زیرو پوائنٹ سے شروع ہو کر ضلع صحبت پور، جعفرآباد اور نصیرآباد سے گزرتی ہوئی جھل مگسی کی سرحد پہ ختم ہوتی ہے۔ صحبت پور کے ایک لاکھ 96 ہزار ایکڑ زرعی رقبے میں سے ایک لاکھ 28 ہزار ایکڑ اسی نہر سے سیراب ہوتا ہے۔
پورے نصیرآباد ڈویژن میں زراعت کا انحصار اسی نہر پر ہے۔ جب یہ نہر بنائی گئی تو اس میں 2900 کیوسک پانی آتا تھا جسے 1998 میں بڑھا کر 6700 کیوسک کر دیا گیا۔ اس طرح صحبت پور سمیت نصیرآباد ڈویژن میں زرعی سرگرمیوں کو فروغ ملا، علاقے میں معاشی استحکام آیا اور غربت کم ہو گئی۔
19 اگست 2022 کی رات صحبت پور سےگزرنے والے سیلابی ریلے نے خدابخش موری کے قریب آر ڈی 267 گوٹھ جمل خان بگٹی اور آر ڈی 280 گوٹھ سردار خان گاجانی کے مقام پر اس نہر میں دو بڑے شگاف ڈال دیے۔ اس طرح کچھ ہی دیر میں سیلاب نے وسیع علاقے کو لپیٹ میں لے لیا۔
پٹ فیڈر کے شگافوں سے نکلنے والے سیلابی پانی کے باعث اوچ کینال سمیت حیر دین ڈرینج کی مختلف شاخوں پر شدید دباؤ آ گیا۔ اس طرح ان نہروں سے بھی پانی بہہ نکلا جس نے صحبت پور میں تباہی مچا دی۔ سیلاب میں لوگوں کے گھر، مال مویشی اور فصلیں تباہ ہو گئیں۔ اس سے پہلے 2010 اور 2012 میں آنے والے سیلاب میں بھی اس نہری نظام کو نقصان پہنچا تھا لیکن اب کے تباہی کا حجم ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہا۔
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے ضلع بھر میں 21 ہزار 703 مکان اور 476 میں سے 98 سکول مکمل طور پر تباہ ہو گئے جبکہ 304 کو جزوی نقصان ہوا۔ اسی طرح ضلع بھر میں 41 بنیادی مراکز صحت میں سے 7 پانی میں بہہ گئے اور 32 جزوی طور پر متاثر ہوئے۔ سیلاب میں سینکڑوں دیہات صحفہ ہستی سے مٹ گئے، کم از کم ساڑھے چھ ہزار مویشی ہلاک ہوئے اور خریف کی فصل برباد ہو گئی۔
صحبت پور کی یونین کونسل گوراناڑی کے علاقے گوٹھ ارباب خان پندرانی کے علی گل پندرانی سیلاب سے پہلے 17 ایکڑ زمین پر کاشت کاری کرتے تھے۔ سیلاب میں ان کی فصل بہہ گئی اور گھر زمین بوس ہو گیا۔ پناہ لینے کے لیے وہ مرکزی شاہراہ پر نکل آئے جہاں امدادی اداروں نے انہیں ایک خیمہ دیا جس میں وہ اب تک مقیم ہیں۔
علی گل کہتے ہیں کہ گزشتہ برس آنے والے سیلاب کے بعد چاول اور سرسوں کی کاشت ختم ہو گئی ہے۔ انہوں نے خیمے میں سردیوں کا موسم تو جیسے تیسے گزار لیا ہے لیکن گرمیاں گزارنا بہت مشکل ہو گا۔
''پٹ فیڈر کینال ہمارے لیے خونی نہر ثابت ہوئی ہے۔ پچھلے سال کی طرح اس سال بھی بارشیں ہوئیں تو نہر میں دوبارہ شگاف پڑ سکتا ہے۔ اب ہم میں ایک اور سیلاب کو برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔''
پٹ فیڈر اور کچھی کینال کا درمیانی علاقہ ریتلا اور ڈھلانی ہونے کے باعث پہاڑیوں سے آنے والا بارشوں کا پانی اپنے ساتھ ٹنوں کے حساب سے مٹی اور پتھر بھی ساتھ لاتا ہے۔ چونکہ پٹ فیڈر ڈھلانی علاقے میں واقع ہے اس لیے یہ سارا پانی ملبے سمیت نہر میں جا گرتا ہے۔
سیلاب سے ضلع بھر میں 21 ہزار 703 مکان اور 98 سکول مکمل طور پر تباہ ہو گئے
محکمہ آبپاشی میں حیرالدین ڈرینج کے سابق ایس ڈی او الہٰی بخش گاجانی کہتے ہیں کہ پہاڑی ملبے سے پٹ فیڈر میں پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس طرح ناصرف پانی کی قلت ہو جاتی ہے بلکہ نہر کے کنارے بھی کمزور پڑ جاتے ہیں اور اس میں شگاف کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ زراعت خالد حسین چنا بھی تصدیق کرتے ہیں کہ پٹ فیڈر میں شگاف پڑنے کی بڑی وجہ اس میں جمع ہونے والی مٹی اور پتھر ہیں جبکہ نہر کے کنارے اور پشتے بھی کمزور ہیں جو سیلابی پانی کا بہاؤ برداشت نہیں کر سکتے۔
صحبت پور سے تعلق رکھنے والے انجینئر عرض محمد بتاتے ہیں کہ سیلابی پانی جب کسی نہر میں داخل ہوتا ہے تو اس راستے کو ہمیشہ کے لیے اپنا لیتا ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل اِن لیٹ گیٹ ہیں جو گاد اور سیلابی ملبے کو نہر میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ پانی کی ایسی گزرگاہوں کا انتخاب کر کے وہاں 20 فٹ کا مضبوط اور اعلیٰ معیار کا ان لیٹ گیٹ لگانا چاہیے۔ان لیٹ گیٹ کے سامنے نہر کے دوسرے کنارے پر پتھروں کی پچنگ کرنا بھی ضروری ہے تاکہ سامنے سے آنے والے تیزرفتار پانی کا بہاؤ پتھروں سے ٹکرا کر کمزور ہو جائے اور کناروں یا پشتوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
یہ بھی پڑھیں
صحبت پور میں سیلاب کے بعد جلدی بیماریاں پھوٹ پڑیں، علاج اور دواؤں سے محروم لوگ زخموں پر مٹی مل رہے ہیں
یوں تو پٹ فیڈر کینال میں اِن لیٹس گیٹ لگے ہوئے ہیں اور ان جگہوں پر نہر کے پشتے بھی مضبوط ہیں لیکن آر ڈی 280 کے مقام پر کچھی کینال اور پہاڑی علاقوں کے پانی کا راستہ بن گیا ہے جہاں اِن لیٹ گیٹ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
عرض محمد کہتے ہیں کہ پٹ فیڈر کینال کے زیرو پوائنٹ آر ڈی 298 سے لے کر میرحسن ڈِپ تک قائم پُشتے انتہائی کمزور ہو چکے ہیں۔ محکمہ آبپاشی اور حکومت کو چاہیے کہ پُشتوں کو مضبوط بنائے اور جن مقامات سے اوچ کینال کے اطراف کا پانی آ کر گرتا ہے، وہاں ان لیٹ گیٹ یا ڈسٹریز قائم کی جائیں اور پانی و گاد کا رخ کسی اور جانب موڑا جائے تاکہ ہر سال بارشوں اور سیلاب سے نہر کو نقصان نہ ہو۔
تاریخ اشاعت 22 مارچ 2023