سنتے آئے تھے کہ ' ٹیلے چلتے ہیں' لیکن اب ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی میں ریت 70 گھروں کو نگل چکی ہے۔ جبکہ پورے تین محلے اس کی لپیٹ میں ہیں جہاں کے درجنوں مکین بے بسی سے اپنے گھروں کو ریت برد ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
یہ اچانک کسی طوفان یا زلزلے کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ ایک مسلسل عذاب ہے جس سے یہاں کے باسی نبرد آزما ہیں۔ جو صبح ہوتے ہی گھروں کو بچانے لگ جاتے ہیں اور جو دن کو محنت مزدوروی کرنے جاتے ہیں وہ واپس آ کر آدھی رات تک ریت گھروں سے نکالتے ہیں۔
ماسی جماعتی 'محلہ نصراللہ' کی رہائشی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس ریت کی وجہ سے ان کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ان کا باورچی خانہ مٹی کے نیچے دب چکا ہے اور اب تو صحن میں کھانا بنا کر بھی ان کا خاندان روٹی کے ساتھ ریت کھا رہا ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس مہنگائی میں اگر گھر کا مرد ایک دن بھی مزدوری پر نہ جائے تو بچے خالی پیٹ سوتے ہیں۔
" میرے شوہر صبح سمندر میں جاتے تھے تو ہم اس امید میں ہوتے تھے کہ واپسی پر کچھ مچھلیاں گھر بھی لے آئیں گے لیکن وہ گھر سے ریت نکالتے نکاتے خود بیمار پڑ گئے ہیں۔ اب ہم نانِ شبینہ سے محروم ہو گئے ہیں۔ مدد کے لیے کونسلروں سے لے کر ایم پی اے تک کے پاس گئے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔"
پسنی کبھی مکران کے ساحلی علاقوں کی معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں سے خشک مچھلی سری لنکا، نیپال، سنگاپور وغیرہ کو برآمد ہوتی تھی اور لوگ خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ اب یہ باتیں اگرچہ ماضی کا حصہ بن چکی ہیں تاہم اب بھی یہاں کے باسیوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہی ہے۔
شہر کے جنوب مغرب میں ایک بڑا ٹیلہ ہے جسے مقامی لوگ 'مستانی ریک' کہتے ہیں۔ 'مستانی' بلوچی میں پاگل اور 'ریک' ریت کو کہا جاتا ہے۔ ساحل کی طرف سے چلنے والی ہواؤں کے نتیجے میں یہ 'پاگل ریت' آگے بڑھتی اور شہر ایک حصے کو اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے۔
ضلع گوادر کی تحصیل پسنی کے اس مرکزی شہر کی آبادی 64 ہزار ہے جس کے جنوب مغرب میں 'پاگل ٹیلے' کی لمبائی تقریباً چھ کلومیٹر اور چوڑائی نصف کلومیٹر ہے۔ اب اس ریت نے کلانچی محلہ، ھشتی کنڈ، نصراللہ محلہ اور عیدگاہ کو گھیر رکھا ہے۔
ریت میں گھرے ان محلوں میں 64 خاندانوں کے گھر زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ محلہ نصراللہ کے ساتھ ٹیلے کی اونچائی لگ بھگ 80 فٹ ہشتی کنڈ اور بنگلہ بازار کے قریب 50 فٹ جبکہ عیدگاہ کے علاقے میں اونچائی 70 فٹ ہے۔
چھیالیس سالہ محمد عمر ٹرک اڈے پر مزدوری کرتے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ سورج طلوع ہوتے ہی وہ اور ان کے بچے گھر سے ریت نکالنے میں لگ جاتے ہیں۔ جبکہ دوسروں کے بچے سکول جا رہے ہوتے ہیں۔
"کون نہیں چاہتا کہ ان کے بچے سکول جائیں لیکن ہم افسوس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔ میں مزدور آدمی ہوں اور ماہانہ 25 ہزار روپے کماتا ہوں۔ ہم تو کہیں اور جا بھی نہیں سکتے اور اگر جائیں بھی تو کہاں؟"
ستم ظریفی یہ ہے کہ گوادر کی ضلعی انتظامیہ نہ صرف اس صورت حال سے پوری طرح واقف ہے بلکہ تصدیق کرتی ہے کہ اب تک پسنی میں 70 کے قریب گھر ریت برد ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
محمد عمر کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے 40 برس سے اس علاقے میں رہائش پذیر ہیں جہاں کئی گھر ٹیلوں کے نیچے چلے گئے ہیں۔ تاہم وہ وہاں سے تھوڑا پیچھے آ گئے تھے اب یہاں بھی وہی حالت ہے۔
" جب ہم سرکار سے زمین مانگتے ہیں تو سرکاری نمائندے آتے ہیں اور تصویر کھینچ کر چلے جاتے ہیں۔ ایک بار گوادر کے ڈپٹی کمشنر نے متبادل جگہ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کا وعدہ بھی آج تک پورا نہیں ہوا۔"
اس حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر پسنی بتاتے ہیں کہ ریت سے متاثرہ 64 گھرانوں کو ببر شور کے علاقے میں 25 ایکڑ رقبہ جلد الاٹ کر دیا جائے گا۔ کوشش ہے کہ ان لوگوں کو جلد سے جلد زمین الاٹ کر کے کاغذات حوالے کر دیے جائیں۔
معلوم ہوا ہے کہ ریت متاثرین کے لیے چیئرمین ضلع کونسل گوادر سید معیار جان نوری نے انتظامیہ کو ببرشور وارڈ نمبر 1 میں اپنی ذاتی زمین دینے کی پیشکش کی ہے جس کو انتظامیہ نے قبول کر لیا ہے۔
معیار جان نوری نے اس بات کی تصدیق یا تردید نہیں کی تاہم انہوں نے کہا کہ وہ مسئلہ 90 فیصد حل کر چکے ہیں اور پسنی میں ریت متاثرین کو جلد اچھی خبر دیں گے۔
اربن پلاننگ کے ماہر غلام یاسین نے لوک سجاگ بتایا کہ ساحلی شہر پسنی کے ایک طرف بحرہ عرب اور دوسری طرف صحرا مستانی واقع ہے۔ ہر سال موسم گرما میں ہوائیں چلنے سے شہر کی قدیمی آبادی متاثر ہو رہی ہے اور گھر ریت کے نیچے آتے چلے جا رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ہیوی مشینری سے صحرا مستانی کے اوپر کی سطح پر لیولنگ کی جائے تو شہر کو نہ صرف آبادی کے لیے نئی جگہ میسر آئے گی بلکہ نیچے میں قدیمی آبادی کا بچاؤ بھی ممکن ہوگا۔ اور اس سب پر ایک اندازے کے مطابق دو سے ڈھائی کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں
سمندری حیات کے لیے مشہور پسنی کا ساحلی علاقہ مچھلیوں سے خالی کیوں ہو رہا ہے؟
محمد عمر کہتے ہیں کہ جب بھی ہوائیں چلتی ہیں شہر بھر میں سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ریت کے ذرات آنکھوں، منہ اور ناک میں گھس جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ماسک تو پہن لیتے ہیں مگر آنکھوں کو کیسے بچائیں کاش اس کا بھی کوئی حل نکل سکتا۔
ماہر سول انجیئنر طاہر میر سمجھتے ہیں کہ ریت کو پیچھے دھکیلنے پر زیادہ اخراجات نہیں آئیں گے لیکن یہ مسئلے کا عارضی حل ہو گا اس سے ریت ہمیشہ کے لیے نہیں رکے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ شہر میں کوئی پارک نہ ہونے کی وجہ سے شام کے وقت ٹیلے پر لوگوں کا رش ہوتا ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ ٹیلے کو تفریح پارک میں بدل دیا جائے۔ جس سے ریت آگے نہیں بڑھے گی اور شہریوں کو بھی صاف ستھرا ماحول میسر آئے گا۔
وارڈ نمبر پانچ کے رہائشی 60 سالہ حاصل مزدوری کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا پورا محلہ ریت میں دھنستا جا رہا ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔ سیاسی لوگ انتخابات کے وقت آتے ہیں وعدے کر کے چلے جاتے ہیں اور اس کے بعد کوئی دکھائی نہیں دیتا۔
وہ طنزیہ کہتے ہیں کہ انہیں ایک لحاظ سے اس ریت کا بہت فائدہ ہے۔"ہمیں قبر اور کفن کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ ایک دن ریت کا یہ ڈھیر ہمیں بھی اپنے نیچے زندہ دفن کر دے گا۔ اور پھر سیاست دان آ کر ہماری بے نشاں قبروں پر اپنی سیاست چمکائیں گے۔"
تاریخ اشاعت 24 جنوری 2024