جولیٹ پیٹر نے موت کو تقریباً ہر شکل میں دیکھا ہے۔ انہوں نے سر کی مہلک چوٹوں کا شکار نوجوانوں، ناکارہ ہوتے جسمانی اعضا والے بوڑھوں اور حمل کی پیچیدگیوں میں مبتلا خواتین کو اپنے سامنے مرتے دیکھا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوویڈ-19 سے ہونے والی موت جیسی ہولناک چیز کوئی اور نہیں دیکھی۔
ان کی عمر 35 سال کے قریب ہے اور وہ لاہور کے سروسز ہسپتال کے میڈیکل ایمرجنسی وارڈ میں نرس کے طور پر کام کرتی ہیں۔ وہ ہفتے میں چھ دن آٹھ سے دس گھنٹے وارڈ میں گزارتی اور کوویڈ کے مریضوں کو سنبھالتی ہیں جن کی ہسپتال آمد کا سلسلہ ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
ہسپتال میں ان کی شفٹ علی الصبح شروع ہو جاتی ہے۔ وارڈ میں داخل ہوتے ہی انہیں یا تو کسی مریض کو انجکشن لگانا ہوتا ہے یا کسی مریض کے دل کی دھڑکن یا بلڈ پریشر وغیرہ کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ اگر کوئی مریض کوویڈ میں مبتلا ہو تو انہیں اس کے خون میں آکسیجن کی سطح کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔
ان کا کام یقیناً خطرناک ہے۔ انہیں نا صرف اس بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کس مریض کو کون سی دوا کس وقت دینا ہے بلکہ انہیں اپنی صحت کے بارے میں بھی چوکس رہنا پڑتا ہے۔ وہ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے دن میں کئی مرتبہ اپنے چہرے کا ماسک تبدیل کرتی ہیں اور کام کے اوقات میں استعمال ہونے والے حفاظتی لباس اور دوسرے ساز و سامان کے حوالے سے بھی شدید احتیاط کرتی ہیں کہ کہیں یہ کورونا وائرس سے آلودہ نہ ہو جائے۔ انہیں خوف رہتا ہے کہ کہیں وہ کورونا وائرس اپنے ساتھ گھر نہ لے جائیں جہاں یہ ان کی تین سالہ بیٹی کو لگ جائے۔
تاہم یہ تمام خوف بھی جولیٹ کو اس بات پر قائل نہیں کر سکے کہ انہیں کوویڈ کی ویکسین لگوانا چاہیے۔ اس کی وجوہات بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں: ''میں نے ٹیلی ویژن پر کسی کو یہ کہتے سنا کہ وہ ویکسین لگوانے کے بعد چند دن کے اندر اپاہج ہو گئے تھے۔ بعض لوگ ویکسین لگوانے کے نتیجے میں جسم پر خراشیں آنے کی شکایات بھی کر رہے ہیں''۔ جولیٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بات کا ابھی کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا کہ ویکسین لگنے کا عمل شروع ہونے کے بعد کورونا کے مریضوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
تاہم ویکسین نہ لگوانے کے حق میں وہ سب سے بڑی دلیل یہ دیتی ہیں کہ ان کا خدا ہی ان کا حقیقی محافظ ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں ''اسی ہسپتال میں کام کرتے ہوئے ویکسین لگوائے بغیر میں نے ایک سال گزارا ہے اور اس دوران مجھے کورونا لاحق نہیں ہوا اسی لیے جب تک خدا کی مرضی ہے میں اس وائرس سے محفوظ رہوں گی''۔
لاہور کے ایک اور ہسپتال میں کام کرنے والی ارم سیمل نامی نرس بھی اس بات پر قائم ہیں کہ انہیں ویکسین کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اس کے لیے وہ کوئی اور وجہ بتاتی ہیں۔
ارم شیخ زاید ہسپتال کے جنرل ایمرجنسی وارڈ میں کام کرتی ہیں جس سے چند قدم کے فاصلے پر کورونا کی ویکسین لگانے کا مرکز موجود ہے۔ وارڈ سے باہر ایک بورڈ پر ویکسین سے آگاہی کی مہم کے حوالے سے تفصیلات دی گئی ہیں۔ وہ وقفے وقفے سے ایڑیاں اٹھا کر اس بورڈ پر دی گئی معلومات پڑھ رہی ہیں۔
چند ماہ پہلے ارم کے کوویڈ ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا تھا۔ اسی لیے وہ سمجھتی ہیں کہ اب انہیں ویکسین لگوانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی رائے میں ان کے جسم میں قدرتی طور پر اینٹی باڈیز بن گئی ہیں جو ویکسین سے زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''اس سے مجھے یہ اعتماد ملا ہے کہ میں ویکسین کے بغیر ہی وائرس کا مقابلہ کر سکتی ہوں۔''
انہیں یہ خدشہ بھی ہے کہ ویکسین ان کی صحت کو مستقبل بعید میں کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں: ''ہسپتال میں بہت سے سینئر ڈاکٹر بھی ویکسین لگوانے سے پرہیز کر رہے ہیں حالانکہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، یہ دیکھ کر میں سوچتی ہوں کہ آخر یہ ڈاکٹر ویکسین کو محفوظ کیوں نہیں سمجھتے''۔
23 سالہ جمیل احمد ایک اور ایسے طبی اہلکار ہیں جو ویکسین نہیں لگوانا چاہتے۔ وہ لاہور کے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال میں کورونا کا پتا چلانے والے وارڈ میں گھوم پھر رہے ہیں۔ انہوں نے چہرے پر ماسک لگا رکھا ہے جو بار بار کھسک کر ان کی ناک سے نیچے چلا جاتا ہے۔ لوگ اکثر ان سے رابطہ کر کے ہسپتال کی عمارت میں کسی مخصوص جگہ کا پتا پوچھتے ہیں یا یہ دریافت کرتے ہیں کہ کورونا وائرس کا ٹیسٹ کہاں اور کیسے کرایا جا سکتا ہے۔ وہ دھیمے لہجے میں تیزی سے چند الفاظ بول کر ان سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔
جمیل احمد نرسنگ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ پاکستان میں کوویڈ کی وبا آنے کے بعد انہیں کورونا وارڈز میں کئی طرح کے فرائض انجام دینا پڑے تاہم وہ اب تک اس وائرس سے بچتے چلے آئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''مجھے ویکسین کی ضرورت نہیں کیونکہ میں اس وائرس کے عروج کے دنوں میں مریضوں کے درمیان رہ کر اس کے خوف کو شکست دے چکا ہوں''۔
وبا کے ابتدائی مراحل میں وہ ویکسین کے تجربات کے لیے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرنا چاہتے تھے مگر لاہور کے میو ہسپتال میں انیستھیزیالوجسٹ کے طور پر کام کرنے والے ان کے بھائی نے انہیں کہا کہ ''ایسا سوچنا بھی مت''۔ اب اگرچہ ان کے سپروائزر انہیں کورونا کے حوالے سے ''احمقانہ'' رائے عامہ کو نظر انداز کرنے اور ویکسین لگوانے کو کہتے رہتے ہیں مگر انہوں نے اب بھی اس کا حتمی فیصلہ اپنے بھائی پر چھوڑ رکھا ہے۔
لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے والے ایک اور مرد نرس کے ویکسین نہ لگوانے کی قدرے عجیب سی وجہ ہے۔ ان کی عمر 20 اور 25 سال کے درمیان ہے۔ انہوں نے اپنے بالوں کو نفاست سے ترتیب دے رکھا ہے، سلیقے سے استری شدہ لباس پہن رکھا ہے جبکہ ان کے پاؤں میں پالش کیے ہوئے چمکتے جوتے ہیں۔ وہ اپنے فون کی سکرین پر بار بار اپنے بالوں کا جائزہ لیتے ہیں اور وقفے وقفے سے ہسپتال کے برآمدے میں اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں۔
اپنے پاؤں زمین پر رگڑتے ہوئے وہ وضاحت کرتے ہیں کہ انہوں نے ویکسین کیوں نہیں لگوانی۔ دھیمی آواز میں بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ''آپ نے نہیں سنا؟ یہ بات فیس بک پر ہر جگہ موجود ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کوویڈ ویکسین مردوں کو بانجھ بنا رہی ہے''۔ ان کے مطابق ''تولیدی صلاحیت ہی تو ہمیں مرد بناتی ہے جو ہم کسی چینی ویکسین کے لیے قربان نہیں کر سکتے''۔
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ویکسین مردوں کو ہم جنس پرست بنا دیتی ہے۔ اس لیے ان کے بقول ''ویکسین حرام ہے''۔ وہ اسے مسلمانوں کے خلاف کسی مغربی ایجنڈے کا حصہ بھی سمجھتے ہیں۔
تاہم ویکسین کے حوالے سے تشکیک صرف نچلے درجے کے طبی عملے تک ہی محدود نہیں ہے۔ بعض ڈاکٹر بھی اس سے متعلق پھیلی سازشی کہانیوں پر یقین رکھتے ہیں۔
سروسز ہسپتال میں کام کرنے والے ہاؤس آفیسر ڈاکٹر طاہر اسلام سمجھتے ہیں کہ چین میں بنائی گئی سینو فارم ویکسین سرے سے ہی غیر موثر ہے کیونکہ ''طب یا ادویہ سازی کی صنعت میں چین کی ہنرمندی ابھی مسلمہ نہیں ہے''۔ اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ''بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میرا ویکسین لگوانے میں تذبذب کوئی اچھنبے کی بات نہیں''۔
اس کے بعد وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان طبی وجوہ کی بنا پر چینی ویکسین استعمال نہیں کر رہا بلکہ اس کی وجہ سفارتی و معاشی ہے۔ ویکسین لگانے کا اقدام لوگوں کے لیے نہیں کیا جا رہا بلکہ اس کا مقصد چین کے ساتھ سفارتی تعلقات کو برقرار رکھنا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے: ''چونکہ پاکستان اور چین ایک دوسرے سے معاشی شعبے میں تعاون کر رہے ہیں اس لیے چین نے اس تعاون کے اعتراف کے طور پر جذبہ خیر سگالی کے تحت پاکستان کو ویکسین بھیجی ہے''۔
وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انسداد کوویڈ ویکسین جتنی جلد مارکیٹ میں آئی ہے اتنی جلدی کوئی موثر ویکسین تیار نہیں ہو سکتی۔ ان کے بقول: ''اچانک چار سے زیادہ ویکسین مارکیٹ میں آ گئی ہیں۔ کیا یہ بات ناقابل یقین نہیں لگتی؟''۔
انہیں سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ ان کے طویل مدتی مضر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ویکسین پر مناسب وقت میں اتنے تجربات نہیں ہوئے جتنے سائنسی طور ضروری ہوتے ہیں۔
وہ ویکسین کے کوویڈ کی نئی اقسام کے مقابل موثر ہونے پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں کیونکہ یہ نئی اقسام اس سے پہلے سامنے آنے والے وائرس کے مقابلے میں زیادہ مہلک ہیں۔
رائے عامہ
کوویڈ کی ویکسین کے حوالے سے پاکستان کو درپیش پہلا مسئلہ اس کی دستیابی کا تھا۔ اگرچہ اب بھی یہ مسئلہ بڑی حد تک برقرار ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ ایک اور مسئلہ بھی چلا آیا ہے کہ بہت سے طبی کارکن اور بڑی تعداد میں عام لوگ ویکسین لگوانے سے ہچکچا رہے ہیں۔
رائے عامہ کا باقاعدگی سے جائزہ لینے والے نجی ادارے گیلپ پاکستان کی جانب سے کیے گئے ایک حالیہ سروے میں پاکستان میں طبی شعبے سے وابستہ لوگوں میں کوویڈ ویکسین کے حوالے سے پائے جانے والے خیالات کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ سروے 10 اور 17 فروری 2021 کے درمیان کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں ملک کے چھ علاقوں، پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے 35 اضلاع میں 555 طبی کارکنوں سے رائے لی گئی۔
اس جائزے میں ایک تو یہ دکھایا گیا ہے کہ پنجاب میں 21 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 23 فیصد طبی کارکن ویکسین لگوانے پر تیار نہیں ہیں۔
جبکہ دوسری طرف اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ویکسین لگوانے سے گریزاں طبی کارکنوں میں مردوں کی نسبت خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ اسی طرح ویکسین کے حوالے سے شبہات کا شکار ڈاکٹروں میں نوجوانوں کی تعداد تجربہ کار افراد سے زیادہ پائی گئی ہے۔
ویکسین کی متعدد اقسام دستیاب ہونے کے بعد اس سروے میں یہ بھی جاننے کی کوشش کی گئی کہ لوگ کون سی ویکسین کو دوسری پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے نتائج ذیل میں دیے گئے ہیں:
تاہم سروے میں حصہ لینے والے طبی کارکنوں کی ایک نمایاں تعداد نےکہا کہ وہ کوورنا کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی قدرتی قوت مدافعت کو ترجیح دیں گے۔ اس حوالے سے ان کے رد عمل کی تفصیل ذیل میں دی گئی ہے:
سروے میں حصہ لینے والوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں کیسے یہ وائرس لاحق ہوا۔ ان میں سے 89 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ کسی طبی مرکز میں کام کرتے ہیں جہاں کورونا کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے جبکہ دس میں سے چار طبی کارکنوں کا دعویٰ تھا کہ وہ ایسے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے رہے تھے جو کوویڈ سے متاثر تھے۔ اسی طرح ہر پانچ میں دو سے زیادہ لوگ ایسے تھے جنہوں نے کوویڈ کے مریضوں کا علاج کیا تھا اور بعدازاں خود بھی اس وائرس کا نشانہ بن گئے تھے۔
اس سروے سے ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں کو ویکسین لگانے کی رفتار کا پتا بھی چلتا ہے۔ اس میں حصہ لینے والے لوگوں میں سے 59 نے تصدیق کی ہے کہ فروری 2021 کےو سط تک انہیں ویکسین لگانے کی پیشکش نہیں کی گئی تھی۔ خیبر پختونخوا میں ویکسین لگانے کا عمل سب سے سست رفتار پایا گیا جہاں سروے میں شامل لوگوں میں سے 74 فیصد تا حال ویکسین کے منتظر ہیں۔ دوسری جانب سندھ نے فروری کے وسط تک اپنے قریباً نصف طبی کارکنوں کو ویکسین لگا دی تھی۔
رائےعامہ کے جائزوں میں مہارت رکھنے والے ایک اور نجی ادارے آئی پی ایس او ایس پاکستان نے بھی کوویڈ 19 کی ویکسین سے متعلق عوامی رائے کے دو جائزے لیے ہیں۔ ان میں پہلا جائزہ دو اور چھ دسمبر 2020 کے درمیان لیا گیا جس میں 1056 لوگوں سے رائے لی گئی۔ اس جائزے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگست اور نومبر 2020 کے درمیانی عرصہ میں ویکسین لگوانے کی جانب جھکاؤ رکھنے والے لوگوں کی تعداد 37 فیصد سے بڑھ کر 62 فیصد ہو گئی جبکہ دسمبر میں جس وقت ویکسین دستیاب ہونا شروع ہوئی تو اس رحجان میں کمی ہو کر یہ جھکاؤ 60 فیصد رہ گیا۔ یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ پانچ میں سے دو لوگ اب بھی ویکسین لگوانے سے انکار کر رہے ہیں حالانکہ نا صرف حکومت بلکہ نجی شعبے کی جانب سے بھی ویکسین کے حق میں آگاہی کی مہم شروع کی جا چکی ہے۔
آئی پی ایس او ایس کے سروے میں حصہ لینے والے نصف لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں کسی بھی ویکسین کے تجربات سے بالکل لا علم تھے۔ تاہم اس سے آگاہی کا دعویٰ کرنے والوں میں سے بھی صرف 27 فیصد یہ تجربات کرنے والے ایک یا دو اداروں کے نام بتا سکے جبکہ 73 فیصد ایسے اداروں کے نام سے واقف نہیں تھے۔
اس سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اکتوبر اور دسمبر 2020 کے درمیانی عرصہ میں ویکسین کے مضر اثرات سے متعلق اندیشوں میں 6 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم اسی عرصہ میں ایسے لوگوں کی شرح میں بھی اضافہ ہوا جو یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں کوویڈ لاحق ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ ان نتائج کی تفصیل درج ذیل میں دی گئی ہے:
آئی پی ایس او ایس پاکستان نے اس کے بعد 25 فروری اور یکم مارچ 2021 کے درمیان ایک اور سروے کا انعقاد بھی کیا۔ اس میں ویکسین کی دنیا بھر میں دستیابی سے فوری بعد اسے لگوانے کے سلسلے میں قومی اور عالمگیر رحجانات کا پتا چلانے کی کوشش کی گئی۔ ایسے جائزے کُل 16 ممالک میں لیے گئے جن کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوری طور پر ویکسین لگوانے پر عدم رضامندی کے اعتبار سے پاکستان کا نمبر دوسرا ہے۔ پاکستان میں اس سروے میں حصہ لینے والوں کی اکثریت نے کہ وہ اس وقت ویکسین لگوانے کو ترجیح دیں گے جب اس کا استعمال محفوظ ثابت ہو چکا ہو گا۔
اس سروے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ویکسین لگوانے پر رضامندی کے حوالے سے پاکستان کا شمار انتہائی نچلے درجوں میں ہوتا ہے۔ اس میں حصہ لینے والوں میں 39 فیصد لوگ ایسے تھے جو ویکسین لگوانے سے یکسر انکاری تھے۔
طبی رائے
ڈاکٹر اشرف نظامی ملک میں ڈاکٹروں کی سب سے بڑی پیشہ وارانہ تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کی لاہور شاخ کے صدر ہیں۔ وہ ویکسین لگوانے میں لوگوں کی ہچکچاہٹ کی بہت سی وجوہات بتاتے ہیں۔
ان کے مطابق پہلی وجہ یہ ہے کہ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد اور وزیراعظم کے معاون خصوصی فیصل سلطان کی جانب سے ویکسین کے موثر ہونے اور اس کے مضر اثرات کی بابت ''انتہائی غیرذمہ دارانہ'' بیانات دیے گئے جنہوں نے اس حوالے سے رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ یاسمین راشد نے کہا تھا کہ 60 سال سے زیادہ عمر کے لوگ اپنی ذمہ داری پر ویکسین لگوائیں اور فیصل سلطان نے ویکسین کے کورونا وائرس کی بعض اقسام کے خلاف موثر ہونے پر شکوک کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر نظامی یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ حکومت ویکسین لگوانے کی ضرورت کے حوالے سے آگاہی مہم چلانے میں تاخیر کر رہی ہے جس کے نتیجے میں سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیل رہی ہیں ویکسین کے بارے میں عام لوگوں کے خدشات میں اضافہ ہوا۔
تاہم وہ اس کے حوالے سے تمام منفی باتوں کو ''غیرمحتاط'' اور ''غیرذمہ دارانہ'' قرار دے کر مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے تصورات کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں کیونکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا واحد علاج ویکسین ہی ہے۔ ان کے بقول اس کے بغیر وبا کو کنٹرول کرنے کی کوئی حکومتی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔
ڈاکٹر نظامی یہ وضاحت بھی کرتے ہیں کہ کوویڈ ویکسین کے نام نہاد مضراثرات دراصل انسانی جسم کا ''رد عمل'' ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق جب ہمیں ویکسین لگائی جاتی ہے تو ہمارے جسمانی نظام میں اینٹی باڈیز جنم لیتی ہیں۔ ایسے میں ہمارا جسم درد، بخار اور جلد پر دانوں اور جلن جیسی علامات کے ذریعے اپنا رد عمل دیتا ہے۔ ''یہ فطری چیز ہے اور اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں''۔
وہ ان دعووں کو بھی ''غیر منصفانہ'' قرار دیتے ہوئے رد کرتے ہیں کہ چین میں بنائی گئی ویکسین کسی دوسری ویکسین کی نسبت کم موثر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین دنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہیں اور اس کی وجہ اس کا موثر ہونا اور وبا کے دوران ہی فوری طور پر دستیاب ہونا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ''ایسے ہنگامی اقدامات کو انسانی بہتری کے ایک بڑے اقدام کے طور پر سراہا جانا چاہیے''۔
یہ بھی پڑھیں
کورونا وبا کے دوران سکول چھوڑنے والے بچوں میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ''کوئی ویکسین وائرس کے خلاف 100 فیصد تحفظ فراہم نہیں کرتی اور ہر ویکسین کی تاثیر بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے مختلف تحفظ مہیا کرتی ہیں''۔
ان کے مطابق ''بعض اس حد تک موثر ہوتی ہیں کہ ان کو لگوانے کے بعد مریض کو ہسپتال نہیں جانا پڑتا جبکہ بعض ایسی ہیں جو کورونا سے انسانی جسم کو ہونے والے نقصان کو کم سے کم سطح پر رکھتی ہیں''۔
ڈاکٹر نظامی ویکسین کو بارش سے بچاؤ کے لیے چھتری کے استعمال سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ''چھتری استعمال کرنے والا شخص بھی بارش میں بھیگ سکتا ہے مگر یقیناً اتنا نہیں جتنا وہ چھتری کے بغیر براہ راست بارش کی زد میں آ کر بھیگتا''۔
حکومتی ردِ عمل
وفاقی وزارت قومی صحت میں انفارمیشن افسر کے عہدے پر کام کرنے والے ساجد حسین شاہ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کی جانب سے کورونا ویکسین لگوانے میں تذبذب پاکستانی عوام کی ایک عام عادت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ''پاکستان دنیا کے ان دو ممالک میں سے ایک ہے جہاں تاحال پولیو کا خاتمہ نہیں ہو سکا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ پولیو کی ویکسین لگانے سے گریزاں ہیں، مگر ہم کوویڈ19 کے حوالے سے یہ غلطی نہیں دہرائیں گے''۔
ساجد حسین شاہ کوویڈ کی ویکسین کے حوالے سے رائے عامہ بیدار کرنے کی سرکاری کوششوں میں پیش پیش ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی بہت سی سازشی کہانیوں کے باعث لوگ ویکسین کے حوالے سے بڑی حد تک شبہات کا شکار ہو چکے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی وزارت کی جانب سے کورونا ویکسین کے بارے میں آگاہی سے متعلق اختیار کی گئی حکمت عملی میں موبائل فون پر بھیجے جانے والے پیغامات، اشتہارات، بِل بورڈ، میڈیا اطلاعات اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا کا مواد شامل ہے جس کے ذریعے ویکسین کے بارے میں معلومات پھیلائی جا رہی ہیں۔ وہ میڈیا کو ہر بات کے حوالے سے شکوک پیدا کرنے کے بجائے مصدقہ اطلاعات پھیلانے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کا کہتے ہیں اور وضاحت کرتے ہیں کہ ''کوویڈ کی ویکسین کے بارے میں تیزی سے غلط معلومات کا پھیلاؤ اس امر کی اہمیت نمایاں کرتا ہے کہ ہم تک پہنچنے والی اطلاعات ادارتی چھلنی سے گزر کر آئیں۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 22 مارچ 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 28 جنوری 2022