پاکستان کا شمار ان خطرناک ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر سال سڑک پر ہونے والے ٹریفک حادثات کی وجہ سے 27 ہزار اموات ریکارڈ کی جاتی ہیں، اس سے سالانہ 9 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے جو جی ڈی پی کے 4 فیصد کے مساوی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریباً 12 لاکھ لوگ سڑک پر ہونے والے ٹریفک حادثات میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں مرنے والوں میں نصف سے زیادہ پیدل چلنے والے، سائیکل سوار اور موٹر سائیکل سوار شامل ہیں۔
قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ عمرانیات کے چیئرمین اور ایچ ای سی کے پروجیکٹ، روڈ سیفٹی کے نگران ڈاکٹر محمد زمان بتاتے ہیں کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں 84 فیصد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پیدل چلنے والوں کے لیے زیبرا کراسنگ، پل، پگڈنڈی یا فٹ پاتھ کچھ بھی موجود نہیں ہے۔
"پیدل افراد اپنی جان خطرے میں ڈال کر سڑکیں پار کرتے ہیں جبکہ گاڑی والے ان کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ جہاں سڑک پر زیادہ رش ہو وہیں ڈرائیور فٹ پاتھ استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے حادثوں میں پیدل چلنے والے ہی متاثر ہوتے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ کہ پاکستان کے ٹریفک قوانین میں موٹر وہیکل آرڈیننس 1965ءاور موٹر وہیکل ریگولیشنز 1969ء شامل ہیں۔ یہ چھ دہائیاں پرانے یہ قوانین پیدل اور سائیکل سواروں کے لیے محفوظ ماحول اور کوئی بہتر حکمت عملی پیش نہیں کرتے۔
نیشنل روڈ سیفٹی سٹریٹجی 30-2018ء کی رپورٹ بھی ڈاکٹر زمان کے ان خیالات کی تائید کرتی ہے۔
لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ذیلی ادارے ٹریفک انجینئرنگ اینڈ ٹرانسپورٹ پلاننگ ایجنسی (ٹیپا) کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ پیدل چلنے والوں کی ضروریات اور ان کو فراہم کی جانے والی سہولیات کی نشاندہی کرے گی۔
لوک سجاگ نے جب ٹیپا سے لاہور کی شاہراہوں کے ساتھ موجود فٹ پاتھوں کی تفصیل کے لیے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔
لاہور شہر کے ماسٹر پلان 2021ء میں روڈ ڈیویلپمنٹ پالیسی اور روڈ سیفٹی کے حوالے سے پیدل اور سائیکل سواروں کی نقل و حرکت اور ضروریات پوری کرنے کی بات کی گئی ہے لیکن وہ ضروریات کیا ہوں گی اور انہیں کیسے پورا کیا جائے گا، اس کی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
روڈ سیفٹی پر قائداعظم یونیورسٹی کی 2023ء کی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے پانچ بڑے شہروں اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں سڑک پر موجود ہر دوسرے ڈرائیور یعنی 49 فیصد کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہی نہیں تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے میٹروپولیٹن شہروں میں 67 فیصد ڈرائیوروں کا خیال تھا کہ سڑک پر پیش آنے والے یہ حادثات انسانی غلطیوں کی بجائے' قسمت کا لکھا' ہوتے ہیں۔
10 مئی 2024ء کو جاری کردہ ریسکیو 1122 کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے چار ماہ میں لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک کے کل 32 ہزار 777 حادثات پیش آئے۔
ان حادثات میں 154 افراد ہلاک اور 35 ہزار 139 زخمی ہوئے جن میں 28 ہزار 107 مرد اور چھ ہزار 438 خواتین شامل ہیں۔ زخمیوں میں 12 ہزار 672 کی حالت تشویش ناک تھی۔ ان حادثات کی زد میں آنے والوں میں پانچ ہزار 624 راہگیر شامل تھے جو پیدل سفر کر رہے تھے ۔
ماحولیاتی قانون سازی کے ماہر احمد رافع عالم کہتے ہیں کہ ملکی آئین کا آرٹیکل 15 ہر شہری کی آزادانہ نقل و حرکت کی ضمانت دیتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا۔ بلکہ سڑکوں کا ڈیزائین گاڑیوں والوں کی سہولت کے لیے تشکیل دیا جاتا ہےحالانکہ زیادہ تعداد پیدل چلنے والوں کی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جائیکا نے 10 سال قبل ایک رپورٹ ترتیب دی تھی جس کے مطابق لاہور میں روزانہ 45 فیصد لوگ اپنے دفاتر یا منزل پر پیدل جانا پسند کرتے تھے جبکہ شہر کا ماسٹر پلان کہتا ہے کہ شاہراہیں بنانے میں پیدل افراد کو مد نظر رکھا جائے۔
پنجاب میں سگنل فری کوریڈورز 2013 ء میں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دوران بننا شروع ہوئے اور لاہور میں سب سے بڑا سگنل فری کوریڈور کینال روڈ بنایا گیا۔
لاہور میں شہری امور پر رپوٹنگ کرنے والے صحافی زین العابدین بتاتے ہیں کہ شہر کی 15 سے زائد مرکزی شاہراہیں اب سگنل فری کوریڈور میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ جن میں نظریہ پاکستان روڈ، خیابان جناح اور خیابان فردوسی پر پیدل سڑک کراس کرنے کے لیے کوئی ایک بھی پل (برج) موجود نہیں۔
"مولانا شوکت علی روڈ،کینال روڈ ٹھوکر سے شاہکام، سرکلر روڈ شیرانوالہ فلائی اوور کے بعد سگنل فری بن گیا ہے مگر سرکلر روڈ پر نہ ہی واک وے بنا اور نہ ہی پیڈیسٹرین(پیدل چلنے والوں کے لیے) پل بن سکا۔ سنٹر پوائنٹ گلبرگ سے والٹن روڈ کو سگنل فری بنانے کا کام مکمل کر لیا گیا ہے مگر پنجاب کے سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ نے بھی پیڈیسٹرین برج تعمیر نہیں کیے۔"
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت لاہور کی جیل روڈ ، پائن ایونیو ، فیروز پور روڈ گجومتہ سے مزنگ، کینال روڈ ٹھوکر سے بی آر بی کینال،کریم بلاک سے کچا جیل روڈ، سرکلر روڈ سے شمالی لاہور، راوی سے شاہدرہ تک اہم شاہراہیں سگنل فری کوریڈور بن چکی ہیں۔ لیکن سگنل ختم ہونے سے پیدل افراد کے لیے یہ شاہراہیں عبور کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
"یہاں سڑکوں کو سگنل فری تو کر دیا گیا ہے مگر دنیا بھر میں پیدل چلنے والوں کی طرح دستیاب سہولتیں نہیں دی گئیں۔"
ان کے مطابق پاکستان میں سگنل فری کوریڈور کا آئیڈیا ترکیہ اور دبئی سے لیا گیا جس کے لیے ٹیپا کے ملازمین کو ترکیہ سے ٹریننگ بھی کرائی گئی تھی تاہم اس حوالے سے شہر میں کوئی خاص منصوبہ بندی یا تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔
"نگران دور میں لاہور کی اے کیٹگری کی 90 فیصد سے زائد سڑکیں سگنل فری بن چکی ہیں، لیکن پیڈیسٹرین زون (وہ عوامی مقامات جہاں صرف پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کو جانے کی اجازت ہوتی ہے) سے محروم ہیں۔ نگران صوبائی حکومت نے 50 ارب روپے کے منصوبے مکمل کیے لیکن ایک ارب کے پیڈیسٹرین زون نہ بنا سکی۔"
زین العابدین کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار نے اپنے تین سالہ دور میں پورے شہر میں صرف ایک پیڈیسٹرین برج بنایا جو روڈ سیفٹی اور پیدل چلنے والے شہریوں کے حوالے سےحکومتی سنجیدگی کو عیاں کرتا ہے۔
جیو گرافیکل انفارمیشن سسٹم ایکسپرٹ، عمار ملک بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سڑکیں بنیادی طور پر گاڑیوں کی آمدورفت کو مدِنظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں جس میں پیدل چلنے والوں کی ضروریات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پیدل، سائیکل سواروں اور گاڑی والوں کے لیے الگ الگ لینز، پیدل چلنے والوں کے لیے موزوں کراسنگ، سڑک پر حفاظتی نشانات، فٹ پاتھ کی سہولت اور پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو بہتر کرنے سے حادثات کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
الائی میں خستہ حال خطرناک سڑکیں 50 سال سے مرمت کی منتظر: خطرناک گڑھے آئے روز انسانی جانیں لینے لگے
"ہمیں اپنے شہروں میں 'ترقی' کے مروجہ ماڈلز پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے شہری مںصوبہ سازوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ شہروں کو مشینوں کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کے رہنے کے قابل بنانے کی ضرورت ہے۔"
نیشنل روڈ سیفٹی سٹریٹجی 30-2018ء کی رپورٹ تمام سڑک استعمال کرنے والوں کی حفاظت کے لیے ایک جامع اور ڈیٹا پر مبنی حکمت عملی کی بات کرتی ہے جس میں پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کے لیے علیحدہ لین اور گاڑیوں کی حد رفتار کم رکھنےکی بات گئی ہے۔
اربن یونٹ کی پنجاب روڈ سیکٹر پالیسی رپورٹ 2020ء میں بھی شہری مقامات پر پیدل چلنے والوں کے لیے واک وے کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ موجودہ سڑکوں کی تعمیر نو اور نئی سڑکوں کو بناتے وقت پیدل چلنے والے افراد کا لازمی خیال رکھنے کی بات کی گئی۔ مگر یہ سب بھی بس اب رپورٹ کی صورت میں باقی رہ گیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق 2018ء تک پاکستان میں رجسٹرڈ گاڑیاں ایک کروڑ 80 لاکھ تھی جبکہ 2025ء میں پانچ کروڑ اور 2030ء تک ساڑھے چھ کروڑ تک پہنچنے کا امکان ہے۔ اس وقت پاکستان میں شہری آبادی 37 فیصد ہے جو 2050ء تک 50 فیصد سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔
نیشنل روڈ سیفٹی کے اندازے کے مطابق پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو ان حادثات کی تعداد 2030 میں 200 فیصد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔
تاریخ اشاعت 29 مئی 2024