مرد کے لیےطلاق آسان لیکن عورت کے لیےخلع مشکل کیوں ہے؟

postImg

ماہ پارہ ذوالقدر

postImg

مرد کے لیےطلاق آسان لیکن عورت کے لیےخلع مشکل کیوں ہے؟

ماہ پارہ ذوالقدر

اٹھائیس سالہ کلثوم بی بی میانوالی کے علاقے علو والی کی رہائشی ہیں جو دوسال سے اپنے والدین کے گھر رہائش پذیر ہیں۔ وہ اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی ہیں لیکن ان کا شوہر طلاق نہیں دے رہا جبکہ خلع کے لیے ان کے والدین نہیں مان رہے۔

"میں جب بھی گھر میں خلع کا کیس دائر کرنے کا ذکر کرتی ہوں تو کوئی بھی میری حمایت نہیں کرتا۔ سب کہتے ہیں کہ شوہر اگر طلاق دے گا تو ٹھیک ہے ورنہ یہیں اسی گھر میں بیٹھی رہو۔ انہیں لگتا ہے کہ خلع کے لیے میرا عدالت جانا پورے خاندان کے لیے بدنامی کا سبب بنے گا۔"

نکاح کے خاتمے کا طریقہ کار

پاکستان میں مسلم فیملی لاز کے تحت نکاح کے خاتمے کے لیے جو طریقے رائج ہیں ان میں طلاق، طلاقِ تفویظ، باہمی طلاق، فسخ اور خلع شامل ہیں۔

طلاق: یہ بنیادی طو ر پر مر د کا حق یا اختیار سمجھا جاتا ہے جس میں کسی عذر یا عدالت جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب مرد اپنی بیوی کو طلاق دینے کا اعلان کرتا ہے تو وہ یونین کونسل کے چیئر پرسن کو نوٹس بھجواتا ہے۔ نوٹس ملنے کے فورا بعد چیئر پرسن 'مصالحتی کمیشن' ترتیب دیتا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوتا ہے۔ یہ کمیشن 30 دنوں کے اندر اندر مصالحت کی کوششیں کرتا ہے اور ناکامی کی صورت میں نوٹس موصول ہونے کے 90 روز بعد طلا ق ہو جاتی ہے۔

طلاقِ تفویظ: طلاقِ تفویظ کے تحت بیوی بھی شوہر کو طلاق دے سکتی ہے بشرطیکہ نکاح نامے میں اسے یہ اختیار دیا گیا ہو۔ مسلم فیملی لاز آرڈیننس کی شق 8 میں طلاقِ تفویظ کا طریقہ کار درج ہے جو ویسا ہی ہے جو مرد کے لیے طلاق کا طریقہ کار ہے۔

باہمی طلاق کے تحت شوہر اور بیوی مشترکہ طور پر یونین کونسل کے دفتر سے رجوع کر کے طلاق کے طریقہ کار کے تحت طلاق نامہ حاصل کر سکتے ہیں۔

فسخ: ڈیزولیوشن آف مسلم میرج ایکٹ 1939ءکی شق 2 میں درج وجوہات کے تحت عورت اپنے شوہر سے عدالت کے ذریعے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے جن میں شوہر کا بیوی کو چھوڑ دینا، خانگی فرائض سر انجام نہ دینا، قید، نامردی اور جابرانہ سلوک وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ فسخ کی صورت میں عورت حق مہر واپس کرنے کی پابند نہیں ہوتی۔

خلع: نکاح کے خاتمے کا ایک طریقہ خلع ہے، اگر بیوی شوہر کے ساتھ نہیں رہ سکی تو بیوی خلع کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔ فیملی کورٹس ایکٹ 1964ءکے تحت بیوی اگر "اللہ کی حدود کے اندر "اپنے شوہر کے ساتھ نہ رہ سکے تو اسے عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔

طریقہ کار کے مطابق عدالت سائلہ کے شوہر کو بلاتی ہے اور تحریری جواب طلب کرتی ہے جبکہ عدالت شوہر اور بیوی کے درمیان مصالحت کے لیے تاریخ بھی مقرر کرتی ہے۔ اگر دونوں مصالحت پر راضی نہ ہوں تو عدالت خلع کا حکم جاری کر دیتی ہے۔ خلع کی ڈگری جاری ہونے کے بعد بیوی چیئرپرسن یونین کونسل کو درخواست جمع کرا کے طلاق کا سرٹیفکیٹ حاصل کر سکتی ہے۔

یونین کونسل طلاق اور طلاقِ تفویظ کے طریقے کے مطابق مصالحتی کمیشن کی ناکامی پر درخواست موصول ہونے کے 90 روز بعد طلاق کاسرٹیفکیٹ جاری کر دیتی ہے۔تاہم فیملی کورٹ ایکٹ 1964ء کی شق نمبر 10(5)کے تحت خلع کی صورت میں بیوی کو حق مہر واپس دینا پڑتا ہے۔

صدر ڈسٹرکٹ بار میانوالی فتح خان ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ خلع کے لیے بیوی کو عدالت میں ڈیزولیوشن آف میرج ایکٹ 1939ء کے تحت شادی کے خاتمے کی وجوہات کا بتانا ضروری تھا۔

درج ذیل 10 میں سے کوئی ایک وجہ ثابت کرنا ضروری تھا جن میں شوہر کا چار سال کے لیے غائب ہو جانا، دو سال تک نان و نفقہ بند کر دینا، پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنا، شوہر کو سات سال یا اس سے زائد قید ہو جانا، تین سال تک خانگی فرائض ادا نہ کرنا، شوہر کا نامرد ہونا، دو سال کے لیے فارغ العقل ہونا یا مرگی کا مریض ہونا، بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر نکاح سے انکار کرنا۔ بیوی سے ظالمانہ رویہ اور اس کے علاوہ کوئی اور وجہ جو اسلامی قوانین کے دائرہ کار میں ہو۔"

خلع کے قوانین میں تبدیلیاں:

موجودہ پاکستانی قوانین اور عدالتیں خلع کے روایتی حنفی اصول فقہ کو تسلیم نہیں کرتی ہیں جس کے تحت خلع کے لیے شوہر کی رضا مندی ضروری قرار پاتی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل مسماۃ عمر بی بی کیس میں عدالت نے اس موقف کی حمایت کی کہ خلع کے لیے شوہر کی رضا مندی ضروری ہے قیام پاکستان کے بعد 1952ء میں مسماۃ سعیدہ خانم کیس میں بھی یہی اصول برقرار رکھا گیا۔

تاہم 1959ء میں مسماۃ بلقیس فاطمہ کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ عدالت شوہر کے مرضی کے برخلاف بھی خلع کی ڈگری جاری کر سکتی ہے۔ آٹھ سال بعد سپریم کورٹ نے مسماۃ خورشید بی بی کیس میں شوہر اور بیوی دونوں کے نکاح کے خاتمے سے متعلق برابر اختیارت کی حمایت کی تھی۔

جسٹس ایس اے رحمان نے مسماۃ خورشید بی بی کیس میں ثابت کیا کہ خلع بیوی کو اپنے شوہر سے لاعلاج نفرت ہونے کی صورت میں بھی جائز ہوگی۔ اس فیصلے کی رو سے عدالت نے خلع کو فسخ سے مختلف تسلیم کیا جس کی رو سے شوہر میں کوئی خامی یا وجوہات کا ثابت کرنا ضروری نہیں رہا۔

تاہم سلیم احمد بنام حکومت پاکستان کیس میں شوہر کی مرضی کے بغیر خلع کی ڈگری جاری کرنے کو وفاقی شریعت عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ بنیادی طور پر فیملی کورٹس ایکٹ 1964ء کے سیکشن 10(4) میں ہونے والی ترمیم چیلنج کی گئی تھی جس کی رو سے بیوی کو کچھ ثابت کیے بغیر خلع حاصل کرنے کا حق مل گیا تھا۔

 فیڈرل شریعت عدالت نے اس کیس میں فیصلہ دیا کہ عورت مرد سے خلع حاصل کر سکتی ہے اگر وہ سمجھتی ہے کہ اللہ کی متعین کردہ حدود کے اندر وہ شوہر کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اس فیصلے سے کافی حد تک عورت کو خلع لینے کا اختیار مل گیا۔

خلع سے متعلق سماجی رویے

خواتین کے لیے میانوالی جیسے اضلاع میں سماجی رویے خلع کا قانونی حق حاصل کرنے کی راہ میں بھی رکاوٹ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'تشدد جھیلتی رہی ہوں مگر طلاق نہیں لے سکتی'

دو سال قبل شوہر سے خلع لینے والی میانوالی شہر کی رہائشی 32 سالہ عائشہ بتاتی ہیں کہ ان کی شادی ساڑھے تین سال جاری رہی لیکن آئے روز شوہر سے جھگڑا ہوتا تھا اور بالآخر انہوں نے خلع لینے کا فیصلہ کر لیا۔

"لیکن میرے ماں باپ اور بھائیوں نے نہ صرف خلع کی مخالفت کی بلکہ مجھ سے قطع تعلق کر لیا اور میں اکیلی عدالتوں کے چکر کاٹتی رہی۔ میں ان کی نظر میں کوئی گناہ کبیرہ کر رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ تم نے خلع لے کر پورے خاندان کو رسوا کیا ہے۔"

ایڈووکیٹ نائلہ مشتاق دھون بتاتی ہیں کہ فیملی کورٹ ایکٹ 1964ء کے سیکشن 12 اے کے تحت عدالت زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں خلع کا فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ فیملی قوانین اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں میں خلع کا حق تسلیم کیا گیا ہے تاہم عدالتوں میں بعض اوقات ججز اور خاص طور پر وکلا کا رویہ خلع حاصل کرنے والی خواتین کے بارے انتہائی نامناسب ہوتا ہے۔

سینٹر فار ہیومن رائٹس کی 2023ء میں جاری کردہ رپورٹ "پنجاب میں نکاح کی تنسیخ: مسلم خاتون کےلیے مشکلات" میں بھی اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق خلع سے متعلق قوانین میں ہونے والی ترامیم اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے پیدا ہونے آسانیوں کو وکلاء اور عام لوگ ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تبدیلیاں اسلامی خاندانی نظام کی جڑیں ہلا کے رکھ دیں گی۔

تاریخ اشاعت 21 جون 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ماہ پارہ ذوالقدر کا تعلق میانوالی سے ہے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں ماحول، تعلیم، سماجی مسائل خصوصاً خواتین و بچوں کے مسائل شامل ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.