باجوڑ کے نوا پاس کے کھلنے کی امید: اب مقامی معیشت کیا رُوپ بدلائے گی؟

postImg

محمد بلال یاسر

postImg

باجوڑ کے نوا پاس کے کھلنے کی امید: اب مقامی معیشت کیا رُوپ بدلائے گی؟

محمد بلال یاسر

حاجی محمد جان دو دہائیوں تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان عام اشیاء کی تجارت سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ باجوڑ میں واقع راہداریوں سے جلال آباد، خوست، کنڑ اور افغانستان کے دیگر شہروں تک سامان لاتے اور  لے جاتے تھے۔

"میں یہاں سے ٹرکوں میں چائے کی پتی، صابن، خوردنی تیل، دالیں، چاول اور شادی کا سامان نوا پاس سے اُدھر لے جایا کرتا تھا اور وہاں سے خشک میوہ جات اِدھر لاتا تھا جس سے اچھا خاص منافع ہوتا تھا۔"

2008ء میں حکومت پاکستان نے نوا پاس اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس جیسی درجنوں دیگر رسمی اور غیر رسمی راہداریوں کو سیکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر بند کر دیا۔

جان محمد کا کاروبار راتوں رات ٹھپ ہو گیا۔

باجوڑ کی مقامی آبادی گذشتہ 15 سالوں سے ضلع کی تین راہداریوں - ناوا پاس، لیٹئی پاس اور کگا پاس- کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرتی آ رہی ہے۔ ان میں سے ناوا پاس ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔

مولانا خان زیب ضلع باجوڑ کی تاریخ پر پشتو زبان میں لکھی گئی ایک کتاب کے مصنف ہیں۔ ساتھ ہی وہ ایک کاروباری شخصیت بھی ہیں اور تحصیل نواگئی کے بازار کے تاجروں کی نمائندہ تنظیم کے صدر رہ چکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: "ان راہداریوں کی اہمیت صرف تجارتی نہیں بلکہ یہ عوامی روابط کا اہم ذریعہ ہیں کیونکہ اکثر جگہوں پر سرحد کے دونوں جانب ایک ہی قبیلہ آباد ہے۔ جب بدامنی کو جواز بنا کر یہ گزر گاہیں بند کی گئیں تو اطراف کے لوگوں کے درمیان سماجی روابط بھی متاثر ہوئے۔"

جان محمد جب اپنے کاروبار کے مستقبل سے بالکل مایوس ہو گئے تو انہوں نے اپنی تمام جمع پونجی جوڑ کر باجوڑ ہی میں ماربل کا ایک چلتا ہوا کارخانہ خرید لیا اور اسی کاروبار سے وابستہ ہو گئے۔ لیکن وہ اب بھی سرحد کے اُس پار اپنی دوستیوں، کاروباری مراسم اور عزیزوں کا ذکر بڑے لگاؤ سے کرتے ہیں۔

نوا پاس کے دوبارہ کھلنے کی امید پر وہ کہتے ہیں کہ "اگرچہ عمر گزرنے کے ساتھ پہلے کی طرح بھاگ دوڑ کی ہمت نہیں رہی ہے، لیکن اگر بارڈر کھلا تو ایک بار ضرور اپنے بچوں کو اس طرف افغانستان لے جا کر انہیں اپنے پرانے کاروباری دوستوں سے ملواؤں گا، شاید ہماری اگلی نسل میں کاروباری اور سماجی مراسم کا ٹوٹا ہوا سلسلہ بحال ہو جائے"۔

راہداریاں بند ہونے سے کس کا بھلا ہوا؟

انور حسین کا تعلق بھی باجوڑ سے لیکن وہ چند دہائیوں سے سوات میں مقیم ہیں اور وہاں سبزی اور پھلوں کی منڈی میں آڑھت کا کام کرتے ہیں۔

انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے آبائی ضلع باجوڑ میں پھل اور سبزیاں وافر پیدا ہوتے ہیں۔ وہاں کے کاشت کار اور آڑھتیوں کو انہیں براستہ ناوا پاس افغانستان کے علاقوں کنڑ اور جلال آباد میں اچھے ریٹ مل جاتے تھے۔

"اس قیمت پر ہم سوات کی منڈی میں وہ سبزیاں نہیں لے سکتے تھے۔ ان کے لیے ناوا پاس کا آپشن ختم ہونے کا ہمیں فائدہ ہوا۔ شام کو وہاں سے سبزی کی گاڑی لوڈ ہو کر علی الصبح ہماری منڈی پہنچ جاتی ہے، ہمیں تازہ سبزیاں کم نرخ پر مل جاتی ہیں۔"

وہ مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ باجوڑ کا آلو اکتوبر کے وسط تک منڈی میں آ جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے کئی علاقوں میں آلو ناپید ہوتا ہے، اس لیے اس آلو کی فروخت سے انہیں کافی منافع ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا "دیکھا جائے تو (نواپاس) بارڈر کھلنے کا ہمیں تو نقصان ہی ہو گا، البتہ جو لوگ افغانستان سے آنے والے پھل پشاور کی منڈی کے توسط سے منگواتے ہیں، ان کو ضرور فائدہ ہوگا۔"

پشاور کی منڈی میں کام کرنے والے تاجر حاجی رحمان کہتے ہیں کہ طورخم کی راہداری سے درآمد و برآمد کے لیے پشاور کے بیوپاری مڈل مین کا کردار ادا کرتے ہیں۔ راہداریوں کی بندش کے باعث باجوڑ اور ملاکنڈ ڈویژن کے دیگر اضلاع افغان تاجروں اور منڈیوں سے براہ راست معاملات نہیں کر پاتے۔ "ان اضلاع کے بیوپاری ہمارے ہی ذریعے ساری تجارت کرتے ہیں"۔

حاجی صاحب نے بتایا کہ مقامی پیداوار پہلے بڑی گاڑیوں کے ذریعے ان کے پاس پہنچتی ہے، جنہیں وہ دوسری گاڑیوں پر لاد کر افغانستان روانہ کرتے ہیں جس سے نقل و حمل کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔

"جیسے ہمارے پاس لوکاٹ یہاں پشاور 45 ہزار روپے کرایہ ادا کرنے کے بعد پہنچا، ہم نے دوسری گاڑی میں افغانستان بھجوایا، دونوں پر ہم نے کل ایک لاکھ 40 ہزار روپے کرایہ ادا کیا۔ اگر یہ باجوڑ کے راستے جائے تو چالیس سے پچاس ہزار روپے بچ سکتے ہیں۔"

ضلع باجوڑ کے حاجی حبیب اللہ کئی دہائیوں سے چائے کی  پتی کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ناوا پاس راہداری سے افغان صوبے کنڑ کے علاقے اسد آباد تک ایک گھنٹے کی مسافت ہے لیکن اگر اسی مقام پر جانے کے لیے طورخم بارڈر سے براستہ جلال آباد جائیں تو سات گھنٹے لگتے ہیں۔ ناوار پاس سے ٹرک چالیس سے پچاس ہزار روپے تک لے گا جبکہ براستہ طورخم جانے میں اس سے تین گنا زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے۔

نوا پاس جرگے کی کوششیں: کیا سب اچھا ہے؟

2018ء میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے سات قبائلی اضلاع میں سے اورکزئی کے سوا سب کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ ان اضلاع کو افغانستان سے ملانے والی درجنوں راہداریاں ہیں جو 15 سال سے بند ہیں

بس ضلع خیبر میں طورخم، ضلع شمالی وزیرستان میں غلام خان، ضلع جنوبی وزیرستان میں انگور اڈہ اور ضلع کرّم میں خرلاچی کی راہداریوں ہی کھلی ہیں۔

ان علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد لوگ انفراسٹرکچر کی تعمیر  کی توقع لگائے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس ترقی کے مکمل ثمرات انہیں تبھی نصیب ہو سکتے ہیں جب ان بند راہداریوں کو پھر سے کھول دیا جائے۔

چند ماہ پہلے ضلع باجوڑ اور افغان صوبے کنڑ کے قبائلی عمائدین اور تاجروں نے ناوا پاس راہداری کھولنے کے لیے ایک نمائندہ جرگہ تشکیل دیا تھا۔

اس جرگے کی قیادت کرنے والے باجوڑ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بانی اور صدر حاجی لعلی شاہ پختونیار  کہتے ہیں "یہ جرگہ بہت بڑی سطح پر ہو رہا ہے، جس کے کئی دور ہو چکے ہیں۔ یہ سلسلہ پچھلے سال اکتوبر میں شروع ہوا۔ 11 اکتوبر کو پہلا اور تین دسمبر کو دوسرا دور مکمل ہوا۔ رواں برس 21 جنوری، 18 فروری اور 27 مارچ  کو بالترتیب تیسرا، چوتھا اور پانچواں دور چلا۔ چھٹا دور گزشتہ ماہ 17 اپریل کو مکمل ہوا۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

پاک-افغان سرحد کی بندش: چمن میں سینکڑوں خاندان اور کروڑوں روپے کا سامان تجارت پھنس گئے۔

یہ تمام نشستیں ناوا پاس کی راہداری پر واقع زیرو پوائنٹ پر ہوتی رہیں جس میں دونوں اطراف سے حکومتی نمائندے، تاجر اور قبائلی مشران شریک ہوئے۔"دونوں جانب سے ہمیں حتمی پیش رفت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ انشاء اللہ جلد ہی قوم کو اچھی خبر سننے کو ملے گی۔"

اسی طرح کے خیالات کا اظہار کنڑ کے مرکز اسد آباد سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما دلبار خان نے بھی کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ کنڑ کی آدھی سے زیادہ آبادی کی رشتہ داریاں سرحد کے دوسری جانب آباد قبائل سے ہیں۔ ان گزر گاہوں کے کھلنے سے سماجی رشتے بھی بحال ہوں گے جو نہایت خوش آئند بات ہوگی۔

دلبار خان کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں تازہ پھل اور خشک میوہ جات کثیر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں، مگر پاکستانی منڈیوں تک ان کی رسائی میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں۔ اگر یہ راہداریاں کھل جاتی ہیں تو  امن و خوش حالی کا دور لوٹ آئے گا۔

کاروباری برادری کی ان کوششوں کے بارے میں ڈپٹی کمشنر ضلع باجوڑ انوارالحق نے کہا کہ مذاکراتی عمل وفاقی و صوبائی ارباب اختیار کی ہدایت کی روشنی اور ضلعی انتظامیہ کی سرپرستی میں جاری ہے۔ اس جرگے کو ضلعی انتظامیہ کا مکمل تعاون اور حمایت حاصل ہے۔

تاریخ اشاعت 3 جون 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد بلال یاسر پچھلے 7 سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اخبارات اور نشریاتی اداروں کیلئے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مختلف ملکی و بین الاقوامی ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔

"بلاسفیمی بزنس": پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ

thumb
سٹوری

ضلع تھرپارکر خودکشیوں کا دیس کیوں بنتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

معلومات تک رسائی کا قانون بے اثر کیوں ہو رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ریاست خاموش ہے.....

وہ عاشق رسولﷺ تھا مگر اسے توہین مذہب کے الزام میں جلا دیا

وزیراعلیٰ پنجاب کے مسیحی ووٹرز سہولیات کے منتظر

thumb
سٹوری

پانی کی قلت سے دوچار جنوبی پنجاب میں چاول کی کاشت کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض

سندھ، عمرکوٹ: ایک طرف ہجوم کی شدت پسندی، دوسری طرف مانجھی فقیر کا صوفیانہ کلام

جامشورو پار پلانٹ: ترقیاتی منصوبوں کے سہانے خواب، مقامی لوگوں کے لیے خوفناک تعبیر

سندھ: وزیر اعلیٰ کے اپنے حلقے میں کالج نہیں تو پورے سندھ کا کیا حال ہو گا؟

thumb
سٹوری

لاہور کی چاولہ فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ
thumb
سٹوری

جامشورو تھرمل پاور سٹیشن زرعی زمینیں نگل گیا، "کول پاور پراجیکٹ لگا کر سانس لینے کا حق نہ چھینا جائے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.