افغان تاجر اور قندھار چیمبر آف کامرس کے سابق صدر حاجی جان محمد پچھلے چالیس برس سے خشک میوہ جات کی تجارت کر رہے ہیں۔ وہ چمن بارڈر کے ذریعے پاکستان میں بھی خشک میوہ جات کی تجارت کرتے ہیں لیکن اب انہوں ںے یہ سلسلہ ترک کر دیا ہے
لوک سجاگ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مسلسل خسارے کے باعث میں نے گزشتہ ایک سال سے چمن بارڈر کے ذریعے ایک روپے کا کاروبار بھی نہیں کیا۔ میں نے اپنا کاروبار دبئی منتقل کر دیا ہے۔
اگست 2021ء میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت مختلف طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ اس صورت حال سے سرحد کے دونوں جانب تاجر پریشان ہیں۔
دونوں ممالک کی باہمی تجارت کے زوال میں کارفرما عوامل پر پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر حاجی عبدالغنی اچکزئی نے بتایا کہ طالبان حکومت بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہے۔ موجودہ افغان حکومت پر پابندیوں کی وجہ سے افغانستان کی درآمدات اور برآمدات بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
"افغانستان کا بینکنگ نظام منہدم ہو چکا ہے۔ یہ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ چل نہیں رہا۔"
پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی رواں برس جاری ہونے والی ایک رپورٹ سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کے لیے "سب سے بڑا چیلنج بین الاقوامی برادری کی قبولیت اور امریکہ کی جانب سے منجمد افغان اثاثوں کا اجرا ہے۔ مختلف بین الاقوامی اداروں کی جانب سے افغان حکومت کے حکام کو شامل نہ کرنے سے کاروباری برادری اور خاص طور پر پاکستان کے لیے رکاوٹوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔"
پاکستان کی حکومت افغانستان کی جانب سے ٹیکسوں میں اضافے اور نقل و حمل پر لگائی جانے والی مختلف پابندیوں پر معترض ہے۔
اس سلسلے میں دونوں ممالک کی وزارتوں کے درمیان رواں برس کے اوائل میں دو طرفہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاملات پر ہونے والے ایک ورچوئل اجلاس میں پاکستان نے افغانستان سے کوئلے کی درآمدات اور وسط ایشیائی ریاستوں سے آنے والی اشیا پر ٹیکس میں کمی کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ افغان ٹرکوں کی آزادانہ نقل و حمل کی اجازت دے چکا ہے تاہم افغانستان نے اس کی اجازت نہیں دی جس سے اشیا اور کاروبار کی لاگت میں اضافہ ہوا۔
ٹیکسوں میں اضافے کی شکایت افغانستان کے تاجروں کو بھی ہے۔
حاجی جان محمد نے لوک سجاگ کو بتایا کہ حکومت پاکستان آئے روز تجارتی اشیا پر کسٹم ڈیوٹی بڑھا رہی ہے۔
پاکستان کی جانب سے گڈز ڈیکلریشن (جی ڈی) نامی فارم متعارف کرایا گیا ہے جس میں اشیا کا وزن، نرخ اور تعداد وغیرہ کی تفصیل درج کرنا ہوتی ہے۔ اسی فارم کی بنیاد پر ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔
حاجی جان محمد اس تبدیلی سے نالاں ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نئی پالیسی کی وجہ سے تجارت پر منفی اثر پڑا ہے۔
حاجی جان محمد کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کی جمہوری حکومت کے دور میں خشک میوہ جات کی ہماری برآمدات سالانہ تقریباً 50 کروڑ امریکی ڈالر تک تھیں مگر اب یہ صرف 15 کروڑ ڈالر تک رہ گئی ہیں۔
"اگر دنیا نے موجود افغان حکومت کو تسلیم نہ کیا اور پاکستانی حکومت نے اپنی پالیسی میں نرمی نہیں کی تو پاکستان کے ساتھ تجارت بہت کم رہ جائے گی۔ اس تجارت سے وابستہ چھوٹے تاجر، مزدور، منڈی مالکان، اگر میں یہ کہوں کہ ہزاروں لوگ، بے روزگار ہو جائیں گے تو غلط نہ ہوگا۔"
انگور اور انار جیسے تازہ پھل پاکستان برآمد کرنے والے افغان تاجر حاجی کل باران نے لوک سجاگ کو ٹیلی فون پر بتایا کہ پاکستان میں قندھاری انار اور انگور کی بہت مانگ ہے۔ سیزن کے دوران روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 130 ٹرک پاکستان جاتے ہیں تاہم پچھلے سال پاکستانی حکومت نے سیزن کے شروع میں اچانک فی ٹرک ٹیکس ایک لاکھ 70 ہزار روپے سے بڑھا کر تین لاکھ 20 ہزار روپے کر دیا۔ اس کے خلاف تاجروں نے ایک ہفتے تک احتجاج کیا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ گزشتہ برس سیزن کے دنوں میں مون سون کی بارشوں کے باعث بھی کاشتکاروں اور تاجروں کو کافی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
''ہم نے مجبوراً چمن بارڈر کے بجائے تورخم بارڈر کا رخ کیا۔ تورخم بارڈر قندھار سے تقریباً آٹھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ٹیکسز کسی حد تک کم تھے لیکن زیادہ مسافت کی وجہ سے انگور راستے ہی میں خراب ہو جاتے تھے۔ اس لیے تاجروں نے انگور اور انار افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کو برآمد کرنا شروع کر دیے ہیں۔''
پھل اور سبزیوں کے برآمد کنندہ حاجی ولی جان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران ان کاروبار بہت خراب رہا۔
''پچھلے افغان دور حکومت میں ہم موسمی پھل یا سبزیوں کے روزانہ 300 سے 350 ٹرک بھیجتے تھے تاہم افغانستان میں حالیہ سیاسی تبدیلی کے بعد یہ تعداد 150 ٹرک تک رہ گئی ہے۔
سیکورٹی کی مخدوش صورت حال بھی باہمی تجارت پر اثر انداز ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
افغانستان میں طالبان کے آنے سے طورخم بارڈر کے آر پار لوگوں اور تجارتی سامان کی آمدورفت شدید مشکلات کا شکار۔
حاجی ولی جان نے اس سبب بتاتے ہوئے کہا کہ جب سے طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا ہے سرحد پر باڑ کی تنصیب پر تین مرتبہ پاکستان کے ساتھ جھڑپ ہو چکی ہے جس کے باعث باب دوستی گیٹ ایک دو ہفتہ بند رہا جبکہ دس سے زیادہ بار نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایک یا دو دن بند رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے مقامی چھوٹے تاجر یا عارضی کام کرنے والے لوگ بھی ہڑتال اور مظاہرے کرتے ہیں۔ یہ چھوٹے تاجر سرحد کے دونوں جانب مختلف اشیا ہاتھوں میں یا سر پر اٹھا کر لاتے اور لے جاتے ہیں۔ بارڈر انتظامیہ نے کئی بار اس کاروبار کو بند کرنے کوشش کی لیکن ان لوگوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے بار بار بین الاقوامی شاہراؤں کو بند کیا۔
ان کے مطابق سرحدی تنازعات اور آئے روز کی ہڑتالوں کے باعث تاجروں نے کروڑوں روپوں کا نقصان اٹھایا ہے۔ درجنوں تاجر دیوالیہ ہو چکے ہیں جبکہ کئی تاجروں نے یہ تجارت ہی چھوڑ دی ہے۔
تاریخ اشاعت 4 مئی 2023