اربوں روپے کی لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین مسافروں کی ترجیح کیوں نہیں؟

postImg

تنویر احمد

postImg

اربوں روپے کی لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین مسافروں کی ترجیح کیوں نہیں؟

تنویر احمد

لاہور کی بستی ڈیرہ گجراں سے اگست 2021 کے تیسرے ہفتے میں دوپہر کے وقت چلنے والی میٹرو ٹرین میں کوئی سیٹ بھی خالی نہیں۔ 

لیکن جیسے جیسے یہ ٹرین اپنی بلند و بالا لائن پر آگے بڑھتی جاتی ہے مسافروں کی تعداد گھٹتی جاتی ہے اور متعدد نشستیں خالی ہوتی جاتی ہیں۔ جب یہ 27 کلومیٹر کا سفر طے کر کے ٹھوکر نیاز بیگ کے مقام پر پہنچتی ہے تو اس میں سے اترنے والے مسافروں کی تعداد اس کی گنجائش سے کہیں کم ہوتی ہے۔ اگرچہ واپسی کے سفر میں یہ ٹرین پھِر بھر جاتی ہے لیکن راستے میں کئی ایسے سٹیشن آتے ہیں جہاں سے ایک بھی نیا مسافر سوار نہیں ہوتا۔ 

لاہور میں اس وقت اورنج لائن منصوبے کے تحت ایسی 22 ٹرینیں چل رہی ہیں جو ہر روز مجموعی طور پر 290 مرتبہ ڈیرہ گجراں اور ٹھوکر نیاز بیگ کے درمیان چلتی ہیں۔
اس منصوبے سے متعلقہ حکومتی دستاویزات میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ ان ٹرینوں میں ہر روز اڑھائی لاکھ لوگ سفر کریں گے۔ لیکن اکتوبر 2020 میں ان کی آمدورفت شروع ہونے کے بعد ابھی تک ان سے فائدہ اٹھانے والے مسافروں کی یومیہ تعداد اس اندازے سے کہیں کم رہی ہے۔

اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کو چلانے کے ذمہ دار حکومتی ادارے، پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی، کے اہل کار تخمینے اور حقیقت میں اس واضح فرق کو تسلیم کرتے ہیں۔ اتھارٹی کے جنرل منیجر آپریشنز عزیر شاہ کہتے ہیں کہ اس وقت روزانہ اوسطاً صرف 70 ہزار لوگ ان ٹرینوں میں سفر کر رہے ہیں۔ 

لوگ اورنج لائن پر سفر کیوں نہیں کرتے؟

اورنج لائن میٹرو ٹرین کا روٹ جنوب مغرب میں ملتان روڈ سے شروع ہوتا ہے جو لاہور میں داخل ہونے والی مصروف ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔ لیکن دوسری طرف شمال مغرب میں یہ روٹ ڈیرہ گجراں کے مقام پر ختم ہوتا ہے جو نہ صرف ایک غیر معروف جگہ ہے بلکہ کسی بڑی سڑک سے منسلک بھی نہیں۔

عزیر شاہ اس کا موازنہ لاہور ہی میں چلنے والی میٹرو بس سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس بس کا روٹ بھی 27 کلومیٹر طویل ہے لیکن اس میں سفر کرنے والوں کی یومیہ تعداد ایک لاکھ 80 ہزار تک بھی رہی ہے کیونکہ اس کا جنوبی سِرا اسے قصور شہر  سے جوڑتا ہے جہاں سے ہر روز ہزاروں لوگ لاہور آتے ہیں جبکہ اس کا شمالی سِرا ان سڑکوں پر واقع ہے جو شیخوپورہ اور گجرانوالہ جیسے آبادی کے بڑے مراکز کو لاہور سے جوڑتی ہیں۔ 

اورنج لائن میٹرو ٹرین پر مسافروں کے کم ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ نہ تو لاہور کے بڑے بڑے کاروباری اور تجارتی مراکز میں سے گزرتی ہے اور نہ ہی بڑی تعداد میں سرکاری اور نِجی دفاتر اس کے روٹ پر واقع ہیں۔ اس کے 26 سٹیشنوں میں سے صرف چند ہی ایسے ہیں جو لاہور ہائی کورٹ، ہال روڈ اور لاہور کے مرکزی ریلوے اسٹیشن جیسے مصروف علاقوں کے پاس واقع ہیں۔ 

لیکن ہائی کورٹ اور ہال روڈ کے آس پاس پارک کیے گئے موٹر سائیکلوں اور کاروں کی تعداد دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں آنے والے بیشتر لوگ اورنج لائن پر سفر نہیں کر رہے۔ 

گزشتہ 14 سال سے وکالت کرنے والے ظفر اقبال وضاحت کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ملتان روڈ پر واقع ان کا گھر اور لاہور ہائی کورٹ دونوں اورنج لائن میٹرو ٹرین کے روٹ سے منسلک ہیں لیکن وہ پھر بھی کام پر جانے کے لیے اپنی کار استعمال کرتے ہیں کیونکہ، ان کے بقول، "میں ٹرین کے ذریعے صرف لاہور ہائی کورٹ تک ہی جا سکتا ہوں جبکہ مجھے شہر کے مختلف علاقوں میں واقع کئی اور عدالتوں میں بھی پیش ہونا ہوتا ہے"۔ 

شہریوں کی ذاتی گاڑیوں کے علاوہ اورنج لائن کو موٹر سائیکل رکشوں سے بھی مقابلہ درپیش ہے۔ اس کے تمام روٹ پر یہ رکشے بڑی تعداد میں مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لاتے لے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ بعض مقامات پر تو یہ ٹرین سٹیشن کے عین نیچے مسافروں کو اتار اور بٹھا رہے ہوتے ہیں۔ 

ایک حالیہ دوپہر کو 50 سالہ مزدور عزیز الرحمن ملتان روڈ اور وحدت روڈ کے سنگم پر واقع ایک ٹرین سٹیشن کے پاس کھڑے ہوئے رکشے میں بیٹھے ہیں اور چوبرجی جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے صرف دو بار اورنج لائن میٹرو ٹرین پر سفر کیا ہے لیکن وہ اس کے نظام سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ انہیں اس کے سٹیشن پر پہنچنے کے لیے بہت سی سیڑھیاں چڑھنا، تلاشی دینا، ٹکٹ حاصل کرنا اور پھر ٹرین کا انتظار کرنا پسند نہیں آیا۔

40 سالہ محمد اسرار کو بھی ٹرین کے مقابلے میں موٹر سائیکل رکشے میں سفر کرنا آسان لگتا ہے۔ وہ ملتان روڈ پر واقع سکیم موڑ نامی جگہ پر ایک ایسے رکشے میں بیٹھے ہیں جو ٹرین سٹیشن کے عین نیچے کھڑا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ائر کنڈیشنڈ اور آرام دہ ہونے کے باوجود ٹرین چھوٹا سفر کرنے کے لیے موزوں نہیں کیونکہ ایک تو اس کا کم از کم کرایہ 40 روپے ہے جبکہ موٹر سائیکل رکشا ایک سٹاپ سے دوسرے سٹاپ تک جانے کے لیے 10 روپے بھی لے لیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ پانچ کلومیٹر سے کم سفر کرنے کے لیے ٹرین کے سٹیشن پر سیڑھیاں چڑھ کر جانے، ٹکٹ لینے اور ٹرین کا انتظار کرنے میں جتنا وقت لگتا ہے موٹر سائیکل رکشا وہی فاصلہ اس سے کہیں کم وقت میں طے کر لیتا ہے۔ 

محمد اسرار کو چند کلومیٹر شمال مشرق کی جانب واقع سوڈیوال نامی بستی میں جانا ہے جو ٹرین کے روٹ سے زیادہ دور نہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ ٹرین میں اس لیے بھی نہیں بیٹھ رہے کہ اس کے سٹیشن سے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے انہیں پیدل چلنا پڑے گا جبکہ موٹر سائیکل رکشا انہیں عین اس جگہ پر اتارے گا جہاں انہیں جانا ہے۔

موٹر سائیکل رکشوں پر سفر کرنے والے کئی دیگر لوگوں کا بھی کہنا ہے کہ ٹرین پر سفر کرنے کی صورت میں انہیں اپنے گھر سے سٹیشن تک اور پھر سٹیشن سے اپنی دوسری منزل تک پیدل چلنا پڑتا ہے جس میں نہ صرف وقت خرچ ہوتا ہے بلکہ گرمیوں میں ایسا کرنا خاص طور پر دِقت طلب ہوتا ہے۔ لیکن موٹر سائیکل رکشے کسی متعین روٹ پر نہیں چلتے بلکہ سواریوں کی ضروریات کے حساب سے اپنا روٹ بدل لیتے ہیں اس لیے وہ مسافروں کو ان کے گھروں کے سامنے بھی اتار سکتے ہیں۔

اربوں میں خرچہ، کروڑوں میں آمدن

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 10 ستمبر 2021 کو ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ 17-2016 میں اورنج لائن میٹرو ٹرین کی تعمیر میں ہونے والی مالی بے ضابطگیوں کی کل مالیت دو ارب 85 کروڑ 26 لاکھ 43 ہزار روپے تھی۔ رپورٹ کے مطابق، اضافی مشینری اور غیر ضروری تعمیراتی سامان خریدنے اور منصوبے کی تکمیل میں ضرورت سے زیادہ وقت لگانے کی وجہ سے حکومت نے مجموعی طور پر ایک ارب 72 کروڑ 35 لاکھ 76 ہزار روپے کی اضافی ادائیگی کی جبکہ غیر تصدیق شدہ بِلوں کی ادائیگی اور غیر معیاری اشیا کی مجاز اتھارٹی سے منظوری کے بغیر خریداری پر 27 کروڑ 65 لاکھ 64 ہزار روپے خرچ کیے گئے۔ اسی طرح نیشنل ریفائنری لمیٹڈ کراچی کو رسیدوں کے بغیر ہی 23 کروڑ تین لاکھ 18 ہزار روپے ادا کر دیے گئے۔ 

ان مبینہ گھپلوں کے قومی خزانے پر پڑنے والے منفی اثرات سے قطع نظر بھی اس منصوبے سے ہونے والی آمدن اس پر ہونے والے اخراجات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر اس کے مسافروں سے وصول کیا جا رہا اوسطاً ماہانہ کرایہ  صرف آٹھ کروڑ 40 لاکھ روپے ہے جس سے ٹرین اور اس کے سٹیشنوں کا ایک مہینے کا بجلی کا بِل بھی نہیں ادا کیا جا سکتا جو سردیوں میں اوسطاً نو کروڑ روپے اور گرمیوں میں اوسطاً 15 کروڑ روپے ہوتا ہے۔ 

اس لیے اورنج لائن کو چالو رکھنے کے لیے پنجاب حکومت ہر سال اسے بھاری مالی امداد مہیا کرتی ہے۔ موجودہ بجٹ میں بھی صوبائی حکومت نے ٹرانسپورٹ کے شعبے کی ترقی کے لیے مختص کیے گئے 16 ارب 80 کروڑ روپے میں سے 15 ارب 59 کروڑ 71 لاکھ روپے سے زائد رقم صرف اورنج لائن میٹرو ٹرین کے لیے رکھی ہے (جبکہ باقی تمام منصوبوں کے لیے صرف ایک ارب 20 کروڑ روپے رکھے ہیں)۔

اس مالی امداد کے علاوہ حکومتِ پنجاب نے اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے لیے چین کے ایگزم بنک سے لیا ہوا 1.6 ارب ڈالر کا قرض بھی 2024 اور 2036 کے درمیان سود سمیت واپس کرنا ہے۔ اس قرض پر محض سود کی رقم ہر سال 6.28 ارب روپے بنتی ہے۔

لیکن چونکہ اتنی بھاری سرمایہ کاری کے باوجود ٹرین منصوبہ اپنے ہدف کے مطابق مسافروں کو متوجہ نہیں کر پایا اس لیے اس کے ناقدین سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا حکومت کو اتنا مہنگا منصوبہ لگانے کی ضرورت بھی تھی یا نہیں؟ 

عزیر شاہ اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اورنج لائن میٹرو ٹرین کی ساری منصوبہ بندی 2007 میں کی گئی لیکن اس کے تحت ٹرینیں چلانے کا آغاز ابھی پچھلے سال ہوا۔ ان کے مطابق اس دوران لاہور میں بہت سی معاشی، سماجی اور ترقیاتی تبدیلیاں آ چکی ہیں جن کے حساب سے اس منصوبے کو بھی تبدیل کیا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ 

تاہم وہ کہتے ہیں کہ اس دوران ایک ایسی تبدیلی بھی آئی ہے جس کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی تھی اور وہ ہے پچھلے سال سے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی کورونا وائرس کی وبا۔ ان کے مطابق اس وبا کے باعث لوگوں کے سفر اور کام کرنے کے طریقے بدل گئے ہیں جن کا اثر میٹرو ٹرین میں سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد پر بھی پڑا ہے کیونکہ "اب بہت سے لوگ اپنا کام گھر بیٹھے کر رہے ہیں جس کی وجہ سے انہیں اب پہلے کی نسبت کم سفر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے"۔ 

تاہم ان کا کہنا ہے کہ پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی نے اورنج لائن کے مالی مسائل کے حل کے لیے پنجاب حکومت کو کچھ تجاویز دی ہیں جن میں اس کے روٹ پر موٹر سائیکل رکشوں کے چلنے پر پابندی لگانا اور اس کے مسافروں سے ان کے طے کردہ فاصلے کے مطابق کم یا زیادہ کرایہ وصول کرنا شامل ہیں۔ ان کے بقول ان تجاویز پر عمل درآمد سے نہ صرف "مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہو گا بلکہ اورنج لائن کی آمدنی بھی بڑھ جائے گی جس کے نتیجے میں اس کے لیے درکار حکومتی امداد بھی کم ہو جائے گی"۔

تاریخ اشاعت 25 ستمبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

تنویر احمد شہری امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایم اے او کالج لاہور سے ماس کمیونیکیشن اور اردو ادب میں ایم اے کر رکھا ہے۔

سندھ: گندم کی سرکاری قیمت 4000، کسان 3500 روپے میں فروخت کرنے پر مجبور

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.