سردار ذیشان اردو زبان میں خبریں دینے والے ایک ٹی وی چینل کے لئے کام کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کا فون نمبر ایک ایسے واٹس ایپ گروپ میں شامل کر لیا گیا جو بظاہر نان کسٹم پیڈ اشیا کی خریدوفروخت سے متعلق تھا۔
اس گروپ میں ایل سی ڈیز، موٹر سائیکلین، موبائل فون، لیپ ٹاپ، آئی پیڈ، فریج، ائیر کنڈیشنر اور الیکٹرونکس کی دیگر اشیا انتہائی کم قیمت پر فروخت کرنے کے لئے باقاعدگی سے مشتہر کی جاتی تھیں۔
اس گروپ میں بتایا جاتا تھا کہ بازار میں دو لاکھ روپے میں ملنے والا ایل سی ڈی ٹی وی 30 ہزار روپے میں دستیاب ہے یا آپ مارکیٹ میں 70 ہزار روپے میں ملنے والا فریج 20 ہزار روپے میں خرید سکتے ہیں۔
ذیشان بتاتے ہیں کہ حال ہی میں سام سنگ کمپنی نے ایک موبائل فون متعارف کروایا ہے جس کی قیمت ساڑھے تین لاکھ روپے ہے لیکن گروپ میں اس کی قیمت صرف پچاس ہزار روپے بتائی گئی اور کہا گیا کہ محدود تعداد میں موبائل فون صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن میں آئے ہیں اگر کسی نے خریدنا ہوں تو بکنگ کروالیں۔
"میں نے سوچا کہ اتنی کم قیمت پر اس قدر اچھا موبائل فون ملنا ناممکن ہے۔ لہٰذا میں نے بکنگ کی تفصیلات پوچھیں تو بتایا گیا کہ پچیس ہزار روپے ایڈوانس بھجوادیں اور باقی پچیس ہزار روپے موبائل فون کی وصولی کے بعد بھجوائیے۔ میں نے فوراً پچیس ہزار روپے ایزی پیسہ کے ذریعے بھجوادیے۔"
ذیشان کہتے ہیں کہ اب ان کا انتظار شروع ہوا۔ چند روز گزرنے کے بعد انہیں ایک کورئیر کمپنی کی رسید واٹس ایپ کی گئی اور بتایا گیا کہ انہیں موبائل فون کورئیر کردیا گیا ہے۔ اس سے دو روز کے بعد انہیں گروپ ایڈمن کی طرف سے ٹریکنگ آئی ڈی موصول ہوئی اور ایک گروپ ممبر نے کال کی کہ وہ ان کے دیے ہوئے پتے کے قریب پہنچ گیا ہے اور بقایا رقم بھی گروپ ایڈمن کو بھجوا دیں تاکہ پارسل وصول کر سکیں۔
"اتنی دیر میں تو میں سمجھ چکا تھا کہ یہ میرے ساتھ فراڈ ہو رہا ہے کیونکہ کورئیر کمپنی بھی خودساختہ تھی اور ٹریکنگ نمبر کو جب سکین کیا گیا تو وہ بھی ڈیڈ تھا۔ میں نے کال کرنے والے سے کہا کہ وہ میرے گھر آ کر پارسل دے جائے اور بقایا رقم وصول کر لے لیکن اس نے آنا تھا نہ آیا۔"
ذیشان بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے سی آئی اے پولیس میں رابطہ کرکے اس شخص کی موبائل فون لوکیشن نکلوائی تو وہ خوشاب کے علاقے میں تھا جبکہ وہ انہیں کہہ رہا تھا کہ وہ گوجرانوالہ پہنچ چکا ہے۔ چونکہ اتنی دیر میں گروپ ایڈمن کو اندازہ ہوگیا کہ ان کی واردات پکڑی جا چکی ہے تو انہوں نے ان کی گروپ میں پیغام دینے کی آپشن ہی ختم کر دی۔
سوشل میڈیا پر ان دنوں ایسے متعدد واٹس ایپ گروپس فعال ہیں جن میں 'نان کسٹم پیڈ' اشیا سستے داموں فروخت کے لیے پیش کی جاتی ہیں۔ دراصل یہ تمام گروپ دھوکے باز عناصر نے بنائے ہیں اور بہت سے لوگ سستی چیزیں خریدنےکے لالچ میں آ کر اس دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایسے عناصر کا طریقہ واردات یہ ہے کہ واٹس ایپ کے علاوہ فیس بک، انسٹا گرام اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پر موبائل فون، موٹرسائیکلوں، ٹی وی، فریج اور دیگر اشیا کی تصاویر اور کلپس شیئر کیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس محدود تعداد میں سٹاک موجود ہے اور اس پیشکش سے فوری فائدہ اٹھایا جائے۔ موبائل فون کے حوالے سے خاص طور پر یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اسے استعمال کرنے کے لیے پی ٹی اے ٹیکس بھی ادا نہیں کرنا پڑتا۔
بہت سے لوگ ان کی اصلیت سے واقف ہو چکے ہیں جو ان گروپس کی پوسٹوں پر کمنٹ کر کے بتاتے رہتے ہیں کہ یہ نرا دھوکہ ہے لیکن بہت سے لوگ اس انتباہ پر کان نہیں دھرتے۔
حالیہ عرصہ میں موبائل فون کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر قسطوں میں موبائل فون کی فروخت کے اشتہارات بھی دکھائی دینے لگے ہیں اور یہ بھی ایک دھوکہ ہے۔
گوجرانوالا کے علاقے تلونڈی موسیٰ خان کی نور النساء نے ایف آئی اے سائبر کرائم کو درخواست دی ہے کہ اس کے ساتھ انسٹا گرام پر قسطوں میں موبائل فون دینے ایک اشتہار کے ذریعے فراڈ کیا گیا ہے۔
"موبائل فون کی دس ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے 24 اقساط طے پائیں لیکن پانچ اقساط یعنی 50 ہزار روپے وصول کرنے کے باوجود بھی موبائل فون نہ دیا گیا۔ اب نہ تو رقم واپس مل رہی ہے نہ ہی فون بھیجا جا رہا ہے۔"
موبائل فون ڈیلرز ایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے چیئرمین شاہد مجید کا کہنا ہے کہ ایسے تمام دھوکے بازوں کا طریقہ کار ایک جیسا ہی ہے جو واٹس ایپ گروپ بنا کر لوگوں کو اس میں شامل کرتے ہیں، فیس بک اور او ایل ایکس پر اپنی تشہیر کرتے اور لوگوں کو نان کسٹم پیڈ موبائل فون کا جھانسہ دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بیرون ممالک سے آنے والے موبائل فون صرف نان پی ٹی اے ہوتے ہیں یعنی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے بیرون ممالک سے آنے والے موبائل فونز کے پاکستان میں استعمال پر جو ٹیکس لگایا ہوا ہے وہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس میں کسٹم پیڈ اور نان کسٹم پیڈ کا تو کوئی ایشو ہی نہیں ہوتا جس کا نام لے کر لوگوں کو الو بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
"ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی لٹنے والا شخص کسی دکاندار کے پاس بیٹھا رو رہا ہوتا ہے کہ اسے سوشل میڈیا کے ذریعے فراڈ کرکے لوٹ لیا گیا۔ ہم لوگوں سے یہی کہتے ہیں کہ وہ ایف آئی اے سائبر کرائم والوں کے پاس جائیں کیونکہ ہمارے پاس لوگوں کے قانونی معاملات حل کروانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔"
شاہد مجید نے بتایا کہ بعض دھوکے بازوں نے اپنے سوشل میڈیا گروپ یا پیج پر ان چیزوں کی مشہور دکانوں کے سائن بورڈ کی تصاویر لگا رکھی ہوتی ہیں۔ اس لیے جب فراڈ ہوتا ہے تو متاثرہ لوگ اس دکاندار کے پاس پہنچ جاتے اور شکایت کرتے ہیں کہ اسی نے انہیں لوٹا ہے۔ جب کوئی دکان دار فیس بک یا سوشل میڈیا کے کسی دوسرے پلیٹ فارم پر شکایت کرے کہ اس کا نام دھوکے سے استعمال کیا گیا ہے تو متعلقہ پلیٹ فارم اس پیج کو منسوخ کر دیتا ہے لیکن دھوکے باز نئے نام سے دوبارہ پیج بنا لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر "چھوٹے بھائی بڑے بھائی" کے نام سے بھی موبائل فون مفت میں بانٹنے کی تشہیر کی جاتی ہے اور ایسا کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی دبئی میں زم زم الیکٹرونکس کے نام سے موبائل فون کی دکان ہے اور وہ پاکستان اور انڈیا میں لوگوں کو بذریعہ قرعہ اندازی موبائل فون اور گھڑیاں مفت دیتے ہیں۔ اس طرح لوگوں سے کورئیر کے نام پر پیسے منگوائے جاتے ہیں جبکہ پارسل کسی کو نہیں ملتا۔
زم زم الیکٹرونکس کے نام سے بھی سوشل میڈیا پر بہت سے گروپ اور پیج بنے ہوئے ہیں جن پر سستی چیزیں بیچنے کے پرکشش اعلانات کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
گوجرانوالہ میں ڈبل شاہ ایپ 'آئی ڈی اے' لوگوں کے کروڑوں روپے لوٹ کر غائب
فرقان علی نامی شہری کا کہنا ہے کہ انہیں ایک ویڈیو کلپ موصول ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ قرعہ انداز میں ان کا موبائل فون نکلا ہے جسے وصول کرنے کے لیے کوریئر کے پیسے بھجوا دیں۔ انہوں ںے جواب دی اکہ اگر آپ لوگ مفت میں مجھے اتنا قیمتی فون بیج رہے ہیں تو کوریئر کے پیسے بھی خود ہی بھر دیں۔
یہ نرا فراڈ تھا جسے سمجھتے ہوئے وہ دھوکے کا شکار ہونے سے بچ گئے۔
فرقان علی بتاتے ہیں کہ جب انہوں نے فیس بک کے پیج پر زم زم الیکٹرونکس کے اصل لوگوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ کمپنی کی طرف سے کسی کو ایسا کوئی پیغام نہیں بھیجا گیا۔ اب کون سچا ہے، اس کا پتا نجانے کیسے چلے گا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ریجنل ڈپٹی ڈائریکٹر رب نواز بتاتے ہیں کہ ادارے کو متاثرہ شہریوں کی درخواستیں مسلسل موصول ہو رہی ہیں جن پر تحقیقات جاری ہیں۔ تین ماہ کے دوران سو متاثرین کو ان کی ڈوبی ہوئی رقوم واپس دلائی جا چکی ہیں جبکہ 55 متاثرین کی درخواستوں پر کارروائی جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ قیمتی چیزیں سستے داموں بیچنے کا فراڈ گوجرانوالا میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے بہت سے شہروں میں ہو رہا ہے۔ ایسے بیشتر دھوکے بازوں نے حالیہ عرصہ میں الیکٹرونکس اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے بعد لوگوں کو دھوکہ دہی سے لوٹنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
رب نواز کا کہنا ہے کہ سائبر جرائم کی روک تھام سے متعلقہ ایف آئی اے کی ٹیمیں ایسے ملزموں کے کی لوکیشن کا کھوج لگا کر ان انہیں گرفتار کر رہی ہیں اور متاثرین کو ان کی رقم واپس دلانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
تاریخ اشاعت 25 اگست 2023