تپتی دھوپ میں پسینے سے شرابور محمد انور لعل بازار، جھاؤ میں اپنی پیاز کی چنائی میں مصروف ہیں۔ جھاؤ ضلع آواران کی تحصیل ہے۔ چنائی کے ساتھ ساتھ وہ پیاز کی چھانٹی کرکے گلی ہوئی پیاز علیحدہ رکھ رہے ہیں۔اس کام میں ان کے گھر کے 11 افراد ان کا ہاتھ بٹھا رہے ہیں۔
محمد انور دلبرداشتہ ہیں کیونکہ مارکیٹ سے خبریں آ رہی ہیں کہ پیاز کی قیمت گر گئی ہے۔"دو سال پہلے بھی ہمارے ساتھ یہی ہوا تھا۔پیاز کی قیمت 400 روپے فی من تک گر گئی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس کے بعد یہ کاشت نہیں کریں گے مگر اس مرتبہ پھر دیکھا دیکھی ہم نے پیاز بو دی۔"
تحصیل جھاؤ اور تحصیل آواران میں پیاز کی فصل سال میں دو بار کاشت ہوتی ہے۔مقامی لوگ سرما کی فصل کو سہہ ماہی اور گرما کی فصل کو شش ماہی پیاز کہتے ہیں۔
سہ ماہی پیاز مئی میں بویا جاتا ہے۔ اگست میں اس کی پنیری تیار ہوتی ہے جسے دوسری زمین میں منتقل کردیا جاتا ہے۔ فصل دسمبر ، جنوری تک تیار ہوجاتی ہے۔شش ماہی پیاز ستمبر میں بویا جاتا ہے اور مئی میں یہ تیار ہو جاتی ہے جس کی چنائی کا سلسلہ جون تک چلتا ہے۔
مئی ایسا مہینہ ہے جب کسان پیاز کی ایک فصل کی چنائی اور دوسری کی بوائی میں مصروف ہوتے ہیں۔
محمد انور نے دو ایکڑ زمین پر پیاز کاشت کی تھی مگر پیداوار ان کی توقع سے کم رہی ہے۔ "پیاز تیار تھی کہ بارشیں شروع ہوگئیں جس سے فصل کا بیشتر حصہ خراب ہو گیا"۔
وہ اب تک 133 بوری پیاز مارکیٹ بھیج چکے ہیں۔انہوں نے بتایا پہلی 60 بوریاں ایک ہزار روپے فی من کے حساب سے فروخت ہوئیں لیکن اس کے بعد قیمت گر گئیں اور اس وقت ریٹ 700 روپے من ہے۔
منسٹری آف فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے مطابق 2021ء اور 2022ء میں ملک بھر میں پیدا ہونے والے پیاز میں 33 فیصد حصہ بلوچستان کا تھا۔ بلوچستان میں پیدا ہونے والے پیاز میں آواران کا حصہ پانچ فیصد ہے یوں یہ ضلع پاکستان میں سب سے زیادہ پیاز پیدا کرنے والے 20 بڑے اضلاع میں شامل ہے۔
اخراجات آسمان سے باتیں کر رہے ہیں
کنڈی جھاؤ کے رہائشی دلدار خان بھی پیاز کے کاشتکار ہیں۔ ان کے حساب کے مطابق ایک ایکڑ پیاز کی کاشت پر لگ بھگ 65 ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں اور بیشتر کسان ادھار پر مداخل اور سامان خریدتے ہیں۔
دلدار نے بتایا کہ فصل کو منڈی تک پہنچانے کے اخراجات اس سے علیحدہ ہیں۔ (خالی) بوری جو پچھلے سال 50 روپے کی تھی، اب 200 کی ہو گئی ہے۔لوڈنگ، ان لوڈنگ کی مزدوری چار گنا بڑھ چکی ہے۔ڈیڑھ دو سال پہلے تک ٹرانسپورٹ کے اخراجات 300 روپے فی بوری تھے جو اب 600 روپے ہو گئے ہیں"۔
"ہر چیز مہنگی ہے، صرف ہماری محنت سستی ہو گئی ہے۔"
وہ بتاتے ہیں کہ پیاز کی فصل کے لیے فی ایکڑ دو کلو بیج چاہیے ہوتے ہیں جو اس مرتبہ ساڑھے تین ہزار روپے فی کلو ملے تھے۔
"ایک ایکڑ میں ڈی اے پی کھاد کی ایک بوری ڈالی جاتی ہے جس کی مارکیٹ میں قیمت 11 ہزار روپے ہے، (اگر یہی بوری ادھار لی جائے تو 14 ہزار کی ہوتی ہے)۔ چھ بوری سفید یوریا (21 ہزار روپے)، جراثیم کش ادویہ اور سپرے (15 ہزار روپے) اور ٹریکٹر کے اخراجات 12 ہزار 500 روپے آتے ہیں"۔
انہوں نے بتایا کہ اسی طرح ڈی اے پی کھاد کی قمیت سات ہزار تھی جو اب 14 ہزار روپے کی ہو گئی ہے۔ٹریکٹر کا کرایہ فی گھنٹہ 12 سو روپے تھا جو اب ڈھائی ہزار روپے ہے۔
'ہم پیاز اپنے لیے نہیں بلکہ منڈی والوں کے لیے کاشت کر رہے ہیں'
منڈی میں بیٹھے آڑھتی قیمتوں میں فرق کی وجہ پیاز کی سپلائی میں کمی بیشی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول پچھلے سال سیلاب اور درآمد برآمد کی پالیسیوں نے بھی اس اتار چڑھاؤ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
کوئٹہ کی سبزی منڈی کے کمیشن ایجنٹ شاہجہاں خان بتاتے ہیں کہ جنوری 2023ء میں کراچی منڈی میں پیاز فی من آٹھ ہزار روپے جبکہ کوئٹہ میں 23 ہزار روپے فروخت ہو رہا تھا۔
"اُس وقت ایک طرف، سیلاب نے سندھ کی پیاز کو نقصان پہنچایا تھا تو دوسری طرف انڈیا کا بارڈر بھی بند تھا۔ سپلائی کم تھی اس لیے ریٹ چڑھ گیا۔ اس کا فائدہ آواران اور جھاؤ کے کاشتکاروں کو ہی ہوا۔"
انہوں نے بتایا کہ سندھ اور پنجاب کا پیاز منڈی میں آنے کے بعد سپلائی بڑھ گئی تو قیمت میں کمی آ گئی۔ ان کے خیال میں جھاؤ اور آواران کی پیاز کے ساتھ تو پھر بھی کسی حد تک انصاف ہوگیا لیکن تحصیل مشکے کی پیاز کی حالت بہت خراب ہے، وہاں کے زمینداروں کو زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
آواران کے خادم حسین 1997ء سے پیاز کاشت کر رہے ہیں۔ اِس سال انہوں نے تین ایکڑ پر پیاز کاشت کی تھی جس سے انہیں 962 من پیداوار ملی ہے۔
"موجودہ سال پچھلے سال سے بہتر ہوگا، ہم ہر سال اسی امید پر پیاز کاشت کرتے ہیں مگر نقصان کر جاتے ہیں۔ حقیقت میں ہم یہ فصل اپنے لیے نہیں بلکہ منڈی والوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کاشت کر رہے ہیں۔"
وہ پیاز کی فصل کو جوئے کے کھیل سے تشبیہہ دیتے ہیں۔
ایکسپورٹ پالیسی ریٹ پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟
کپاس بھی اس علاقے کی اہم فصل رہی ہے۔ زمیندار ایکشن کمیٹی جھاؤ کے صدر ناصر عمرانی پیاز اور کپاس کی فصل کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔"ایک ایکڑ میں کپاس 40 من سے زیادہ نہیں ہوتی جبکہ پیاز 275 سے 400 من تک ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے زمینداروں کا جھکاؤ پیاز کی جانب زیادہ ہے۔"
بلال خان نیو سبزی منڈی کراچی میں بطور کمیشن ایجنٹ کام کر رہے ہیں۔ وہ بھی پیاز کی قیمتوں میں گراوٹ کو سپلائی اور ڈیمانڈ کا کھیل سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
آواران کا جھاؤ-بیلہ روڈ جہاں پیاز سے لدا ٹرک 90 کلومیٹر کا فاصلہ ایک دن میں طے کرتا ہے!
ان کا کہنا ہے کہ پہلے صرف جھاؤ اور آواران سے گاڑیاں آرہی تھیں۔اب ان کے ساتھ ساتھ ضلع خضدار کی تحصیلوں وڈھ اور ناچ اور ضلع لسبیلہ کی تحصیل دریجی سے بھی آرہی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابھی ضلع خضدار کی تحصیلوں نال اور گریشہ سے مزید پیاز نے آنا ہے۔"دسمبر اور جنوری میں (منڈی میں) روزانہ 30 سے 40 گاڑیاں آ رہی تھیں۔اب گاڑیوں کی تعداد بڑھ کر 130 سے 160 روزانہ ہو گئی ہے۔"
بلال کہتے ہیں کہ ایکسپورٹ پالیسی بھی پیاز کی ریٹ پر اثرانداز ہوتی ہے۔"آپ آلو کو سٹاک کر سکتے ہیں مگر پیاز کو آپ ایک ہفتے سے زیادہ نہیں رکھ سکتے کیونکہ یہ خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ایکسپورٹ جتنی زیادہ ہو گی، ریٹ اتنا ہی زیادہ ہو جائے گا۔"
ناصر عمرانی کے خیال میں گذشتہ دسمبر اور جنوری میں پیاز کی قیمتیں اس لیے بھی بڑھیں تھیں کہ حکومت نے دو ماہ کے لیے ایکسپورٹ پر ٹیکس کی چھوٹ دی تھی۔ پیاز بڑی مقدار میں کولمبو اور دبئی ایکسپورٹ ہوا جس کا فائدہ مقامی زمینداروں کو ہوا۔ اب بھی حکومت ایکسپورٹ ڈیوٹی نرم کردے تو پیاز کا ریٹ بڑھ جائے گا۔"
تاریخ اشاعت 6 جون 2023