'خضدار کالج آف نرسنگ میں چار سالہ ڈگری آٹھ سال میں مکمل ہونے کی گارنٹی'

postImg

اقبال مینگل

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'خضدار کالج آف نرسنگ میں چار سالہ ڈگری آٹھ سال میں مکمل ہونے کی گارنٹی'

اقبال مینگل

loop

انگریزی میں پڑھیں

فائزہ اقبال خضدار کالج آف نرسنگ میں بیچلر آف نرسنگ (بی ایس این) کی طالبہ ہیں۔ انہیں یہاں پڑھتے ہوئے تین سال ہو گئے ہیں لیکن وہ ابھی سیکنڈ ایئر کے تیسرے سمسٹر میں ہیں۔ ہر سمیسٹر پر لگ بھگ ان کا پورا سال ہی صرف ہوا ہے اور اس میں ان کی تعلیمی کارکردگی یا کسی کوتاہی کا کوئی کردار نہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے کالج میں بیشتر مضامین کی اساتذہ ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے کلاسیں بھی باقاعدگی سے نہیں ہوتیں۔ اگر یہ حالات نہ ہوتے تو آج وہ چھٹے سمیسٹر میں پڑھ رہی ہوتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال برقرار رہی تو بیچلر آف نرسنگ (بی ایس این) کی چار سالہ ڈگری مکمل کرنے میں انہیں آٹھ سال تو لازمی لگ جائیں گے۔

اس کالج میں تمام طالبات کو انہی حالات کا سامنا ہے جبکہ دو سال قبل انہیں ملنے والے ماہانہ وظائف بھی روک لیے گئے ہیں۔

خضدار میں نرسنگ سکول 2017ء میں کسی اور محکمے کی خالی کردہ ایک پرانی عمارت میں عارضی طور پر قائم کیا گیا تھا۔ ملک بھر میں جب نرسنگ ڈپلومہ ختم کر کے بی ایس این شروع کیا گیا تو 2019 میں اس سکول کو بھی کالج آف نرسنگ کا درجہ دے دیا گیا۔

نرسنگ سکول سے کالج تو بن گیا مگر اس کے لیے مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے گئے۔ یہ کالج تین سو بستروں پر مشتمل خضدار ٹیچنگ ہسپتال سے منسلک ہے۔ ہسپتال میں نرسنگ سپرنٹنڈنٹ ہی تعینات نہیں جس کی اضافی ذمہ داریاں کسی مرد ڈاکٹر کو سونپی گئی ہیں۔

خضدار، قلات، سوراب، مستونگ، واشک اور آواران کے لیے اس واحد نرسنگ کالج میں بی ایس این کی 79 طالبات زیر تعلیم ہیں۔ پہلےسال میں19، دوسرے اور تیسرے سال میں یہاں 30، 30 طالبات نے داخلہ لیا جبکہ چوتھا بیچ ابھی شروع نہیں ہوا۔

دوسرے سمیسٹر کی طالبہ خالدہ عبدالحق بھی کالج کے حالات سے سخت مایوس اور انتظامیہ کے رویے نالاں ہیں۔ وہ شکوہ کرتی ہیں کہ محکمہ صحت کو نرسنگ کالج کی پرواہ ہے نہ ہی طالبات کے مستقبل کی فکر ہے۔ ہر تعلیمی سال کے ساتھ ان کا ایک سال ضائع ہو جاتا ہے۔

"ہمارے والدین مایوسی کا شکار ہورہے ہیں۔ کوئی ان سے تو پوچھے کہ قبائلی سماج میں بارہ سال کن مشکلات سے انہوں نے ہمیں پڑھایا ہے۔اب وہ چار سال کے بجائے آٹھ سال کیسے برداشت کریں گے اور کیا ہمیں سکالر شپ صرف چار سال کا ہی ملے گا۔"

طالبات نے تنگ آکر گزشتہ ماہ کالج آف نرسنگ میں پرنسپل تعینات نہ ہونے، سکالر شپس کی عدم ادائیگی، ٹرانسپورٹ اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کیا اور دھرنا دیا جو ڈپٹی کمشنر اور ہیلتھ افسران سے مذاکرات کے بعد ختم کر دیا گیا۔

خالدہ کہتی ہیں کہ کالج میں انگریزی پڑھانے کے لیے استاد ہی دستیاب نہیں ہیں۔ طالبات نے کالج انتظامیہ سے مل کر ایک انگریزی ٹیچر کی خدمات حاصل کی ہیں جنہیں طالبات ماہانہ پانچ سو روپے چندہ جمع کر کے 25 ہزار روپے تنخواہ ادا کرتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ نرسز ہاسٹل نہ ہونے کے باعث وہ پبلک ہیلتھ سکول کی لڑکیوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اور کالج کے لیے مڈ وائفری ہی کی بس سے سفر کرتی ہیں۔ یہ بس صرف پک اینڈ ڈراپ دیتی ہے اس لیےکئی طالبات تو گاڑی نہ ہونے کےباعث کلینیکل آورز (وارڈ پریکٹس) پر ہی نہیں جا پاتیں۔

فائزہ اقبال نے انکشاف کیا کہ نرسنگ کالج کی عمارت میں پانی تک دستیاب نہیں ہے۔ تین کلاسز کے لیے صرف دو کمرے ہیں۔ طویل عرصہ سے پرنسپل کے بغیر محض دو ہی اساتذہ نرسنگ کالج کو چلارہی ہیں اسی لیے سکالرشپس بھی رکے ہوئےتھے۔

انہوں نے بتایا کہ مسلسل احتجاج کایہ فائدہ ہوا کہ ایک سینئرٹیوٹر کو پرنسپل کا عارضی چارج دے دیا گیا جو پڑھانے کے ساتھ کالج کا انتظام بھی سنبھال رہی ہیں۔اس سے طالبات کو ایک سال کے سکالر شپس مل گئے ہیں۔ تاہم دیگر یقین دہانیوں پر ابھی عمل نہیں ہوا۔

نرسنگ سکول خضدار میں پہلی پرنسپل رفعت ہدایت جنوری 2017ء میں تعینات ہوئی تھیں۔ اسی سال اگست میں مستونگ سے تعلق رکھنے والی سلمہ گل کو پرنسپل بنا دیا گیا۔ رفعت ہدایت نے پچھلے سال کوئٹہ تبادلہ کرا لیا اور سلمہ گل رواں سال ٹریننگ کے لیے چلی گئیں۔

اسی دوران چار ٹیوٹرز اور ایک ہیڈ نرس کو کالج میں رپورٹ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے مگر ان میں کوئی بھی حاضر ہونے پر تیار نہیں ہوئیں ۔طالبات کے احتجاج پر نرسنگ کالج کی پرنسپل (گریڈ17)کا ایکٹنگ چارج ٹیوٹر بےنظیر (گریڈ 16) کو دے دیا گیا ہے۔

ایکٹنگ پرنسپل بے نظیر نرسنگ سکول کے قیام سے ہی یہاں ٹیوٹر چلی آرہی ہیں ۔وہ بتاتی ہیں کہ کالج کی عمارت صرف چھ کمروں پر مشتمل ہے جس میں سے چار چھوٹے کمروں میں پرنسپل آفس، لائبریری، کلرک آفس اور سٹور بنائے گئے ہیں اور صرف دو ہی کمروں میں کلاسز ہو سکتی ہیں۔

"پہلے دو کلاسیں تھیں لیکن اب ہمارے پاس تیسرا بیچ بھی آ گیا ہے۔کلاس روم صرف دو ہیں۔ کالج کے ساتھ متصل ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈویلپمنٹ سنٹر کی عمارت اگر عارضی طور پر ہمیں دے دی جائے اور اس میں چند کمرے بن جائیں تو کلاسز شروع ہو جائیں گی۔"

پرنسپل کا کہنا تھا کہ کالج میں نرسنگ انسٹرکٹرز اور ٹیوٹرز کی کل چھ اسامیاں ہیں۔ مگر نرس ٹیوٹر اور انگریزی ٹیوٹر سمیت پانچ اسامیاں خالی ہیں۔ نان ٹیچنگ سٹاف کی کل اٹھارہ اسامیاں ہیں جن پر صرف چار ملازم کام کر رہے ہیں۔ خضدار جیسے حساس علاقے میں طالبات کے لیے سیکورٹی گارڈ تک نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ناقص منصوبہ بندی یا سیاسی اقربا پروری: خضدار کے بچے اپنے تعلیمی حق سے کیوں محروم ہیں؟

انہوں نے بتایا کہ سپرنٹنڈنٹ، اسسٹنٹ لائبریرین، سینئر کلرک، جونیئر کلر ک اور اسسٹنٹ وارڈن کی سیٹیں بھی خالی ہیں۔ اسی طرح کمپیوٹر آپریٹر، لیبارٹری اسسٹنٹ، ڈرائیور، نائب قاصد، سوئیپر، آیا اور مالی تک بھرتی کرنے کی اجازت نہیں ملی۔

پرنسپل کے مطابق نرسنگ کالج کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ طالبات کے ہاسٹل کا مسئلہ یہ ہے کہ کبھی بجلی تو کبھی جنریٹر خراب رہتا ہے۔ عمارت کی مرمت کے لیے فنڈ مانگے جاتے ہیں تو وہ بھی نہیں ملتے۔

گزشتہ سال صوبائی حکومت نے نرسنگ کالج کی نئی عمارت بنانے کی منظوری دے دی تھی۔ اس کے بجٹ کا تخمینہ 30 کروڑ لگایا گیا ہے۔ ایم پی اے خضدار میر یونس عزیز زہری نے17جولائی 2022ء کو ساسول روڈ پر کالج کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھاتھا جس کے لیے اب تک 18کروڑ روپے جاری ہو چکے ہیں مگر عمارت کی ابھی چھتیں ڈالی جارہی ہیں۔

خضدار کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر بشیر احمد بنگلزئی بتاتے ہیں کہ نرسنگ کالج ڈویژنل ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کے ماتحت ہوتا ہے ۔ یہاں ہیلتھ سروس کا ڈویژنل ڈائریکٹر ہے اور نہ ہی اضافی چارج کسی کے پاس ہے اس لیے نرسنگ کالج کے امور متاثر ہیں۔اگر انہیں ایڈیشنل چارج دے دیا جائے تو وہ ان امور کو دیکھ سکیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان میں ڈائریکٹر جنرل نرسنگ کا عہدہ بھی خالی پڑا ہے۔ ڈی جی ہیلتھ سروسز ڈاکٹر نور قاضی ہی ڈی جی نرسنگ کی اضافی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہیں طالبات کی مشکلات کا احساس ہے۔ نرسنگ کالج کےلیے جلد از جلد ایڈہاک ٹیوٹر  رکھے جائیں گے۔ اس ضمن میں کام ہو رہا ہے اور اسامیاں جلد مشتہر کر دی جائیں گی۔ نرسنگ کالج خضدار کےلیے رواں مالی سال میں مزید ساڑھے تین کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا اور اس پر کام بھی تیزی سے جاری ہے۔

تاریخ اشاعت 27 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد اقبال مینگل کا تعلق خضدار سے ہے۔ وہ گزشتہ آٹھ سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.