مالاکنڈ ڈویژن میں رواں دواں سستی، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا مستقبل کیا ہے؟

postImg

سید زاہد جان

postImg

مالاکنڈ ڈویژن میں رواں دواں سستی، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا مستقبل کیا ہے؟

سید زاہد جان

دِیر شہر کے علاقہ بجلی گھر کے رہائشی گران محمد پچھلے 43 سال سے ڈرائیونگ کے روزگار سے منسلک ہیں۔ انہوں نے 25 سال کی عمر میں ڈرائیونگ سیکھی اور 38 سال تک مختلف لوگوں کے ساتھ ڈرائیور کی حیثیت سے گاڑی چلاتے رہے۔ پانچ سال قبل وہ اس قابل ہوئے کہ پس انداز کی ہوئی جمع پونجی سے وہ اپنی گاڑی خرید سکیں۔ ان کے مطابق ’’میں اب بھی اپنی گاڑی کا مالک نہ بن سکتا اگر ہمارے ہاں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں (وہ گاڑیاں جو ٹیکس وغیرہ سے مستثنیٰ ہیں) ہمارے ہاں دستیاب نہ ہوتیں۔‘‘
سنہ 1997ء سے دِیر شہر میں گاڑیوں کے خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے میاں عبیدالرحمن کہتے ہیں کہ مالاکنڈ ڈویژن میں 2000ء میں افغانستان سے سمگل ہو کر آنے والے گاڑیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کے مطابق اس سے قبل مالاکنڈ ڈویژن میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں نہیں تھیں یہی وجہ ہے کہ اُس وقت تک علاقے کے چند با اثر افراد کے علاوہ کسی میں گاڑی خریدنے کی سکت نہیں تھی۔ لیکن جب سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کاروبار یہاں شروع ہوا تواس سے خاص متوسط طبقے کے لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں۔ یہ گاڑیاں نہ صرف لوگوں کی ذاتی ضروریات کو پورا کرتی ہیں یہ روزگار کا اہم ذریعہ بھی بن گئی ہیں۔
سُجاگ کے ایک مختصر سروے کے مطابق 2008 سے 2010 ماڈل کی نان کسٹم پیڈ ٹویوٹا پریمیو گاڑی 12 لاکھ روپے تک مل جاتی ہے جبکہ باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ گاڑی کی قیمت 30 لاکھ تک ہے۔ اسی طرح 2008-2009 ماڈل کی وِٹز گاڑی 10 لاکھ روپے تک مل جاتی ہے جبکہ اسی ماڈل کی کسٹم پیڈ گاڑی 20 لاکھ روپے تک ملتی ہے۔ 2008 اور 2009 کی ایگزئیو گاڑی 10 لاکھ روپے تک مل جاتی ہے ملک میں قانونی طور پر لائی گئی ایسی ہی گاڑی کی قیمت 25 سے 30 لاکھ روپے کے درمیان ہے۔

خیبر پختونخوا کا مالا کنڈ ڈویژن اُن تین آزاد ریاستوں – سوات، دیر اور چترال – پر مشتمل ہے جنہوں نے 1947ء کی تقسیم کے بعد پاکستان سے الحاق کر لیا تھا۔ 1954ء اور 55ء میں جب حکومت پاکستان نے ون یونٹ سکیم کے تحت چار صوبوں کو ضم کر کے مغربی پاکستان کو تشکیل دیا تو بہاولپور اور خیر پور کی ریاستوں کو تو نئے صوبے میں ضم کر دیا گیا لیکن پختونخوا کی ملحقہ ریاستوں کی حیثیت کو جوں کا توں رکھا گیا۔

ون یونٹ سیاسی طور پر ناکام رہا اور اسے بلا آخر 1969ء میں توڑ کر چار صوبوں کو بحال کر دیا گیا۔ اس موقعہ پر پختونخوا کی ریاستوں کی سابقہ آزاد حیثیت کو تبدیل کر کے انہیں خیبرپختونخوا کی حکومت کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (پاٹا) قرار دے دیا گیا۔ اس مخصوص آئینی حیثیت کے باعث ان علاقوں میں کسی بھی صوبائی قانون کا اطلاق خودبخود نہیں ہو سکتا تھا بلکہ ان علاقوں کو کسی صوبائی قانون کی حدود میں لانے کے لیے گورنر کو خصوصی حکم جاری کرنا ہوتا تھا۔

مئی 2018ء میں پچیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان علاقوں کی صوبے کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات کی حیثیت ختم کر کے انہیں انتظامی طور پر دیگر اضلاع کے مساوی کر دیا گیا۔ اسی ترمیم نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کو بھی صوبہ پختونخوا میں ضم کیا۔ دیر، سوات اور چترال کی سابقہ ریاستوں میں شامل علاقے اب پختونخوا کے ان نو اضلاع میں تقسیم ہیں: مالاکنڈ، بونیر، شانگلہ، سوات، اپر دیر، لوئر دیر، اپر چترال، لوئر چترال اور سنٹرل چترال۔

ان اضلاع میں ایک عام تاثر ہے کہ الحاق کے وقت حکومتِ پاکستان نے ان کے حکمرانوں کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ یہ علاقے ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ان اضلاع میں بلا کسی روک ٹوک نقل و حرکت کر سکتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان علاقوں میں کسٹمز ایکٹ کو 1975ء میں توسیع دے دی گئی تھی لیکن عملاً اس کا نفاذ تا حال نہیں ہو سکا۔

<p>نان کسٹم پیڈ گاڑیاں مارکیٹ میں دستیاب گاڑیوں سے کافی سستی ہوتی ہیں <br></p>

نان کسٹم پیڈ گاڑیاں مارکیٹ میں دستیاب گاڑیوں سے کافی سستی ہوتی ہیں

صوبے کے دیگر حصوں میں گاڑیوں کی رجسٹریشن محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کرتا ہے جبکہ پراونشلی ایڈمنسٹرڈ ٹرائبل ایریا (پاٹا) میں پولیس سٹیشنوں میں گاڑیوں کا اندراج ہوتا ہے اور وہیں سے انہیں گاڑی کا نمبر دیا جاتا ہے جسے وہ نمبر پلیٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

مارچ 2013ء میں وفاقی حکومت نے ملک میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے لئے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کیا جس کے تحت مختلف ڈیوٹیز اور ٹیکسوں میں تقریباً ایک ماہ کے لئے خاطر خواہ چھوٹ دیتے ہوئے انہیں باقاعدہ طور پر رجسٹر کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ اس عرصہ کے دوران، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اعداد و شمار کے مطابق، 34000 گاڑیاں رجسٹر کی گئیں جس سے قومی خزانہ کو 10 ارب روپے حاصل ہوئے۔

لیکن اس کے باوجود مالاکنڈ ڈویژن میں لاکھوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں موجود ہیں۔

مقامی ’رجسٹریشن‘

اکتوبر 2014ء میں خیبر پختونخوا میں اُس وقت کے انسپکٹر جنرل آف پولیس ناصر خان دُرانی نے وفاقی وزارتِ داخلہ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری کو ایک سرکاری مراسلہ کے ذریعہ آگاہ کیا کہ مالاکنڈ ڈویژن اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں افغانستان سے سمگل ہو کر کر آنے والی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں دہشت گردی کے واقعات میں استعمال ہو رہی ہیں۔

ان کا موقف تھا کہ ’’پاکستان میں سمگل ہو کر آنے والی گاڑیوں کے حوالہ سے کسی بھی متعلقہ محکمہ کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا جس سے اس کے مالک کا تعین کیا جا سکے۔‘‘ اس کے تقریباً دو ماہ بعد دسمبر 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک سکول اینڈ کالج کے دل خراش واقعہ کے بعد بننے والی ایپکس کمیٹی نے اس مسئلہ کو قدرے سنجیدگی سے لیا اور ان گاڑیوں کے ریکارڈ کے حوالہ سے ایک باقاعدہ لائحہ عمل بنانے کا فیصلہ کیا۔

یوں مالاکنڈ ڈویژن کے چھ اضلاع سوات، بونیر، شانگلہ، اپر دِیر، لوئر دِیر اور چِترال کے پولیس سٹیشنوں میں جولائی 2015ء تک ایک لاکھ 20 ہزار نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا اندراج ہوا۔ اس کے لئے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، محکمہ پولیس اور فوجی اہلکاروں پر مشتمل ایک مشترکہ ڈیسک قائم کیا گیا جس کی منظوری کے بعد گاڑی کو پولیس سٹیشن میں رجسٹر کیا جاتا تھا۔

محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ایک اہلکار نے سُجاگ کو بتایا کہ 2018ء میں ایک بار پھر نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا مقامی اندراج شروع کیا گیا اور جون 2018ء تک مالاکنڈ ڈویژن میں ایک لاکھ چھ ہزار گاڑیاں پولیس سٹیشنوں میں رجسٹر ہوئیں جس کے بعد مزید گاڑیوں کے اندراج کے عمل کو روک دیا گیا۔

لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یا تو تمام گاڑیوں کا پولیس سٹیشنوں میں اندراج نہیں ہو پاتا یا پھر مزید سمگل شدہ گاڑیاں مالاکنڈ ڈویژن میں آ جاتی ہیں جس کی وجہ سے دوبارہ اندراج کی ضرورت پیش آتی ہے۔

<p>نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو پہلے ایران اور پھر افغانستان کے راستے پاکستان میں سمگل کیا جاتا ہے<br></p>

نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو پہلے ایران اور پھر افغانستان کے راستے پاکستان میں سمگل کیا جاتا ہے

دوسری بات میں زیادہ وزن ہے کیونکہ افغانستان سے گاڑیوں کی سمگلنگ بلا تعطل جاری ہے۔ یہ گاڑیاں بلوچستان کے سرحدی شہروں کے راستے پاکستانی آتی ہیں جہاں سے کیرئیر (گاڑیوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچانے والے لوگ) ان گاڑیوں کو ملک کے دیگر حصوں میں پہنچاتے ہیں۔ ایک کیرئیر، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں، نے سُجاگ کو بتایا کہ ’’ہم ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ تک گاڑی پہنچانے کے 30 سے 40 ہزار روپے لیتے ہیں جس میں سے حکومتی اہلکاروں کو بھی پیسے دینے پڑتے ہیں۔‘‘

کوئٹہ میں تعینات ایک حساس ادارے کے افسر نے سُجاگ کو بتایا کہ مختلف ماڈل کی گاڑیاں جاپان، سنگاپور اور آسٹریلیا سے دوبئی لائی جاتی ہیں۔ دوبئی سے ان گاڑیوں کو بحری بیڑوں کے ذریعہ ایران کی بندرگاہ بندر عباس پہنچایا جاتا ہے ’’جس کے بعد یہ گاڑیاں نیمروز اور ہرات کے سرحدی شہروں کے راستے افغانستان آتی ہیں۔ پاکستان میں ان گاڑیوں کی سمگلنگ کے لئے نوشکی اور چمن بارڈر استعمال ہوتا رہا ہے لیکن موجودہ وقت میں ان گاڑیوں کا پاکستان کی سرحد میں داخل ہونے کا واحد راستہ نوکُنڈی راہداری ہے۔‘‘

اور تو اور کئی ایک لوگ فیس بُک کے ذریعہ بھی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا کاروبار کر رہے ہیں اور گاڑی خریدنے کی صورت میں وہ ملک کے کسی بھی حصے میں گاڑی پہنچانے کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں۔

اپر دِیر میں تعینات سپرنٹنڈنٹ پولیس (انویسٹی گیشن) فرمان خان نے سُجاگ کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کے سوات بینج (جسے دارالقضاء بھی کہا جاتا ہے) کے ایک فیصلہ کی روشنی میں گذشتہ ماہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے اندراج کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا ہے۔ چند دنوں میں صرف اپر دِیر ضلع میں 1300 گاڑیوں کا اندراج کیا گیا ہے۔

انگریزی اخبار ’دی نیوز انٹرنیشنل‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ایک اہلکار کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ ملک میں مالاکنڈ ڈویژن میں ڈیڑھ سے اڑھائی لاکھ تک نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ہیں جن کی رجسٹریشن سے ملکی خزانہ کو 30 ارب روپے تک حاصل ہو سکتے ہیں۔

دِیر سے سابقہ رکن صوبائی اسمبلی عنایت اللہ خان کا کہنا ہے کہ سوات، دِیر اور چترال کی آزاد ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کے وقت حکومت پاکستان نے وعدہ لیا تھا کہ اس علاقہ کی حیثیت ٹیکس فری زون کی ہو گی۔ لیکن دِیر سے ہی تعلق رکھنے والے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر سُجاگ کو بتایا کہ ٹیکس سے استثنا کے حوالہ سے مقامی لوگوں، ان کے محکمہ یا دیگر کسی سرکاری ادارہ کے پاس کوئی تحریری ثبوت دستیاب نہیں ہے۔

اپر دِیر سے قومی اسمبلی کے سابقہ رکن صاحبزادہ طارق اللہ کا کہنا ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ مقامی لوگوں کی معاشی حالات بہت بُرے ہیں جس کی وجہ سے وہ ٹیکسز دینے کے قابل نہیں ہیں۔ ’’یہی وجہ ہے کہ ضلع اپر دِیر سمیت مالاکنڈ ڈویژن کے لاکھوں لوگ روزگار کے تلاش میں بیرون ممالک میں مقیم ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھیں

postImg

موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی رجسٹریشن: 'اگر جیب میں پیسے نہیں تو ایکسائز دفتر کا رخ نہ کریں'

وہ کہتے ہیں کہ مالاکنڈ ڈویژن میں ٹیکسوں اور کسٹمز ڈیوٹیز کے اطلاق کے غیر مقبول فیصلہ کی سیاسی قیمت چُکانا پڑے گی جس کے لئے کوئی بھی سیاسی جماعت تیار نہیں کیونکہ ایسی صورت میں انتخابات میں انہیں یقینی طور پر عوامی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ صاحبزادہ طارق ﷲ اور دیگر سیاسی جماعتوں کی مقامی قیادت نمائندہ وفد کی صورت میں وزیرِ اعظم کے ساتھ ملنے کا پروگرام بنا رہے ہیں ’’تاکہ انہیں اگلے 30 سے 50 سال تک کے لئے مالاکنڈ ڈویژن میں کسٹمز ایکٹ کے نفاذ سے روکا جا سکے۔‘‘

اس سال جنوری میں پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے پیش کردہ ایک قرارداد کو بھی متفقہ طور پر منظور کیا گیا جس میں خیبر پختونخوا کے ضم شدہ قبائلی اضلاع اور مالاکنڈ ڈویژن میں پچیسویں آئینی ترمیم کے تحت فراہم کردہ ٹیکس استثنیٰ میں مزید 10 سال تک کی توسیع کی سفارش کی گئی ہے۔

ایک مقامی ٹرانسپورٹر مشتاق احمد خان کہتے ہیں کہ حکومت ایمنسٹی سکیم کے تحت مالاکنڈ ڈویژن میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر مناسب ٹیکس لگا کر انہیں باقاعدہ طور پر رجسٹر کر دے ’’جس سے ایک طرف تو غریب شہریوں کو فائدہ ہو گا تو دوسری طرف حکومت کواربوں روپے آمدن ہو گی جبکہ ان لاکھوں گاڑیوں کی رجسٹریشن سے سالانہ ٹوکن کی مد میں سرکاری خزانہ کو کروڑوں روپے کا فائدہ ہو گا۔‘‘

لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے بعد سمگل شدہ گاڑیوں کی رجسٹریشن اور مقامی اندراج کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جائے۔

تاریخ اشاعت 8 مارچ 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سید زاہد جان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے اور وہ گزشتہ باٸیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.