خیبر پختونخوا میں انصاف کے متبادل نظام کی کمیٹیاں، ایک بھی خاتون شامل نہیں

postImg

اسلام گل آفریدی

postImg

خیبر پختونخوا میں انصاف کے متبادل نظام کی کمیٹیاں، ایک بھی خاتون شامل نہیں

اسلام گل آفریدی

سعیدہ بی بی ضلع باجوڑ کی رہائشی ہیں جن کو تین سال قبل ان کے شوہر نے تشدد کے بعد گھر سے نکال دیا تھا۔ اُنہوں نے خلع اور حق مہر کے حصول کے لیے مقامی عدالت سے رجوع کیا لیکن اس کیس میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ضلع بھر میں خواتین پولیس اہلکار موجود نہ ہونے کی وجہ سے انہیں انصاف نہیں مل رہا۔

"میرا شوہر راولپنڈی میں کاروبار کرتا ہے اور عدالت کے بار بار بلانے پر بھی پیش نہیں ہوتا۔ جب وہ گھر (باجوڑ) آتا ہے مرد پولیس اہلکار قبائلی روایات اور چادر چار دیواری کے تقدس کے پیش نظر گھروں میں داخل نہیں ہوتے۔ خواتین اہلکاروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ ہر بار بچ نکلتا ہے۔"

سعیدہ کہتی ہیں کہ وہ مجبور ہو کر عدالت چلی تو گئیں لیکن  انہیں اندازہ نہیں تھا کہ انصاف کا عمل اتنا طویل اور سست رفتار ہے۔

"اب میں 'اے ڈی آر کمیٹی' میں جانا چاہتی ہوں لیکن کیس عدالت میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے وہاں جانا ممکن نہیں ہے۔"

تنازعات کے متبادل حل کا قانون یا اے ڈی آر ایکٹ

2018ء میں خیبر پختونخوا میں میں انضمام سے پہلے قبائلی علاقوں میں تنازعات کے حل کے لیے روایاتی جرگہ ہوتا تھا یا فرنٹیئر کرائم ریگولیشن 1901ء(ایف سی آر) کے تحت پولیٹکل ایجنٹ سرکاری جرگہ بنایا کرتے تھے جس کی کبھی کوئی خاتون ممبر نہیں ہوتی تھی۔

عدالتوں کا دائر اختیار بڑھنے سے جرگوں کے فیصلوں پر اعترضات سامنے آنا شروع ہوئے تو جرگے بھی غیر فعال ہو گئے۔

سماجی رہنما حسیب خان سلارزئی ضلع باجوڑ کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سابق سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ ایف آر ریجنز کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد زمین کے حدبندی کے سب سے زیادہ تنازعات سامنے آنا شروع ہوئے، جن کے حل کے لیے عدالتوں کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔

ضلع کرم کے چند علاقوں کے سوا تمام ضم اضلاع کی زمینوں کا کوئی ریکاڈ ہی موجود نہیں تھا۔ ان مسائل کے پیش نظر صوبائی حکومت نے تنازعات کے متبادل حل کے لیے 'خیبر پختونخوا آلٹرنیٹو ڈسپیوٹ ریزولیوشن ( اے ڈی آر) ایکٹ 2020ء' لانے کا فیصلہ کیا۔

 اس قانون کی دائرے میں ویسے تو پورا خیبرپختونخوا آتا ہے تاہم حکام بتاتے ہیں کہ اے ڈی آر ابھی صرف ضم شدہ اضلاع میں ہی فعال کیا گیا ہے۔

حسیب خان کا کہنا ہے کہ اے ڈی آر کمیٹی میں دیوانی اور معمولی نوعیت کے فوجداری(دفعہ 345 کے تحت درج ہونے والے) کیسز حل کیے جاتے ہیں۔ پہلے سے عدالت میں زیر سماعت یا قتل جیسے سنگین مقدمات ثالثین کی کمیٹی نہیں سن سکتی۔

کسی کمیٹی میں کوئی خاتون ثالث شامل نہیں کی گئی

اے ڈی آر ایکٹ کے تحت ضلعی ثالثین کمیٹی میں مرد یا خاتون ارکان کی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا تاہم انتظامی سطح پر ہر ضلع کے لیے کم از کم 50 ارکان نامزد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

لوگ سجاگ نے تمام سات اضلاع کے ضلعی انتظامیہ کے نامزد کردہ اے ڈی آر کمیٹیوں کے ارکان (ثالثین) کے اعداد شمار جمع کیے ہیں جن کے مطابق کل ثالثین کی تعداد 418 ہے لیکن ان میں کسی ایک خاتون کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔

ثالثین کی نامزدگی کا طریقہ کار

اے ڈی آر ایکٹ کا سیکشن 7 بتاتا ہے کہ اضلاع کے لیے ثالثین کے ناموں کی منظوری ڈویژن کی سطح پر قائم ' ثالثین سلیکشن کمیٹی' دے گی جس کے چیئرمین متعلقہ کمشنر ہوں گے۔

سلیکشن کمیٹی کے ارکان میں ریجنل پولیس آفیسر، ضلعے کا سینئر سول جج (ایڈمن)، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا نمائندہ، ڈائریکٹر پراسیکیوشن، سپیشل برانچ کا نمائندہ اور متعلقہ ضلعے کا ڈپٹی کمشنر بطور رکن و سیکرٹری شامل ہوں گے۔

یہ کمیٹی چاہے تو کسی دوسرے شخص کو بھی بطور شریک منتخب رکن اپنے ساتھ شامل کرسکتی ہے۔

اس قانون کے تحت ہر ضلع کے لیے متعلقہ ضلعی انتظامیہ ثالثین کی لسٹ (پینل) کی سفارش کرے گی اور ڈویژنل کمیٹی ناموں کی منظوری دینے کے بعد ان کا نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔

ثالثین کی اہلیت کا معیار

ایکٹ میں مقرر کیے گئے معیار کے مطابق ضلع کی اے ڈی آر کمیٹی کے ثالثین میں کم از کم سات سال کا تجربہ رکھنے والے وکلاء، ریٹائرڈ جوڈیشل افسر، ریٹائرڈ سول سرونٹس، علمائے کرام، علاقہ معززین، ماہرین یا دیانتدار اور اچھی ساکھ والے دیگر افراد کو شامل کیا جائے گا۔

ڈاکٹر عامر رضا پشاور یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ ضم شدہ اضلاع میں لوگوں کو اے ڈی آر کے حوالے سے آگاہی دیتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں انصاف کے لیے چھ نظام یا قوانین کام کر رہے ہیں جن میں عدلیہ، ڈی آر سی (ڈسپیوٹ ریزولیوشن کونسل) یا مصالحتی کونسل، لوکل گورنمٹ ایکٹ، ریونیو ایکٹ اور روایتی جرگے کے بعد اے ڈی آر شامل ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اے ڈی آر قانون کے تحت ضلعی عدالت اور ڈپٹی کمشنر، ثالثین کمیٹی کو کیس بھیج سکتا ہے بشرطیکہ فریق اس پر راضی ہوں۔ اس کیس کا فیصلہ کرنے کے لیے مدت تین ماہ مقرر کی گئی ہے۔

" تاہم اگر مذکورہ دوارنیہ میں کیس حل نہ ہو مگر پیش رفت ہو رہی ہو تو فریقین کی رضامندی سے ثالثین ڈپٹی کمشنر کو مدت میں چھ ماہ کی توسیع کے لیے درخواست دے سکتے ہیں جس میں مزید توسیع نہیں کی جائے گی۔"

اے ڈی آر کے شیڈول میں کرایہ داری، مزارعت، حق شفعہ اور زمین و مکان کے قبضے سے متعلق مقدمات، فیملی تنازعات بشمول سرپرستی اور تحویل نابالغ اطفال، تجارتی لین دین کے تنازعات، منقولہ جائیداد کے قبضے یا اس کی قیمت کی وصولی کے مسائل، مشترکہ غیر منقولہ جائیداد کے قبضوں، تقسیم یا کھاتوں کی ادائیگی کے معاملات شامل ہیں۔

شیڈول کے مطابق رقم کی وصولی، وراثت اور رہن کی جائیداد کے چھڑانے سے متعلق مقدمات، پیشہ ورانہ غفلت سے متعلق تنازعات، وقف اور ٹرسٹ سے متعلق کیسز ثالثین کمیٹی کو بھیجے جا سکتے ہیں۔

مذکورہ کیسز کے علاوہ کوئی ایسا معاملہ جو اس قانون کے شیڈول میں نہیں آتا لیکن فریقین تصفیہ کے لیے اسے ثالثین کے پاس لانے پر متفق ہوں، وہ بھی اے ڈٰی آر کمیٹی کو بھیجا جا سکتا ہے۔

حسیب خان کے مطابق ضلع کی ثالثین کمیٹی کے ممبران کا انتخاب تین سال کے لیے ہوتا ہے جس کا سربراہ ڈی سی ہوتا ہے تاہم ڈسٹرکٹ جج، وکیل، ضلعی پولیس آفسر سمیت انٹیلی جنس ادارے کے اہلکار کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔

ڈاکٹر عامر رضا کہتے ہیں کہ کمیٹی فریقوں کا تحریری موقف لے کر کیس کا تحریر ی فیصلہ دے گی۔ ثالثین کے بعد ڈسٹرکٹ سول جج بھی فیصلے پر دستخط کرے گا جس کو کسی عدالت میں چیلنچ نہیں کیا جاسکتا۔

" اے ڈی آر کمیٹی میں خواتین کی نمائندگی انتہائی ضروری ہے اور انہیں اس میں شامل کرنے میں بھی کوئی قانونی رکاوٹ نہیں۔"

 کرم کی رہائشی فوزیہ سردار ضم اضلاع کی خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ ثالثین کمیٹیوں میں کوئی بھی خاتون ممبر نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسا نظام انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا جس میں نصف آبادی کی نمائندگی ہی نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ سخت سماجی روایات کی وجہ سے خواتین اپنے مسائل کے حل کے لئے پولیس، تھانہ اور عدالت نہیں جا پاتیں۔ اے ڈی ار ایک آسان پلیٹ فارم ہے لیکن یہاں بھی سارے مرد ہی ہوں گے جس سے پردہ دار خواتین کو مشکل ہو گی۔

" میں تمام کمشنرز سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ ہرضلعے کی اے ڈی آر کمیٹیوں میں مقامی خواتین کو شامل کریں۔"

مولانا قوت خان ضلع کرم میں ثالثین کمیٹی کے ممبر اور خواتین کی کمیٹی میں نامزدگی کے بھر پور حامی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کمیٹی میں خواتین جب اپنے مسائل لے کر آتی ہیں تو وہ پردے کی وجہ سے مرد ممبران کے ساتھ بات نہیں کر پاتیں اور مجبوراَ واپس لوٹ جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

بارش کا پہلا قطرہ: وراثتی جائداد میں اپنے حصہ کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والی قبائلی خواتین

عدالتی اعداد و شمار کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں 41 ہزار 337 اور ماتحت عدالتوں میں دو لاکھ 72 ہزار 316 مقدمات زیر التوا جن میں زیادہ تر زمین یا جائیداد کے تنازعات، کاروباری مسائل، گھر یلو تشدد وغیرہ کے کیسز شام ہیں جو کہ قابل راضی نامہ ہیں۔

ہائی کورٹ کے ججز کی 20 نسشتیں خالی ہیں۔

 فاٹا انضمام کے ساتھ قبائلی اضلاع میں 10 مزید ججز کی تعیناتی کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس پر تاحال عمل نہیں ہو سکا۔

خیبر بار ایسویشن کے صدر فرہاد آفریدی بتاتے ہیں کہ عدالتوں میں پر کیسز کے بوجھ کی وجہ سے لوگوں کو انصاف کے لیے نہ صرف لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے بلکہ ان پر اخراجات بھی بہت زیادہ آتے ہیں۔ اسی لیے اے ڈی آر ایکٹ لایا گیا " تاہم اے ڈی آر میں فریقین کو وکیل رکھنے اور فیصلے پر اپیل اور نظرثانی کا حق ملنا چاہیے۔"

غیر سرکاری ادارے اے ڈی آر کمیٹیوں کے ارکان کی تربیت اور آگاہی کے لیے اجتماعات کا انعقاد کرتے ہیں جن میں خواتین بھی شرکت کرتی ہیں لیکن کسی بھی ضلع کی اے ڈی ار کمیٹی کے سرکاری اعلامیے میں خاتون ممبر کا نام شامل نہیں۔

تاہم اس حوالے سے محکمہ داخلہ کا کوئی ذمہ دار جواب دینے کو تیار نہیں۔

ضم شدہ اضلاع میں لیڈی پولیس اہلکاروں کی موجودگی کا بھی یہی حال ہے۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس آفس کے مطابق سات قبائلی اضلاع میں 25 ہزار 879 پولیس اہلکار تعینات جن میں صرف 37 خواتین پولیس اہلکار ہیں۔

ضلع خیبر میں نو، مہمند میں چھ، کرم میں 14، شمالی وزیر ستان میں سات اور جنوبی وزیرستان میں ایک، جبکہ باجوڑ اور اورکزئی سمیت چھ ایف آر ریجنز میں کوئی خاتون پولیس اہلکار موجود نہیں ہے۔ تاہم ضلع کرم، پارہ چنار اور ضلع خیبر کے باڑہ میں ویمن ڈسک قائم کیے گئے ہیں۔

تاریخ اشاعت 5 جولائی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.