گذشتہ سال نومبر میں ملتان کے علاقے زکریا ٹاؤن کی رہنے والی 33 سالہ بانو کی طبعیت اچانک خراب ہو گئی۔ اہلخانہ نے انہیں بروقت طبی امداد پہنچانے کے لیے ریسکیو 1122 کی ایمبولینس منگوائی اور نشتر ہسپتال کی جانب روانہ ہو گئے۔ ہسپتال کو جانے والی سڑک پر ٹریفک بری طرح جام تھی۔ ایمبولینس کے عملے نے سائرن بجا کر راستہ لینے کی بہت کوشش کی لیکن گاڑیوں کے اژدہام اور شور شرابے میں سائرن کی آواز دب کر رہ گئی۔
ایمبولینس کافی دیر ٹریفک میں پھنسی رہی اور جب راستہ کھلا تو اس وقت بانو کی موت واقع ہو چکی تھی۔
ملتان میں کسی مریض کی ٹریفک جام میں ہلاکت کا یہ کوئی واحد واقعہ نہیں۔ ریسکیو 1122 کے ریکارڈ کے مطابق صرف نومبر 2022ء میں ہی چھ افراد ایسے ہی حالات میں انتقال کر گئے تھے۔ ان میں بانو کے علاوہ لطف آباد بوسن روڈ کے رہائشی 20 سالہ محمد ذیشان، رشید آباد چوک کے 65 سالہ عزیز، ذکریا ٹاؤن گلی نمبر 42 کے 58 سالہ رئیس احمد، شریف پورہ کی 90 سالہ حیات بی بی اور پل واصل کے رہائشی 52 سالہ محمد اختر شامل ہیں۔
ان میں چار مریضوں کو دل کا دورہ پڑا تھا جنہیں بروقت طبی امداد میسر آتی تو ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ ملتان میں ریسکیو 1122 کے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر کلیم اللہ کا کہنا ہے کہ نشتر ہسپتال روڈ پر غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے جہاں شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے، وہیں ریسکیو عملے کو بھی شدید دشواری ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ "ریسکیو کے عملے نے ہر مریض کو فوری طور پر نشتر ہسپتال ہی لے جانا ہوتا ہے اور جیسے ہی ہم فلائی اوور اترتے ہیں تو اس کے بعد ہمارے لیے ایک ایک لمحہ دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مریضوں پر کیا گزرتی ہوگی "۔
18 دسمبر 2022 کی دوپہر 50 سالہ محمد ذوالقرنین کی والدہ کے پیٹ میں شدید درد اٹھا۔
ذوالقرنین نشتر ہسپتال ملتان سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر رہائش پذیر ہیں۔ والدہ کو ہسپتال لے جانے کے لیے انہوں نے اپنی گاڑی نکالی اور جسٹس حمید کالونی کی مرکزی سڑک کا انتخاب کیا تاکہ جلد از جلد ہسپتال پہنچ سکیں۔ جیسے ہی وہ نشتر ہسپتال چوک (پرانا جمیل موٹر چوک) پہنچے تو نشتر روڈ پر ٹریفک جام میں پھنس گئے۔
ذوالقرنین نے وقت ضائع کیے بغیر گاڑی کو فوری طور پر واپس موڑ لیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اب ٹریفک کا اسی طرح ہجوم رہے گا اور راستہ صاف ہونے تک انہیں گھنٹوں انتظار کرنا پڑے گا۔
انہوں نے متبادل راستہ اختیار کرتے ہوئے ایم ڈی اے چوک کی جانب سفر شروع کردیا۔یہ راستہ طویل تو تھا لیکن والدہ کی حالت کے پیش نظر یہی راستہ ان کے لئے مناسب تھا۔
ڈسٹرکٹ جیل روڈ سے ہوتے ہوئے وہ نشتر ایمرجنسی پہنچ گئے۔ ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کی والدہ کے پتے میں پتھری ہے۔ اگر وہ بروقت ہسپتال نہ پہنچتے تو پتہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا جس سے مریضہ کی جان بھی جاسکتی تھی۔
پرانا بہاولپور روڈ ( قسور گردیزی روڈ) سے جیسے ہی نشتر ہسپتال روڈ کی طرف جائیں تو اچانک منظر بدل جاتا ہے۔ سڑک کے دونوں جانب گاڑیوں، رکشوں، چنگچی اور موٹر سائیکلوں کا رش نظر آتا ہے۔ گاڑیوں کے ہارن اور ایمبولینس گاڑیوں کے سائرن سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
سکول، کالج کے اوقات میں تو یہاں سے گزرنا بھی محال ہے۔بعض لوگوں نے متبادل مگر طویل راستے اختیار کر لیے ہیں مگر جو آبادیاں سڑک کنارے آباد ہیں ان کے رہائشیوں کو آنے جانے کے لیے یہی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔
کبھی یہ ایک رویہ تنگ سڑک ہوا کرتی تھی مگر 2010ء میں جب شہر میں درجنوں انڈر پاس اور اوور ہیڈ برج بنائے گئے تو اس سڑک کے درمیان میں بھی ڈیوائیڈر لگا کر اسے دورویہ بنا دیا گیا جس سے ٹریفک جام کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا۔ نشتر چوک سے نصف کلو میٹر کے فاصلے پر ایمرجنسی سے پہلے ایک پل ہے جہاں سے شہر کے مشرقی علاقوں سے آنے والی ٹریفک اترتی ہے۔
نشتر ہسپتال کا شمار ملک کے بڑے ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ اس ہسپتال میں 1800 بستروں کی گنجائش ہے جب کہ مختلف امراض کے 32 وارڈ ہیں۔ ایمرجنسی وارڈ، برن یونٹ اور ڈینٹل سیکشن ان کے علاوہ ہیں۔ ہسپتال میں نہ صرف ملتان بلکہ جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں، بلوچستان اور اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی بڑی تعداد بھی اپنے مریضوں کا علاج کرانے آتی ہے۔
ہسپتال کے آؤٹ ڈور میں روانہ ساڑھے تین ہزار اور ایمرجنسی وارڈ میں اوسطاً 1600 مریض آتے ہیں۔ نشتر ہسپتال سے ملحق میڈیکل یونیورسٹی میں ڈیڑھ ہزار طلباطالبات زیر تعلیم ہیں۔
نشتر چوک سے ڈسٹرکٹ جیل چوک تک تقریبا دو کلو میٹر کے درمیان سڑک کے دونوں اطراف 300کے قریب میڈیکل اور سرجیکل سٹور قائم ہیں۔اسی روڈ پر 120 چھوٹی بڑی پرائیویٹ ٹیسٹ لیبارٹریاں، تقریباً دو درجن بڑے پلازے اور مختلف امراض کے 30 پرائیویٹ ہسپتال واقع ہیں۔ان میں سے 20 سے زیادہ ہسپتالوں کی پارکنگ نہیں ہے جبکہ باقی ہسپتالوں میں برائے نام پارکنگ دکھائی دیتی ہے۔
خواجہ عارف ملتان کی تحصیل شجاع آباد کے رہائشی ہیں اور ملازمت کے سلسلے میں ملتان آتے ہیں۔کمر کے مہروں میں تکلیف کے باعث پہلے انہوں نے شجاع آباد کے ہسپتال سے علاج کروایا بعد ازاں شجاع آباد کے ڈاکٹروں نے انہیں نشتر ہسپتال سے علاج کروانے کے لیے ریفر کردیا۔
گزشتہ دنوں ان کے صاحب زادے عدیل عارف والد کو پرائیویٹ گاڑی میں لے کر شجاع آباد سے پرانا بہاولپور روڈ سے ہوتے ہوئے نشتر ہسپتال چوک پر پہنچے تو انہیں بھی بد ترین ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑا۔
غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے ہسپتال پہنچنے والے مریضوں اور ریسکیو عملے کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے
ان کا کہنا ہے کہ "ایک تو ٹریفک پھنسی ہوئی تھی، دوسرے ون وے روڈ ہونے کے باوجود گاڑی کے سامنے مخالف سمت سے کوئی رکشہ یا موٹر سائیکل آجاتا تھا۔اسی تنگ سڑک پر پلازوں کے باہر گاڑیاں کھڑی تھیں اور لوگ گاڑیاں موڑ کر سڑک پر لانے کی کوشش میں تھے۔ رہی سہی کسر وہاں بعض مقامات پر موجود ٹھیلے والوں نے پوری کر دی تھی جو اپنے کاروبار میں مگن تھے"۔
خواجہ عارف نے بتایا کہ ان کے لیے اس روز نشتر پہنچنا اور پھر اسی سڑک سے گھر واپس جانا کسی امتحان سے کم نہ تھا۔
نشتر ہسپتال وارڈ 26 بی کے سینئر رجسٹرار ڈاکٹر ارشد مجاہد کا کہنا ہے کہ نشتر روڈ پر بیشتر غیر قانونی پارکنگ سٹینڈ پرائیویٹ ہسپتالوں نے بنائے ہوئے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ "شکایات پر انتظامی افسر ایک دو ماہ کے بعد دکھاوے کی کارروائی کرتے ہیں اور جرمانے کیے جاتے ہیں مگر جونہی وہ واپس جاتے ہیں تو صورتحال پہلے جیسی ہو جاتی ہے۔''
سڑکوں پر تجاوزات اور ٹریفک کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ذمہ داری میونسپل کارپوریشن کی ہے۔ کارپوریشن یہ کارروائی انتظامیہ اور ٹریفک پولیس کے ساتھ مل انجام دیتی ہے۔ ادارے کے ترجمان کریم نواز خان کا دعویٰ ہے کہ غیر قانونی پارکنگ سٹینڈز کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں اور مقدمات بھی درج کروائے گئے ہیں تاہم شہر میں اس وقت تجاوزات کی بھرمار ہے۔"ہم اس لیے بروقت کارروائی نہیں کرپاتے کیونکہ ہمارے پاس عملے کی شدید کمی ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
فیصل آباد میں غیرقانونی پارکنگ سٹینڈ: 'کوئی سرکاری محکمہ اس کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں'۔
اسسٹنٹ کمشنر سٹی خواجہ عمیر کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے شہر بھر میں اور خاص طور پر سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں کے باہر غیر قانونی پارکنگ سٹینڈز کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں کرکے مقدمات درج کروائے اور نشتر روڈ کو کئی مرتبہ صاف بھی کروایا گیا لیکن ساری کوششیں بے سودثابت ہوتی ہیں۔
"تجاوزات اور پارکنگ مافیا اپنے سرپرستوں کی وجہ سے بہت طاقتور ہے"۔
ڈی ایس پی ٹریفک سٹی عطیہ ناہید جعفری بتاتی ہیں کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کے ڈاکٹروں اور میڈیکل سٹور مالکان نے انہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ نشتر روڈ کو تجاوزات سے پاک رکھنے اور غیر قانونی پارکنگ کو صاف کرنے میں سٹی ٹریفک پولیس سے تعاون کریں گے۔
لیکن یہ تعاون کہیں نظر نہیں آتا۔
ذوالقرنین کی والدہ اب روبہ صحت ہیں تاہم انہیں اب بھی فالو اپ کے لیے نشتر جانا پڑتا ہے۔ ذوالقرنین کہتے ہیں کہ جس دن وہ ہسپتال جاتے ہیں اس روز ٹریفک جام کے باعث ان کا پورا دن خراب ہوجاتا ہے۔
تاریخ اشاعت 20 جنوری 2023