گلگت بلتستان کے علاقے کھرمنگ سے تعلق رکھنے والے شبیر حسین مایار کا نام انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے شیڈول فور کے تحت بنائی گئی ایک فہرست میں شامل ہے جس کے باعث ان کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ ان کے لیے مقامی پولیس کی اجازت کے بغیر سفر، تقریر اور کاروبار کرنا ممنوع ہے اور ان کے بنک اکاؤنٹ کی بھی کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔
اس فہرست میں ان کا نام جولائی 2018 میں ڈالا گیا جب وہ سینکڑوں سیاسی کارکنوں کے ساتھ مل کر اپنے آبائی علاقے میں زمینوں پر کیے جانے والے مبینہ قبضے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ "اس احتجاج سے خوفزدہ حکومت نے سیاسی کارکنوں کو خاموش کرانے کے لیے شیڈول فور کا غلط استعمال کیا"۔
اس حکومتی اقدام کے نتیجے میں اس پائپ کمپنی نے بھی انہیں نوکری سے نکال دیا جس میں وہ مارکیٹنگ آفیسر کے طور پر کام کرتے تھے۔ چنانچہ کراچی میں سیکنڈ ایئر میں زیرتعلیم ان کے بڑے بیٹے کو پڑھائی چھوڑ کر خاندان کے مالی معاملات کی ذمہ داری سنبھالنا پڑی۔
ان کے ساتھ 250 دیگر مقامی افراد کو بھی اسی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ ان میں گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن غلام شہزاد بھی موجود تھے جن کا قومی شناختی کارڈ اور بنک اکاؤنٹ دونوں ابھی تک غیر فعال ہیں اور وہ جب کبھی بھی سفر کرتے ہیں انہیں مقامی تھانے میں اس کے مقصد اور اپنی منزل کے بارے میں اطلاع دینا پڑتی ہے۔
ان میں سے کئی لوگوں کے نام بعد میں اس فہرست سے نکال دیے گئے جن میں سکردو کے وکیل اور سیاسی کارکن آصف ناجی بھی شامل ہیں۔ انہیں دہشت گردی کے الزام میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ پینے کے پانی کی قلت پر احتجاج کرنے والی مقامی خواتین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کر رہے تھے۔ تاہم اپریل 2019 میں ایک عدالت نے ان پر لگایا گیا دہشت گردی کا الزام ختم کر دیا اور 2020 میں ان کا نام شیڈول فور کی فہرست سے بھی نکال دیا گیا۔
لیکن 41 سالہ شبیر حسین مایار سمیت 37 دیگر مقامی لوگوں کے نام ابھی تک اس فہرست میں موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے مسائل ان کے لیے نئے نہیں کیونکہ، ان کے مطابق، وہ اس وقت سے سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتے چلے آئے ہیں جب وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔
ان کے مطابق ان کے آبائی علاقے میں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں اس لیے ابتدائی عمر میں ہی انہیں تعلیم کے حصول کے لیے اپنا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا جس کے نتیجے میں انہیں جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ ان کے علاقے کے لوگ سماجی اور معاشی سہولیات سے کتنے محروم ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شیڈول فور کی فہرست میں نام آنے کے بعد بھی وہ عوامی مسائل پر احتجاج کرتے رہے حتیٰ کہ ستمبر 2018 میں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور کئی ماہ قید میں رکھا گیا حالانکہ انہیں کسی عدالت نے مجرم قرار نہیں دیا تھا۔
شیڈول فور میں نام کون ڈالتا ہے؟
نیشنل کاؤنٹر ٹیررِزم اتھارٹی (نیکٹا) کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں روز اینڈ جیسمین گارڈن کے سامنے سیاہ کھڑکیوں اور سرمئی دیواروں والی ایک تین منزلہ عمارت میں واقع ہے۔ اس کے سیاہ رنگ کے بہت بڑے داخلی دروازے پر ایک وردی پوش محافظ تعینات ہے جو افسرانِ بالا سے منظوری لیے بغیر کسی کو اندر داخل نہیں ہونے دیتا۔
پہلی نظر میں یہ عمارت ایک ایسی جگہ لگتی ہے جہاں کوئی بہت اہم کام ہو رہا ہو۔
لیکن نیکٹا کے ڈائریکٹر برائے رابطہ کاری طاہر علی کہتے ہیں کہ "ہمارا کام محض مختلف سرکاری اداروں کے درمیان رابطہ برقرار رکھنا اور پالیسیاں بنانا ہے"۔ ان کے ایک ساتھی افسر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا محکمہ ایسی ہدایات اور ایسے رہنما اصول وضع کرتا ہے جو انسدادِ دہشت گردی کے صوبائی محکموں اور وفاقی محکمہ داخلہ کو اپنا کام کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
نیکٹا کے ذمے ایک اہم فریضہ ایسے افراد کی فہرست جاری کرنا ہے جنہیں شیڈول فور میں رکھا گیا ہے۔ لیکن اس کے افسران کا کہنا ہے کہ وہ اپنے طور پر نہ تو اس میں کوئی نام شامل کرتے ہیں نہ ہی وہ خود کوئی نام اس سے نکال سکتے ہیں۔ ان کے مطابق شیڈول فور کے دائرہِ اختیار میں آنے والے لوگوں کی نشان دہی کرنا چاروں صوبوں کے انسدادِ دہشت گردی کے محکموں اور وفاقی محمکہِ داخلہ کی ذمہ داری ہے۔ اس نشان دہی کے بعد یہ محکمے ایسے افراد کے نام نیکٹا کو بھیج دیتے ہیں جو انہیں اپنی ویب سائٹ پر موجود فہرست میں شامل کر لیتا ہے۔
اس وقت یہ فہرست 31 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں تین ہزار 67 لوگوں کے نام موجود ہیں۔ حال ہی میں تحریکِ لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی سمیت اس مذہبی تنظیم سے تعلق رکھنے والے دو سو سے زائد افراد کے نام اس میں سے نکالے گئے ہیں (حالانکہ ان پر پولیس کے اہل کاروں کو ہلاک کرنے، سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور امنِ عامہ کو نقصان پہنچانے کے کئی الزامات ہیں)۔
نیکٹا کے ایڈوائزری بورڈ کے رکن اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے تحقیقی جریدے، جرنل آف انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلیٹی، کے ایڈیٹر انچیف ڈاکٹر محمد مکی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اس فہرست میں کسی شخص کا نام ڈالنے (یا نکالنے) کا نہ تو کوئی واضح طریقہِ کار ہے اور نہ ہی متعلقہ شخص کو اس کے بارے میں باقاعدہ اطلاع دی جاتی ہے۔
وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ کراچی کی عدالت میں ایک ایسے شخص کا مقدمہ لڑ رہے ہیں جس کا نام تین سال سے شیڈول فور کی فہرست میں شامل ہے لیکن، ان کے مطابق، ان کے موکل کو کبھی نہیں بتایا گیا کہ اسے اس میں کیوں ڈالا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ "دہشت گردی ایک پیچیدہ اصطلاح ہے جس کی کوئی واضح قانونی تعریف موجود نہیں اس لیے اس کی روک تھام کے لیے بنایا گیا قانون بھی بہت مبہم ہے"۔ ان کے مطابق اس قانون کی بنیاد پر "بعض اوقات کچھ لوگوں کو محض اس لیے شیڈول فور میں ڈال دیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق کسی خاص علاقے یا قبیلے سے ہوتا ہے۔ مثلاً کئی بے گناہ لوگ صرف اس لیے اس کی زد میں آجاتے ہیں کہ ان کا تعلق خیبرپخوتخوا کے قبائلی علاقوں سے ہوتا ہے"۔
جب کسی شخص کا نام اس فہرست میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کے علاقے کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کو اس کے بارے میں بتا دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس کی نقل و حرکت کو محدود رکھ سکیں۔ اگست 2021 میں حکومتِ پاکستان نے یہ اعلان بھی کیا کہ اس میں شامل افراد جائیداد کا لین دین بھی نہیں کر سکیں گے اور ان کے ساتھ اس طرح کا لین دین کرنے والے لوگوں کو قید اور جرمانے کی سزا بھگتنا ہو گی۔
کہیں پہ نگاہیں، کہیں پہ نشانہ
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نامی قانون دانوں کی عالمی تنظیم کی مشیر ریما عمر کہتی ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت کسی فرد کی تقریر، سفر اور کاروبار پر پابندیاں لگانا بنیادی آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق "یہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے کہ سرکاری حکام انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت حاصل اختیارات کو بعض اوقات انسانی حقوق کے کارکنوں اور پُرامن سیاسی کارکنوں کے خلاف سزا کے طور پر استعمال کرتے ہیں"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے قانون کا غلط استعمال روکنے کے لیے اعلیٰ عدالتوں نے متعدد بار حکومتی اہل کاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال منصفانہ طور پر کریں۔ ان کے مطابق ججوں نے کئی مقدمات میں ان حکام کو واضح طور پر بتایا ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو شیڈول فور کی فہرست میں ڈالنے کے لیے محض الزامات، شکوک و شبہات اور افواہوں پر انحصار مت کریں بلکہ اس کے لیےکوئی معقول بنیاد بنائیں اور ٹھوس شواہد اکٹھے کریں۔
اس سلسلے میں ایک اہم مقدمے کی سماعت 16 نومبر 2021 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے کی۔
سماعت کے دوران انہوں نے نیکٹا سے سوال کیا کہ بلوچستان کی ہزارہ شیعہ برادری کے ان چار افراد کے بینک اکاؤنٹ ابھی تک کیوں بحال نہیں کیے گئے جن کے نام شیڈول فور کی فہرست سے نکالنے کا حکم بلوچستان ہائی کورٹ نے 11 اگست 2021 کو جاری کیا تھا۔
پراپیگنڈہ کی جنگ
اس سال کے آغاز میں کھرمنگ کے رہائشی مہدی شاہ رضوی نامی شخص نے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو پیغام اپ لوڈ کیا جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ وہ پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کرنے کے لیے انڈیا کے جاسوس اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ شبیر حسین مایار اور آصف ناجی سمیت کئی اور لوگ بھی یہی کام کرنے میں اس کے ساتھی رہے ہیں۔
لیکن شبیر حسین مایار ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جہاں ایک طرف اس کا دعویٰ اس عدالتی فیصلے کی نفی کرتا ہے جس کے تحت آصف ناجی کو دہشت گردی کے الزام سے بری کیا گیا ہے وہاں وہ ابھی تک ایسا کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکا جن کی مدد سے ان افراد کے انڈیا کے ساتھ روابط بغیر کسی شک و شبہے کے ثابت ہوتے ہوں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان الزامات کا مقصد ان کی آواز دبانے کی کوشش کرنا ہے۔ ان کے بقول "ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ ہم ملک دشمن لوگ ہیں حالانکہ ہم پُرامن اور جمہوری سیاسی کارکن ہیں جو گلگت بلتستان کے اداروں کو بااختیار اور مضبوط بنانا چاہتے ہیں"۔
تاریخ اشاعت 22 نومبر 2021