مالی خسارہ یا حکام کی نااہلی: ناٹکو کے سیکڑوں ملازمین تنخواہوں سے محروم

postImg

عمر باچا

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

مالی خسارہ یا حکام کی نااہلی: ناٹکو کے سیکڑوں ملازمین تنخواہوں سے محروم

عمر باچا

loop

انگریزی میں پڑھیں

گلگت بلتستان اور دیگر شمالی علاقہ جات کیلئے چلنے والی ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کمپنی (ناٹکو) بھی پی آئی اے، ریلوے اور دیگر سرکاری اداروں کی طرح خسارے کا شکار اور گزشتہ کئی ماہ سے مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ کمپنی کے ملازمین کو گزشتہ تین مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں۔ کمپنی کی بسیں بھی خراب حالت میں ہیں جن میں بہت سی ورکشاپوں میں کھڑی ہیں جبکہ نئی گاڑیاں بھی غیرفعال ہیں۔

ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن منسٹری آف کشمیر افیئرز اینڈ گلگت بلتستان کے تحت چلنے والا ادارہ ہے جس کے زیر انتظام بسیں اور مال بردار گاڑیاں کراچی، اسلام آباد، لاہور، پشاور اور ملک کے دیگر شہروں سے شمالی علاقہ جات، سوست چائنہ بارڈر اور خپلو میں انڈیا کے بارڈر تک گاڑیاں چلتی ہیں۔

یہ کمپنی 1974 میں وجود میں آئی تھی مگر حالیہ چند سال  سے خسارے میں جارہی ہے۔  اس میں ڈرائیوروں اور دیگر عملے سمیت 950 کے قریب ملازمین کام کرتے ہیں جن میں 98 فیصد تعداد بطور کنٹریکٹ ملازم ہے۔

ناٹکو میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے انہی ملازمین میں شامل اسمر حسین (فرضی نام) 26 دسمبر 2011 سے بطور ڈرائیور ملازمت کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے تین ماہ سے تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔

"کمپنی والے مسلسل جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور ہماری تنخواہ نہیں دے رہے، اگر کسی گاڑی کے ٹائر یا بیٹری خراب ہو تو اسے ٹھیک کرانے کے لیے کئی کئی مہینے انتظار اور منتیں کرنا پڑتی ہیں۔"

اسمر حسین گلگت بلتستان کو گندم سپلائی کرنیوالی مال بردار گاڑی چلاتے ہیں، گاڑی میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو اسے کسی بھی پہاڑی اور ویران جگہ پر  کھڑا کر کے اسی کے نیچے سو جاتے ہیں۔ اکثر انہیں کھانے پینے کیلئے بھی کچھ میسر نہیں ہوتا اور وہ ساتھی ڈرائیورز کو مطلع کرکے کچھ کھانے کیلئے منگوالیتے ہیں۔

کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ڈرائیوروں کی تنخواہ 2011 میں 17 سے 18 ہزار روپے مقرر کی گئی تھی جس میں کبھی کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ڈرائیوروں کو فی ٹرپ 4000 روپے کمیشن دیا جاتا ہے جبکہ راستے میں ہونے والے سارے خرچے انہیں خود کرنا ہوتے ہیں۔

اسمر حسین بتاتے ہیں کہ ملازمین کے ساتھ افسروں کا برتاؤ  نامناسب ہے، لیکن کنٹریکٹ ملازمین ہونے کے باعث وہ اس حوالے کچھ نہیں کرسکتے۔ گاڑیوں میں خرابی کی مسلسل شکایات کے باوجود مرمت کا کام نہیں کروایا جاتا جس سے حادثات اور جانی نقصانات ہو رہے ہیں۔

12 اگست 2023 کو کوہستان کے علاقے شولگرہ میں 48 مسافروں پر مشتمل ایک نئی بس فنی خرابی کی وجہ سے بے قابو ہو کر الٹ گئی تھی۔ اس حادثے میں بس کا ملازم محمد یونس جاں بحق ہو گیا جبکہ 33 مسافر زخمی ہوئے۔

ایک اور واقعے میں گگلت کے علاقے جگلوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور جب داسو میں گاڑی کو پیش آنے والے حادثے میں جاں بحق ہوئے تو کمپنی کی جانب سے کسی بندوبست کا پورا دن انتظار کرنے کے بعد چندہ اکھٹا کرکے ان کی میت پرائیویٹ گاڑی میں آبائی علاقے لے جائی گئی جبکہ ناٹکو حکام نے بعد میں بھی ان کے لواحقین کی کوئی خبر نہ لی۔

گاڑی کے دروازے کے ساتھ کھڑے اسمر نے بیچارگی کے عالم میں کہا کہ ایسے حالات میں جب مہنگائی میں 300 فیصد اضافہ ہو گیا ہے تو اس اجرت میں گزارا کرنا ممکن نہیں رہا۔

"پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو پرائیویٹ سکول سے نکال کر سرکاری سکول میں داخل کروا دیا ہے، مگر نہ اُن کی یونیفارم کیلئے پیسے ہیں نہ کاپی پینسل کے لیے، بس خدا کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہم پر رحم کرے ورنہ زمین والوں نے تو ہم سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔"

 پٹرول کی عدم دستیابی پر کئی روز بشام میں پھنسے رہنے والے ڈرائیور عبدالقیوم اور ولی محمد نے میڈیا کو بتایا تھا کہ انہیں پٹرول نہیں مل رہا اور وہ مشکلات میں ہیں۔ یہ خبر 16 اگست کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوئی تو ناٹکو کے مینجنگ ڈائریکٹر نے دونوں ڈرائیوروں کو کسی طرح کا وارننگ لیٹر یا شوکاز نوٹس دیے بغیر معطل کر دیا۔

14 ستمبر کو ناٹکو ملازمین نے تنخواہوں کی عدم فراہمی اور تین سال سے الاونس نہ دینے، ریگولرائزیشن اور معطل ملازمین کی بحالی کے مطالبات لیکر سڑک پر بچوں سمیت مظاہرہ بھی کیا جبکہ موجودہ ایم ڈی نے تین ماہ پہلے ان کی یونین پر بھی پابندی لگادی ہے۔

سلطان شاہ (فرضی نام) 17 سال سے ناٹکو کے ساتھ بحثیت ڈرائیور نوکری کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اُن کی مالی مشکلات بہت بڑھ گئی ہیں، دوستوں، عزیزوں اور دکانداروں میں کوئی نہیں بچا جس سے قرض نہ لے چکے ہوں، اب کچھ نہیں سمجھ آرہا، نہ تو نوکری چھوڑسکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور راستہ اختیار کرسکتے ہیں، حکام ہیں کہ تنخواہ کے لیے تاریخ پہ تاریخ دیے جارہے ہیں۔

محمد جمیل (فرضی نام) ناٹکو کے راولپنڈی آفس میں گزشتہ 14 سال سے بطور مینیجر کام کررہے ہیں۔ انہیں گزشتہ تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ جو تنخوا ہ اُنہیں ملتی ہے، آدھی تو گھر کے کرایہ میں چلی جاتی ہے، اب اُس کیلئے بھی تین ماہ سے انتظار کررہے ہیں۔

اپر ہنزہ سے تعلق رکھنے والے ظفر اقبال 1979 میں ناٹکو میں بطور مینجر تعینات ہوئے تھے اور 2013 میں ناٹکو کے ایم ڈی کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ 2013 میں جب وہ ریٹائرڈ ہورہے تھے تو وہ کمپنی کو ایک ارب بیس کروڑ روپے خالص منافع دے چکے تھے۔ اُن کے آٹھ سالہ دور میں کمپنی فائدے میں تھی اور ادارے پر لوگوں کا اعتماد بحال  تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کام پورا مگر اجرت صرف 10 فیصد: خیبرپختونخوا میں لیڈی ہیلتھ ورکر تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر پر نالاں

"اب ناٹکو کے خسارے، تنخواہوں کی عدم ادائیگی، گاڑیاں جلانے، بحالی پر لاکھوں روپے لگنے، الاؤنسز بند کیے جانے اور اس سب کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سن کر دل دکھتا ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی ناٹکو میں گزاری ہے اور یہ میرے لیے ایک گھر جیسا ادارہ تھا جسے اب برباد کر دیا گیا ہے۔"

انہوں نے مزید بتایا کہ حال ہی میں گلگت بلتستان حکومت نے ناٹکو کو ایک ارب پچاس کروڑ روپے کی گرانٹ دی ہے، جس سے کچھ بسیں خریدی گئیں، مگر اُن نئی بسوں کی بھی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی۔

ڈرائیوروں کونوکری  نکالے جانے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا قانون کے تحت چوری پکڑے جانے پر عارضی طور پر کسی کو معطل کیا جاسکتا ہے مگر میڈیا سے بات کرنے پر نہیں نکالا جاسکتا یہ احکامات انہیں خود ساختہ لگتے ہیں۔

ناٹکو کے موجودہ ایم ڈی کا موقف لینے کیلئے ان سے فون پر تین دن تک مسلسل رابطے کی کوشش کی گئی، پیغامات بھیجے گئے مگر ان کی طرف سے کوئی جواب دینے کی زحمت نہیں کی گئی اور نہ ہی فون اُٹھایا گیا، تاہم ناٹکو کے پبلک ریلیشن آفیسر احسان شاہ نے ان تمام مسائل کے ساتھ اتفاق کیا اور کہا کہ چند روز میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ ہونا ہے جس میں اُمید کی جارہی ہے کہ ان مسائل کا سدباب کیا جا سکے گا۔

تاریخ اشاعت 6 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.