جھل مگسی کم کچھی کم نصیر آباد: انتخابی میدان، کون مارے گا؟ مگسی، رند یا کوئی اور

postImg

عبدالکریم

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

جھل مگسی کم کچھی کم نصیر آباد: انتخابی میدان، کون مارے گا؟ مگسی، رند یا کوئی اور

عبدالکریم

loop

انگریزی میں پڑھیں

عام انتخابات 2024ء کے لیے بلوچستان میں بھی انتخابی سرگرمیاں نظر آنے لگی ہیں۔ کچھی میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع ہوتے ہی انتخابی مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔

کوئٹہ سے 41 کلومیٹر جنوب میں ضلع کچھی (سابقہ بولان) پانچ ہزار 682 مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے۔ یہ درہ بولان اور کول پور ریلوے سٹیشن سے شروع ہوتا ہے اور نیچے وسیع میدانوں میں آکر ختم ہوتا ہے۔

گذشتہ عام انتخابات میں کچھی کو ضلع نصیر آباد اور جھل مگسی سے ملا کر قومی حلقہ بنایا گیا تھا۔ اس حلقے(این اے 260) سے بلوچستان عوامی پارٹی کے موجودہ سربراہ خالد مگسی رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

سردار یارمحمد رند تحریک انصاف کے امیدوار تھے اور وہ دوسرے نمبر پر آئے تھے۔ جبکہ اس حلقے میں 12 ہزار 930 ووٹ مسترد ہوئے تھے۔

نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق ضلع کچھی کی کل آبادی چار لاکھ 42 ہزار 612 ہے۔

الیکشن کمیشن کی ابتدائی رپورٹ بتاتی ہے کہ کم آبادی کے باعث کچھی اور ارد گرد کے پانچ اضلاع میں سے کسی ایک کی بھی قومی اسمبلی کی الگ نشست نہیں بنتی تھی۔ اسی لیے نصیرآباد، جھل مگسی، کچھی، جعفرآباد، اوستہ محمد اور صحبت پور کو ملا کر دو قومی نشستیں این اے 254 اور این اے 255 بنائی گئی ہیں۔

یوں ضلع کچھی کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 254 میں شامل کیا گیا ہے جس کو' جھل مگسی- کم- کچھی- کم- نصیرآباد ' کانام دیا گیا ہے۔

اب اس قومی حلقے میں ضلع کچھی، جھل مگسی اور ضلع نصیر آباد کی تحصیل تمبو، بابا کوٹ اور لندھی کے علاقے شامل ہیں۔


نئی حلقہ بندیاں 2023

2018 کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 260 نصیر آباد کم  کچھی کم جھل مگسی  اب این اے 254 نصیر آباد کم  کچھی کم جھل مگسی  ہے

یہ حلقہ ضلع جھل مگسی، ضلع  کچھی  اور ضلع نصیر آباد پر مشتمل ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت اس حلقے میں ضلع نصیر آباد کی تحصیل ڈیرہ مراد جمالی کو نکال دیا ہے۔

صوبائی حلقہ پی بی 12 کچھی  
یہ نیا حلقہ ضلع کچھی کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ 2023 کی حلقہ بندیوں کے مطابق ضلع کچھی کو نیا حلقہ دے دیا گیا ہے۔ جس کے علاقوں کو پہلے مستونگ اور جھل مگسی کے حلقوں پر تقسیم کیا گیا تھا۔ اب ان کے الگ حلقے بن گئے ہیں۔


یہاں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تین لاکھ 24 ہزار 739 ہے جن میں ایک لاکھ79 ہزار 411 مرد اور ایک لاکھ 45 ہزار328 خواتین ووٹر ہیں۔

آئندہ انتخابات میں اس نشست پر خالدحسین مگسی بی اے پی، یارمحمد رند آزاد، میر ہمایوں کرد آزاد، میر عبدالروف لہڑی ن لیگ، میر سراج عمرانی اور بالو امین عمرانی پیپلز پارٹی اور یاسمین لہڑی نیشنل پارٹی کی امیدوار ہیں۔

ولی محمد زہری بلوچستان کی گرین بیلٹ (کچھی، جھل مگسی، نصیرآباد، اوستہ محمد) کی سیاست کو قریب سے جانتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ قبائلی نظام  اور خوف کے باعث ضلع جھل مگسی کے اکا دکا کے سوا تمام ووٹ بلا تخصیص خالد مگسی کو ملتے ہیں۔ اسی طرح ڈھاڈر، سنی شوران کا ووٹ سردار یار محمد کو پڑتا ہے۔

خالد مگسی کا تعلق نصیر آبادکے علاقے جھل مگسی سے ہے ان کا تعلق نصیر آباد کے سب سے زیادہ اثر رسوخ رکھنے والے مگسی خاندان سے ہے۔ ان کے بڑے بھائی نواب ذوالفقار مگسی مگسی قبیلے کے سردار ہیں اور سابق گورنر بلوچستان بھی رہ چکے ہیں۔

خالد مگسی 2013 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اور 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اس وقت وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی صدر کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

مگسی خاندان کے کئی افراد قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی کا حصہ رہے ہیں اور جھل مگسی اور کچھی پر مشتمل قومی اسمبلی کی نشست مسلسل جیتتے آ رہے ہیں۔

ولی محمد کہتے ہیں کہ اس حلقے میں شامل نصیر آباد کے علاقوں میں میر عبدالغفور لہڑی کا اثر زیادہ ہے۔ خالد مگسی ان سے اتحاد کی کوشش کر رہے ہیں دوسری جانب یار محمد رند ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مقامی قیادت سے انتخابی اتحاد کے حوالے سے مذاکرات کر رہے ہیں۔

سردار یار محمد رند کا تعلق کچھی کے علاقے سنی شوران سے ہے۔وہ رند قبیلے کے سربراہ اور ان کا خاندان کچھی کے بیشتر علاقوں میں مکمل اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ انہوں نے سیاست کا آغاز چيرمین ضلع کونسل کچھی سے کیا۔ 1985ء سے اب تک کئی بار سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا حصہ رہے ہیں۔  2019ء کو تحریک انصاف بلوچستان کے صدر اور رکن صوبائی اسمبلی سردار یار محمد رند کو وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا، بعد میں وہ صوبائی وزیر تعلیم بھی بنے۔

"جھل مگسی میں لاشاری، مگسی اور جاموٹ جبکہ نصیرآباد میں عمرانی، لہڑی، جمالی، رند، جاموٹ اور کھوسہ قبائل کی اکثریت ہے۔ اسی طرح ضلع کچھی میں رند، بنگلزئی، سمالانی، کرد، جاموٹ، کھوسہ، شاہوانی، چھلگری، جتوئی، مغیری اور مستوئی قبائل نمایاں ہیں"۔

ولی محمد سمجھتے ہیں کہ یہاں امیدوار کا زیادہ انحصار اپنے زیر اثر علاقے اور قبیلے کے ووٹوں پر ہوتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں اس قومی نشست پر مقابلہ مگسی اور رند سرداروں کے درمیان رہےگا۔

صوبائی حلقہ پی بی 12

2017ء میں ضلع کچھی کی آبادی تین لاکھ نو ہزار 932 نفوس پر مشتمل تھی۔ پچھلے انتخابات میں کچھی سے متصل ضلع مستونگ کے علاقے دشت کو ملاکر صوبائی حلقہ پی بی17 (کچھی کم مستونگ) بنایا گیا تھا۔

یہاں سے یارمحمد رند پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے اور بی اے پی کے میر عاصم کرد گیلو دوسرے نمبر پر رہے تھے۔

نئی حلقہ بندیوں میں الیکشن کمیش کے فارمولے کے تحت آبادی کے لحاظ سے ضلع کچھی کا صوبائی اسمبلی میں حصہ 1.52 نشست بنتا تھا لیکن یہاں ایک ہی نشست دی گئی ہے اور پورے ضلعے کو صوبائی حلقہ ڈیکلیئر کر دیا گیا ہے۔

پی بی 12 کچھی میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد ایک لاکھ 47 ہزار 474 ہے جن میں 84 ہزار 161 مرد اور 63 ہزار 313 خواتین ووٹر ہیں۔

آئندہ عام انتخابات کے لیے اس نشست پر سردار یارمحمد رند، ن لیگ کے میر عاصم کرد کے علاوہ پیپلز پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، جے یو آئی کے امیدواروں نے انتخابی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔

یارمحمد رند نے مقامی عمائدین کی دعوت پر آزاد امیدوار کے طور پر بھاگ ناڑی سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے۔ ن لیگ کے امیدوار میرعاصم کرد، بی اے پی کے محمد یونس سمالانی اور پیپلز پارٹی کے مولا بخش راہیجہ نے اپنی اپنی انتخابی سرگرمیاں مچھ سے شروع کی ہیں۔

ولی محمد کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ نہ تو پارٹی کے انتخابی منشور کو اور نہ ہی پارٹی کو اہمیت دیتے ہیں۔اس لیے عام آدمی انتخابی عمل سے لاتعلق رہتا ہے اور ان علاقوں میں ہیمشہ ٹرن آوٹ کم رہتا ہے۔

سماجی کارکن عمران سمالانی بتاتے ہیں کہ یارمحمد رند پچھلا چناؤ تحریک انصاف کے نشان پر لڑے تھے لیکن اب آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح میرعاصم کرد پچھلی بار بی اے پی کے امیدوار تھے مگر اب شیر کے نشان پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔

"یہاں ووٹ سردار یا میر کی حیثت اور ڈنڈے کی بنیاد پر پڑتے ہیں۔ کوئی قبائلی شخصیت جتنی طاقتور ہے اتنا ہی اس کی جیت کے امکانات ہوتے ہیں۔ سردار یار محمد اور میر عاصم کرد جس پارٹی میں ہوں، عام لوگ بھی اسی پارٹی میں ہوں گے۔"

وہ کہتے ہیں کہ اس علاقے میں نیشنل پارٹی، جے یو آئی اور ان کے امیدوار کسی حد متحرک ہیں۔ڈھاڈر اور مچھ میں دونوں کا ووٹ بینک بھی ہے لیکن اتنا نہیں کہ پورے حلقے کے نتائج پر اثرانداز ہو سکے۔

عمران سمالانی سمجھتے ہیں کہ اس صوبائی نشست پر میر عاصم کرد کے مقابلے میں یار محمد رند کو اس بات کی برتری ہے کہ ان کے صاحبزادے سرادر بیبرگ رند، ضلع کچھی کے ڈسٹرکٹ چئیرمین ہیں اور علاقے میں خاصے متحرک ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

میانوالی کے دو سابق ارکان قومی اسمبلی جیل میں ہیں، متبادل امیدواروں اور روایتی سیاسی خاندانوں میں مقابلے

جمیل احمد کچھی کے علاقے درخان ڈھاڈر کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں چند لوگ ہی امیدوار کی کارکردگی کو دیکھتے ہیں ورنہ بیشتر اپنے قبیلے کی روایات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لیے ووٹ بھی پارٹی یا نظریات پر نہیں بلکہ ذاتی تعلق کی بنیاد پر ڈالتے ہیں۔

تاہم ڈھاڈر ہی کے رہائشی ڈاکٹر طاہر مستوئی کی رائے ان سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو نمائندہ علاقے اور لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے وہی ووٹ لیتا ہے۔

ضلع کچھی پانچ تحصیلوں ڈھاڈر ، مچھ ،بھاگ ، بالا ناڑی اور سنی پر مشتمل ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر 'ڈھاڈر' ریاست قلات کا سرمائی دارالخلافہ ہوا کرتا تھا۔ مگر ان تمام علاقوں میں بکھری ہوئی آبادی کو بے شمارمشکلات درپیش ہیں اور لوگوں کی اکثریت بنیادی سہولیات تک سے محروم ہے۔

پینے کے پانی کی عدم دستیابی، زرعی زمینوں کے لیے پانی کی قلت، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، بیروزگاری، سیلاب سے تباہ شدہ املاک کی عدم بحالی اور مارگٹ کول مائنز کی بندش اس علاقے کے بڑے مسائل ہیں۔

بقول عمران سمالانی کچھی کے عام لوگوں میں مایوسی دکھائی دیتی ہے۔ بیشتر لوگ، خاص طور پر یہاں کے پڑھے لکھے نوجوان کہتے ہیں کہ الیکشن یہاں کے سرداروں اور میروں کے 'سٹیٹس' کا مسئلہ ہے۔ ان کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔

تاریخ اشاعت 11 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عبدالکریم کا تعلق کوئٹہ سے ہے وہ ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے ۔ انہوں نے جامعہ بلوچستان سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کیا ہوا ہے ۔ گزشتہ آٹھ سال سے صحافت سے وابستہ ہے۔

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.