محمد مشتاق سکول ٹیچر ہیں اور وہ نارووال شہر کی ہجویر کالونی میں رہتے ہیں۔ پچھلے دو سال سے وہ اور ان کے اہلخانہ انتہائی ضرورت کے وقت ہی اپنے گھر سے نکلتے ہیں۔ ان لوگوں کو مختلف بیماریوں نے ذہنی کوفت میں مبتلا کر رکھا ہے اور مشتاق کی تنخواہ کا زیادہ تر حصہ اپنے گھرانے کے علاج معالجے پر خرچ ہو جاتا ہے۔
اس خاندان کو لاحق بیماریوں اور ان کی محدود نقل و حرکت کی وجہ گلی میں کھڑا سیوریج کا گندا پانی ہے۔
انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ چرچ روڈ کی مین سیوریج پائپ لائن دو سال سے بند ہے جس کی وجہ سے گھروں کا گندا پانی سڑکوں اور گلیوں میں جمع رہتا ہے۔
"نکاس نہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں اور گلیاں ایک سے دو فٹ پانی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ میں اور میرے بچے روزانہ گندے پانی سے گزر کر تعلیمی اداروں کو جاتے اور آتے ہیں"۔
نارووال شہر کی مرکزی سیوریج پائپ لائن مکمل طور پر بند ہونے سے محلہ خواجگان، چن پیر روڈ، محلہ لوہاراں، ابوبکر پورہ، گرلز کالج روڈ، ظفروال روڈ، ایم بی گرلز ہائی سکول روڈ اور محلہ رسول پورہ سمیت دیگر علاقے گندے پانی میں ڈوبے رہتے ہیں۔
کلثوم بی بی بھی ہجویر کالونی میں رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر کے سامنے گندا پانی جمع رہنے کی وجہ سے عزیزوں رشتہ داروں نے ان کے گھر آنا چھوڑ دیا ہے۔
"گندے بدبودار پانی کی وجہ سے ہم لوگ رات کو سو نہیں سکتے کیونکہ اس پانی میں پلنے والے زہریلے کیڑے مکوڑے اور سانپ ہمارے گھروں میں گھس آتے ہیں۔ ہمیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کوئی سانپ یا زہریلا کیڑا نہ کاٹ لے"۔
آسیہ بی بی اور حفیظاں بی بی بھی کلثوم کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئیں ہیں۔
نارووال میں 1987 میں بننے والا سیوریج سسٹم 15 سال بعد ناکارہ ہو گیا تھا
حاجی محمد ابراہیم ستر سال کے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے مسجد تک جانا بھی مشکل ہے۔
"ہم جنازے بھی گندے پانی سے گزار کر لے جاتے ہیں"۔
انہوں نے بتایا کہ وہ میونسپل کمیٹی اور ضلعی انتظامیہ کو گندے پانی کے اخراج کے لیے کئی بار درخواستیں دے چکے ہیں مگر کوئی نہیں سنتا۔
نارووال شہر میں پہلی مرتبہ زیر زمین سیوریج پائپ لائن 1987ء میں بچھائی گئی تھی۔ اس لائن کا قطر 18 انچ تھا۔ آبادی بڑھنے اور صفائی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے نکاسیء آب کا یہ نظام 15 سال بعد مکمل طور پر بیٹھ گیا اور شہر کی سڑکیں اور گلیاں گندے پانی کی نہریں بن گئیں۔
2005 ء میں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن نے اس مصیبت کا حل یہ نکالا کہ شہر کی سڑکوں کے اطراف میں گندے پانی کی نکاسی کے لیے نالے تعمیر کروا دیے۔ یہ "نظام" 2014 ء تک چلتا رہا لیکن آہستہ آہستہ یہ بھی ناکام ہو گیا اور شہر کی سڑکیں اور گلیاں ایک مرتبہ پھر گندے پانی میں ڈوب گئیں۔
2017 میں اُس وقت کے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے مسئلہ حل کرنے کے لیے 18 کروڑ روپے سے گندے پانی کے نکاس کے لیے سیوریج پائپ لائن کا میگا پراجیکٹ شروع کروایا۔
اس منصوبے کے تحت 72 انچ قطر کی پائپ لائن شہر کے وسط میں چن پیر روڈ سے شروع ہو کر محلہ لوہاراں، فاروق گنج، طلحہ چوک، مین چرچ روڈ، ڈی پی او ہاؤس اور پلاٹ رائب سے ہوتی ہوئی دفاعی بند نالے کوٹلی پلاٹ تک بچھائی جانا تھی۔
اس پائپ لائن کی لمبائی 4.5 کلومیٹر تھی اور یہ منصوبہ 31 دسمبر 2019ء تک مکمل ہونا تھا۔
نئے سیوریج سسٹم کا منصوبہ چھ سال گزرنے کے بعد بھی مکمل نہیں ہو پا رہا
محکمہ پبلک ہیلتھ کے ریکارڈ کے مطابق2017 ء میں ہی اس منصوبے پر بڑی تیزی سے کام شروع ہو گیا۔ 2018ء کے عام انتخابات کے دوران یہ کام بند رہا۔ انتخابات کے بعد منصوبے پر دوبارہ کام شروع ہوا لیکن 2019 میں تحریک انصاف کی حکومت نے اس پر کام روک دیا۔
2022 کے اوائل میں جب پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے اس مںصوبے کے لیے فنڈ جاری کر دیے۔
ایس ڈی او پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ برگزیدہ بٹ نے سجاگ کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی چار ماہ کی حکومت ختم ہوتے ہی پرویز الٰہی دور میں پائپ لائن منصوبے پر کام ایک مرتبہ پھر بند کر دیا گیا۔
پنجاب میں نگران حکومت آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر سیوریج پائپ لائن منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا تاہم 20 روز قبل ایک بار پھر اس پر کام روک دیا گیا ہے۔
اس مرتبہ بھی کام روکنے کی وجہ فنڈ کی عدم دستیابی بتائی گئی ہے۔
نارووال کے ڈپٹی کمشنر محمد اشرف نے سجاگ کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے پنجاب حکومت سے فنڈ لینے کی کوشش کر رہی ہے اور جیسے ہی فنڈ آئیں گے منصوبے پر کام دوبارہ شروع کروا دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں
وسطی پنجاب کے گاؤں سودھرا میں زیرِ زمیں پانی کی تباہی: 'صنعتی فضلہ ملا پانی پینے سے ہر کوئی بیمار ہو رہا ہے'۔
برگزیدہ بٹ نے بتایا کہ اس منصوبے پر اب تک تقریباً 26 کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
"بار بار کام بند ہو جانے اور مہنگائی کی وجہ سے منصوبے کی لاگت بڑھ چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب یہ منصوبہ 43 کروڑ روپے سے مکمل ہو گا"۔
یہ ابتدائی تخمینے کے مقابلے میں دو گنا بڑی رقم سے بھی سات کروڑ روپے زیادہ ہے۔
میونسپل کمیٹی کے چیف آفیسر محمد ریحان سلیم نے سجاگ کو بتایا کہ پرانی سیوریج پائپ لائن مکمل طور پر بند ہے اور اس کی بحالی ممکن نہیں ہے۔
"موجودہ حالات میں ہم متاثرہ علاقوں سے روزانہ دو مرتبہ پیٹر انجن کی مدد سے گندا پانی نکال رہے ہیں لیکن سیوریج پائپ لائن منصوبہ ہی شہریوں کے مسائل کا حل ہے۔''
اس منصوبے کے ٹھیکیدار شاہد امتیاز کہتے ہیں کہ منصوبہ مکمل نہ ہونے میں ان کا کوئی قصور نہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بار بار فنڈز روک دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس پر کام بھی رک جاتا ہے۔
تاریخ اشاعت 30 مارچ 2023