نارنگ منڈی میں آپ جس راستے سے داخل ہوں تو آپ کو دیو ہیکل سائن بورڈ دیکھنے کو ملیں گے جن میں اکثر پر نجی تعلیمی اداروں کی اشتہاری مہم چلائی جا رہی ہے۔ ان بورڈز پر میٹرک یا انٹر میں اچھے نمبر لینے والے طلبا و طالبات کی بڑی بڑی تصاویر نظر آتی ہیں اس دعوے کے ساتھ کہ یہ ادارہ نہ صرف علاقے بلکہ صوبے بھر کامیاب ترین تعلیمی ادارہ ہے۔
تصاویر پر درج بچوں کے نمبر تو "حقیقی" ہیں مگر ان نتائج پر بہت سے سوال ہیں۔
نارنگ منڈی ضلع شیخوپورہ کا ایک بڑا قصبہ ہے۔ جو لاہور سے 76 کلومیٹر دور ہے۔ بھارتی بارڈر اس سے محض آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ قصبہ عام طور پر رائس ملوں اور چاول کی منڈی کی وجہ سے پاکستان بھر میں مشہور ہے لیکن پچھلے ایک سال سے یہ امتحانی مراکز میں نقل کی وجہ سے بہت بدنام ہوا ہے۔
زہرا فاطمہ نے حال ہی میں شیخوپورہ کے قصبے نارنگ منڈی میں نویں جماعت کا امتحان دیا ہے۔ وہ الزام عائد کرتی ہیں کہ جس امتحانی مرکز میں انھوں نے پرچے دیے، وہاں کھلے عام نقل کرائی گئی۔ کچھ اساتذہ نے مخصوص طالبات کو کتابیں اور نوٹس فراہم کیے تاکہ وہ ان کی مدد سے پرچے حل کر سکیں۔
"بعض طالبات کو الگ کمرے میں بٹھا کر سجبیکٹ سپیشلسٹ کی مدد فراہم کی گئی تھی۔"
ایک اور طالبہ ایمان فاطمہ بھی یہی شکایت کرتی ہیں۔
انہوں نے گورنمنٹ ایسوسی ایٹ ڈگری کالج برائے خواتین میں بنائے گئے امتحانی سینٹر پر دسویں جماعت کا امتحان دیا ہے۔
سابق سرکاری استاد نثار احمد مغل جن کا تعلق قصبہ نارنگ منڈی سے ہے ان کے بقول صرف رواں سال ہی نہیں بلکہ پچھلے کچھ سالوں سے بورڈ کے امتحانات خاص کر میٹرک میں اس طرح کے واقعات تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں۔
وہ پچھلے سال کی مثال دیتے ہیں کہ 2023ء کے میٹرک کے سالانہ امتحانات میں نارنگ منڈی کے گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج فار بوائز میں تو پرچے باہر سے حل کرکے اندر جاتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کافی شور ہوا، لوگوں نے احتجاج بھی کیا اور معاملہ لاہور بورڈ کے کنٹرولر کے نوٹس میں لایا گیا لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
نارنگ منڈی کے ایک نجی تعلیمی ادارے کے پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر لوک سجاگ کو بتایا کہ اس سال لڑکیوں کے اس امتحانی مرکز پر مرد اساتذہ کو نگران مقرر کیا گیا تھا حالانکہ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا ہے۔
نارنگ منڈی میں ہی 2023ء کے میٹرک کے امتحان میں گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج فار بوائز میں وٹس ایپ کے ذریعے پرچہ حل کرنے کی ایک وڈیو وائرل ہوئی تو اس پر مزکورہ طالب علم بختاور اور اس کے والد محمد اشفاق پر ہی پرچہ درج کرا دیا گیا۔
بختاور اور اس کے والد نے میڈیا کے سامنے نگرانوں کو فی پرچہ 10 ہزار روپے دینے کا اعتراف بھی کیا۔
نثار احمد کہتے ہیں کہ رواں سال بھی میٹرک کے امتحانات میں کچھ ایسا ہی چلتا رہا۔
نارنگ منڈی کے بعض سرکاری اور نجی سکولوں کے اساتذہ بھی اس کی تصدیق کرتےہوئے بتاتے ہیں کہ گورنمنٹ ہائی سکول رفیق آباد میں یکم اپریل 2024ء کو نہم کلاس کے ریاضی کے پرچے کی جوابی شیٹ امتحانی سنٹر سے باہر آئی۔ اسی امتحانی سنٹر میں گورنمنٹ ڈگری کالج کے اہلکار کے بیٹے ہارون کی جگہ پر کسی دوسرے بچے نے پرچہ دیا جس کے وڈیو ثبوت بھی ہیں۔
عبدالمجید سرکاری سکول میں استاد ہیں وہ کہتے ہیں کہ رواں سال جب دسویں کلاس کا پہلا پرچہ تھا تو ان کی ڈیوٹی گورنمنٹ ہائی سکول میں لگائی گئی تھی۔
" میرے سوا وہاں کا سارا عملہ پرائیویٹ تھا۔ میں نے اعتراض کیا تو مجھے سینٹر سے ہٹا دیا گیا اور باقی تمام پرچوں میں میری جگہ پر کسی پرائیویٹ شخص نے ڈیوٹی دی۔"
ان کا کہنا ہے کہ ہر پرچے میں عملہ تبدیل کر لیا جاتا تھا۔
"جس مضمون کا پرچہ ہوتا، اسی سبجیکٹ کے سپیشلسٹ سے ڈیوٹی کروائی جاتی جو مخصوص طلباء کو نقل کروایا کرتے تھے۔"
سماجی شخصیت اور قانون دان مرزا عبدالباسط اس سارے واقعے کے ثبوت حاصل کیے اور چیئرمین لاہور بورڈ کو وٹس اپ کیے جن میں "موبائل کے ذریعے نقل کرنے کے" سکرین شارٹ اور دیگر ثبوت موجود تھے۔
2024ء کے سالانہ میٹرک کے امتحانات میں بعض واقعات میں کارروائیاں بھی ہوئی ہیں جیسا کہ گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج فار گرلز سینٹر پر ایک نجی کالج کی طالبہ کو علیحدہ کمرے میں بٹھا کر پرچہ حل کرانے کے واقعے پر لاہور بورڈ کے کنٹرولر محمد زاہد میاں نے اس سینٹر کا سارا عملہ معطل کر دیا تھا۔
اسی طرح گورنمنٹ ہائی سکول نارنگ میں نجی کالج کے طالب علم کا کیس سامنے آیا جسے علیحدہ کمرے میں بٹھایا گیا تھا اور پرائیویٹ افراد اس کا پیپر کروا رہے تھے۔ کنٹرول لاہور بورڈ نے سنٹر کاسارا عملہ معطل کر دیا۔
رواں سال مارچ کے آخری ہفتے میں میڈیا پر کچھ ایسی خبریں گردش کرتی رہی کہ میٹرک امتحانات میں نقل کے خلاف پنجاب کے وزیر تعلیم نے سخت ایکشن لیا ہے۔
اکتیس مارچ کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات نے میٹرک امتحانی سینٹرز پر چھاپے مارے اور چیئرمین لاہور بورڈ کو معطل اور کنٹرولر امتحانات کو عہدے سے ہٹا دیا۔
نارنگ منڈی میں ایک نجی سکول چلانے والے عامر مغل کہتے ہیں کہ چند پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے سپرنٹنڈنٹ، نگران، بورڈ عملے سمیت سبجیکٹ سپیشلسٹ خرید رکھے ہیں۔ ان کے پرائیویٹ نگران نہ صرف نقل کرواتے ہیں بلکہ لاہور بورڈ کے عملے کی ملی بھگت سے اپنے طلباء و طالبات کے اضافی نمبر بھی لگواتے ہیں۔
سرکاری ٹیچر نثار احمد مغل الزام عائد کرتے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان تعلیم کا نظام بہتر کرنے کی بجائے ہر سال امتحان اور رزلٹ خرید لیتے ہیں جس سے ان کے اداروں کا رزلٹ اچھا آتا ہے اور پھر اسی رزلٹ کی بنیادپر وہ والدین کو قائل کرتے ہیں کہ ان کے بچے سرکاری سکولوں کی بجائے ان کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں گے۔
ان کے بقول ضلع شیخوپورہ سمیت پورے صوبے کے سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طلباء کی تعداد میں حیران کن کمی آرہی ہے۔ والدین اچھے رزلٹ کے لالچ میں سرکاری سکولوں کی بجائے نجی تعلیمی اداروں میں بچوں کو پڑھانے میں ترجیح دیتے ہیں۔
تین دہائیوں سے علم و تدریس کے شعبے سے وابستہ اور پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر طاہر محمود شیخ بھی نثار احمد کی تائید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں کے سائن بورڈ کا مقصد نمود و نمائش کے سوا کچھ نہیں۔
"ایسے نجی تعلیمی اداروں کا مقصد زیادہ طلبہ کو گھیرنا اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے۔اپنے سکولوں کے بچوں کو زیادہ نمبر دلانے کے لیے وہ ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نجی تعلیمی ادارے ارقم کالج کے ڈائریکٹر عبدالمنان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوالیفائیڈ اساتذہ ہیں جو مختلف بڑے تعلمی اداروں میں کام کرنے کا 10 سے 15 سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔یہ تمام سبجیکٹ سپیشلسٹ ہیں۔
"ہم کوالٹی آف ایجوکیشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ اس وجہ سے ہر سال ہمارے بچے ٹاپ پوزیشنیں لیتے ہیں۔"
لوگ سجاگ سے بات کرتے ہوئے عبدالمنان نے امتحانی سینٹر میں نقل کراونے کے الزام کو بھی رد کر دیا۔
زاہد عمران آل پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن نارنگ کے صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مافیا کی وجہ سے میٹرک اور ایف اے کا سالانہ امتحان مذاق بن کر رہ گیا ہے سارا سال محنت کرنے طلباء پیچھے رہ جاتے ہیں اور نقل کرنے والے بچے آگے نکل جاتے ہیں۔
نقل کے معاملے میں سرکاری تعلیمی اداروں کا حال بھی بہتر نہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟
ایک سرکاری استاد نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایاکہ گزشتہ سال کامرس کے امتحان میں پورا پیپر حل کرکے 38 فوٹو کاپیاں کروائی گئیں اور امتحان دینے والے 38 طلباء میں تقسیم کی گئیں ان 38 طلباء نے ان فوٹو کاپیوں سے دیکھ کر پورا پیپر حل کیا۔
پنجاب حکومت کی جانب سے امتحانی عمل کو شفاف بنانے اور بوٹی مافیاکے خاتمے کے لیے 31 مارچ کو محکمہ مال کو ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر اور محکمہ مال کے افسران نے مارچ میں ہونے والے مختلف امتحانی سینٹروں میں امتحانی عمل کی کڑی نگرانی کی۔
تین اپریل 2024 کو پنجاب کالج آف کامرس مرید کے میں نہم کلاس کے امتحان میں سپرنٹنڈنٹ شہزاد اور پرائیویٹ نگران محمد یوسف کی جانب سے پیسے لے کر نقل کروانے کی شکایت ملنے پر اسسٹنٹ کمشنر شوکت مسیح نے دونوں اہلکاروں کو معطل کر دیا۔
صوبائی وزیر تعلیم راناسکندر حیات نے لوک سجاگ کو بتایا کہ میٹرک کے امتحان میں مختلف امتحانی سنٹرز پر بوٹی مافیا کے ملوث ہونے کے ثبوت ملنے کے بعد پنجاب بھر میں سختی کر دی گئی ہے۔ بوٹی مافیاکے خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے اور محنتی طلباء کا مستقبل کسی صورت بھی تباہ نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ امتحانی سینٹرز میں پرائیویٹ عملہ کی تعیناتی کی شکایات کو دور کر دیا گیا ہے۔ امتحان اور سینٹرز کی نگرانی کے لیے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے آفیسرز کو تعینات کیا گیا ہے۔
"ایس ایچ او اور ایس پیز سمیت پنجاب پولیس کے اعلی افسران کو بھی اختیارات دے دیے گئے ہیں وہ کسی بھی امتحانی سینٹر کو چیک کرسکتے ہیں۔"
صوبائی حکومت نے میٹرک کے بعد 24 اپریل 2024 سے شروع ہونے والے ایف اے، ایف ایس سی اور آئی سی ایس کے امتحانات میں نارنگ منڈی کے تمام امتحانی سینٹروں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگوا دیے ہیں جن کو براہ راست لاہور بورڈ اور ڈپٹی کمشنر آفس شیخوپورہ سے مانیٹر کیا جا رہا ہے۔
امتحانی عملہ نارنگ منڈی سے باہر سے منگوایا گیا ہے اور محکمہ پولیس اور اسسٹنٹ کمشنر سمیت محکمہ مال کا عملہ امتحانی سینٹروں پر ڈیوٹی دے رہا ہے-
تاریخ اشاعت 30 اپریل 2024