شیخوپورہ: پولیس نارنگ منڈی میں جرائم کیوں نہیں روک پا رہی وجہ وسائل کی کمی یا کچھ اور؟

postImg

معظم نواز

postImg

شیخوپورہ: پولیس نارنگ منڈی میں جرائم کیوں نہیں روک پا رہی وجہ وسائل کی کمی یا کچھ اور؟

معظم نواز

محمد اکرم نارنگ منڈی کے محلہ رحمان پارک کے رہائشی ہیں جو  صدر بازار میں چائے کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ 30 نومبر 2022ء کو اہل خانہ کے ساتھ نارووال گئے ہوئے تھے۔ اگلے روز جب واپس لوٹے تو گھر کے تالے الماریاں ٹوٹی پڑی تھیں اور تقریباً 85 لاکھ روپے کا سامان و نقدی غائب تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کی بہن کی شادی طے تھی لیکن وہ ایک ہفتہ قبل انتقال کر گئیں جن کے جہیز کے لیے رکھی رقم 15 لاکھ روپے اور 15 تولے زیورات کے علاوہ 35 لاکھ روپے کے پرائز بانڈ چور لے جا چکے تھے۔

"میں 15 ماہ سے تھانے اور ڈی پی او آفس کے چکر لگا کر تھک گیا ہوں مگر برآمدگی تو دور ابھی تک پولیس ملزمان کو ہی تلاش نہیں کر پائی۔"

ضلع شیخوپورہ کے تھانہ نارنگ منڈی کے علاقے میں لگ بھگ 148 دیہات آتے ہیں جہاں تین پولیس چوکیاں بھی قائم کی گئی ہیں جن میں مہتہ سوجا، جنڈیالہ کلساں اور چک بھلہ شامل ہیں۔ اس کے باوجود یہاں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے۔

پولیس ریکارڈ بتاتا ہے کہ تھانہ نارنگ میں پچھلے تین ماہ میں 583 مقدمات درج ہوئے ہیں جن میں چوری اور ڈکیتی کے تقریباً 275 مقدمات شامل ہیں  جبکہ 177 کیسز روزمرہ کے چھوٹے موٹے واقعات پر درج کیے گئے۔

مقدمات کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ اس دوران 50 سے زائد موٹرسائیکل، 80 تولہ زیور اور 50 لاکھ روپے سے زائد کا دھان چوری ہوا جبکہ مختلف وارداتوں میں کروڑوں روپے نقدی لوٹ لی گئی۔ محتاط اندازے کے مطابق ان چار ماہ میں شہریوں کو تقریباً پانچ کروڑ روپے کے مال و اسباب سے محروم کیا جا چکا ہے۔

بھارت کی سرحد سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس تھانے کے پاس گشت کے لیے دو گاڑیاں ہیں جبکہ یہاں ایس ایچ او، ایک محرر، دو سب انسپکٹر، چار اے ایس آئی اور آٹھ کانسٹیبلوں سمیت 12 اہلکاروں پر مشتمل عملہ تعینات ہے، نو کانسٹیبل تین پولیس چوکیوں پر ڈیوتی دیتے ہیں۔

اعداد  و شمار سے متعلق قابل بھروسا سمجھی جانے والی ویب سائٹ (statista) کے مطابق 2023ء میں لندن میٹروپولیٹن کی آبادی 14.37 ملین تھی جبکہ میٹروپولیٹن پولیس افسروں کی تعداد 34 ہزار 889 تھی یعنی لگ بھگ 412 افراد پر ایک پولیس افسر بنتا ہے۔

تھانہ نارنگ کے علاقے کی آبادی لگ بھگ دو لاکھ 60 ہزار ہے۔اس حساب سے دیکھا جائے تو 43 ہزار 333 افرد کے لیے ایک تفتیشی اور 12 ہزار 381 شہریوں کے لیے صرف ایک پولیس کانسٹبیل موجود ہے۔

ایک ہفتہ قبل اس تھانے سے 300 میٹر کے فاصلے پر ڈاکوؤں نے بینک سے رقم نکلوا کر جانے والے تاجر منیر راٹھور سے پانچ لاکھ روپے چھین لیے تھے۔ منیر بتاتے ہیں کہ متعدد بار ہیلپ لائن 15 پر کال کرنے کے باوجود پولیس ایک گھنٹہ 13 منٹ بعد پہنچی اور اس کے لیے بھی تاجروں کو سڑک پر احتجاج کرنا پڑا۔

اس سلسلے میں تھانہ نارنگ کے محرر اعجاز احمد یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ پولیس کے پاس وسائل اور عملے کی قلت ہے جس کی وجہ سے جائے وقوع پر پہنچنے میں وقت لگ جاتا ہے۔

یہاں تعینات اسسٹنٹ سب انسپکٹر ارشاد احمد کا کہنا ہے  کہ انہیں ایک پولیس موبائل کے لیے روزانہ صرف پانچ لٹر فیول (پٹرول یا ڈیزل)دیا جاتا ہے جبکہ تھانے کا علاقہ کافی وسیع ہے جس کے لیے یہ ایندھن انتہائی کم ہے۔ وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ افسران، عدالت اور مدعی کا دباؤ الگ ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ نارنگ منڈی کا زیادہ تر حصہ پاک بھارت بارڈر کے قریب ہے جہاں راستے مشکل ہیں اور گاڑی کی سپیڈ انتہائی کم رکھنا پڑتی ہے۔ سرحدی دیہات میں کوئی واردات ہو جائے تو وہاں پہنچنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔

مقامی صحافی شاہد یوسف یہ جواز تسلیم نہیں کرتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ ماہ حکومت نے تھانہ نارنگ کی عمارت کی آرائش پر کم و بیش 30 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔ جب عمارت پر اتنی رقم لگائی ہے تو یہاں تربیت یافتہ عملہ اور وسائل بھی مہیا کیے جا سکتے ہیں۔

انجمن تاجران کے جنرل سیکرٹری سیٹھ شاہد محمود بتاتے ہیں کہ نارنگ سے شیخوپورہ کوسوں دور ہے جہاں ڈی پی او آفس پہنچنا یہاں کے سائلین کے لیےآسان نہیں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے مقدمات کی پیروی ہی نہیں کر پاتے۔

" اگر ڈسٹرکٹ پولیس افسر ہر ماہ ایک دو دن نارنگ کو دے دیں یا یہاں کھلی کچہری لگا لیں تو جرائم میں کمی ہو سکتی ہے اور سائلین کی داد رسی بھی ہو جائے گی"۔

شاہد یوسف کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں مختلف خاندانوں کی آپسی دشمنیوں کے باعث لوگوں کے پاس اسلحہ ہے۔ معمولی تلخ کلامی پر بھی فائرنگ ہو جاتی ہے۔ اسلحے کو کنٹرول کرنے سے بھی امن وامان کی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔

سابق جنرل سیکرٹری فیروزوالہ بار اورنگزیب ریحان سمجھتے ہیں کہ پولیس مقامی سیاست کاروں کے ہاتھوں استعمال ہوتی ہے جس کی وجہ سے چوری ڈکیتی و دیگر جرائم بڑھ رہے ہیں۔

تاہم تھانہ نارنگ کے سب انسپکٹر ملک اقبال جرائم میں اضافے کی وجہ لوگوں کے رویے کو قرار دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پولیس ملزم کو پکڑ کر مسروقہ مال برآمد کرتی ہے اور جب مدعی کو مال واپس مل جا تا ہے تو وہ گھر بیٹھ جاتا ہے جس کا جرائم پیشہ لوگوں کو براہ راست فائدہ ہوتا ہے۔

" مدعی کی عدم پیروی کی وجہ سے عدالت ملزم کو ضمانت دے دیتی ہے اور وہ دوبارہ سرگرم ہو جاتا ہے۔ اگر مدعی کیس کی پیروی کرے اور ملزم کو عدالت سے سزا دلوائی دی جائے تو جرائم کی شرح کم ہوسکتی ہے"۔

قانون دان مرزا عبدالباسط کا خیال ہے کہ اگر نارنگ میں دو تھانے بنا دیے جائیں اور علاقے کے داخلی و خارجی راستوں پر 24 گھنٹے پولیس موجود ہو تو امن و امان کے مسائل میں کمی ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

فیصل آباد میں چھ سال کے دوران پولیس مقابلوں میں 400 فیصد اور جرائم کی شرح میں 600 فیصد اضافہ

ایس ایچ اوتھانہ نارنگ انسپکٹر رانااعظم تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے تھانے میں آٹھ کانسٹیبل اور چار تفتیشی ہیں جبکہ دیگر نو کانسٹیبلز کو چوکیوں میں تعینات کیا گیا ہے۔

" کوئی سپیشل ٹاسک ہو تو پولیس لائنز سے نفری منگوا لی جاتی ہے۔ تاہم فی الحال ہمارے چار تفتیشی سارے نارنگ کو دیکھ رہے ہیں اور مقدمات کے بوجھ کے باوجود بہتر کام کر رہے ہیں۔"

ڈی پی او شیخوپورہ نواز خاں کا کہنا ہے کہ 40 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل اس ضلعے میں تین ہزار کے قریب پولیس اہلکار تھانوں میں تعنینات ہیں۔ کچھ نفری پولیس لائنز میں ریزو ہے اور کچھ سپیشل ڈیوٹی، سکواڈ و دیگر جگہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ضلعے میں مزید 600 اہلکار بھرتی کیے جا رہے ہیں جنہیں مختلف تھانوں میں تعینات کیا جائے گا۔ تھانوں کو نئی موبائل گاڑٰیاں بھی فراہم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پچھلے برسوں کی نسبت رواں سال شیخوپورہ پولیس کی کارکردگی میں 20 فیصد بہتری آئی ہے۔ اسلحہ کی نمائش اور منشیات فروشوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے جس سے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید بہتری آئے گی۔

لیکن پولیس کے اپنے اعدادو شمار ڈی پی او کے دعوے کی تردید کرتے ہیں۔
پولیس کے فرنٹ ڈیسک ذرائع کے مطابق گزشتہ چار ماہ کے دوران تھانہ نارنگ منڈی میں سب سے زیادہ وارداتیں چوری اور ڈکیتی کی رپورٹ ہوئی ہیں جن کے بعد فائرنگ اور لڑائی جھگڑوں و دیگر واقعات کا نمبر آتا ہے۔

تاریخ اشاعت 10 فروری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نارنگ منڈی سے تعلق رکھنے والے معظم نواز مختلف پرنٹ, ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سندھ میں ڈھائی لاکھ غریب خاندانوں کے لیے مفت سولر کٹس

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

سولر کچرے کی تلفی: نیا ماحولیاتی مسئلہ یا نئے کاروبار کا سنہری موقع؟

arrow

مزید پڑھیں

لائبہ علی
thumb
سٹوری

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی سولر توانائی غریب اور امیر کے فرق کو مزید بڑھا رہی ہے

arrow

مزید پڑھیں

فرقان علی
thumb
سٹوری

پرانی پٹرول گاڑیوں کی الیکٹرک پر منتقلی: کیا ریٹروفٹنگ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں تبدیلی کو ٹاپ گیئر میں ڈال دے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفرحین العاص

دن ہو یا رات شاہ عبدالطیف کا کلام گاتے رہتے ہیں

thumb
سٹوری

انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلوں کا برا حال آخر نوجوان انجنیئر کیوں نہیں بننا چاہتے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.