کروڑوں مالیت کی واٹر سپلائی ننکانہ صاحب کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی نہ دے سکی

postImg

صداقت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کروڑوں مالیت کی واٹر سپلائی ننکانہ صاحب کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی نہ دے سکی

صداقت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

ننکانہ صاحب کو ضلعے کا درجہ ملے اٹھارہ سال گزر گئے ہیں لیکن اب تک یہاں کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی مہیا نہیں کیا جا سکا۔ 14 سال پہلے شہر میں صاف پانی پہنچانے کے لیے واٹر سپلائی بچھائی گئی تھی لیکن اس سے آلودہ پانی آتا ہے۔ شہریوں کے پاس نہ تو صاف پانی کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ ہے اور نہ ہی کوئی ان کا یہ مسئلہ حل کرانے میں دلچسپی لے رہا ہے۔

شہر میں واٹر سپلائی بچھانے کا منصوبہ 2010 میں شروع ہوا تھا جس پر 23 کروڑ روپے لاگت آئی۔ اس منصوبے کے تحت اپر گوگیرہ نہر سے ننکانہ صاحب تک واٹر سپلائی پائپ لائن بچھائی گئی اور یہ کام 2012 میں مکمل ہوا۔

اس کے بعد محکمہ پبلک ہیلتھ کی جانب سے واٹر سپلائی کے امور میونسپل کمیٹی ننکانہ صاحب کے حوالے کرنے کے لیے لیٹر لکھا گیا تاہم کمیٹی نے یہ کہہ کر ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا کہ اس کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں۔

دونوں محکموں کے اس تنازعے میں آٹھ سال گزر گئے اور بالآخر 2020 میں میونسپل کمیٹی نے واٹر سپلائی کا چارج لے لیا۔

ذمہ داریاں ملنے کے بعد جب کمیٹی نے صاف پانی کے معیار کو چیک کرنے کے لیے نظام کو چالو کیا تو لائنوں سے سیوریج ملا آلودہ پانی آیا جس کے بعد اسے بند کر دیا گیا اور ابھی تک دوبارہ چالو نہیں کیا گیا۔

کینیڈا کالونی کے جعفر حسین اس منصوبے کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھیکے دار کی مبینہ غفلت اور محکمہ پبلک ہیلتھ کے اہلکاروں کی نااہلی یا لاپروائی کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آبادی کا بڑا حصہ پمپ اور نلکوں کے ذریعے زیرزمین پانی استعمال کرتا ہے لیکن یہ پانی بھی اب صاف نہیں رہا جس کی وجہ سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ پانی کے مسئلے کا نہ تو ضلعی انتظامیہ نے نوٹس لیا ہے اور نہ ہی عوامی نمائندوں نے اس مسئلے کو حل کروانے میں دلچسپی دکھائی ہے۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال کے ایم ایس محمد افضال سندھیلہ تصدیق کرتے ہیں کہ ننکانہ صاحب میں فیکٹریوں کے زہریلے پانی نے زیرآب پانی کو بھی آلودہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے شہر اور گردونواح میں معدے کے مسائل، یرقان، اسہال، ہیضہ اور انتڑیوں کی بیماریاں عام ہو گئی ہیں۔

وہ شہریوں کو ہدایت کرتے ہیں ان بیماریوں سے بچنے کے لیے یا تو پانی کو ابال کر پئیں یا پھر فلٹر شدہ پانی استعمال کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے طریقوں پر عمل کرنے سے ہسپتال میں ان بیماریوں کے مریضوں کی تعداد میں کم از کم 15 فیصد تک کمی ضرور لائی جا سکتی ہے۔

ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال سے لیے گئے اعدادو شمار کے مطابق رواں ماہ ننکانہ صاحب شہر سے پیٹ کی مختلف بیماریوں میں مبتلا 110 مریض علاج کے لیے آئے۔ شہر میں یرقان کے مریضوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ ریکارڈ کے مطابق اپریل میں یرقان کے 60، مئی میں 112، جون میں 133 اور رواں ماہ 46 مریض اس ہسپتال میں آئے۔

میونسپل کمیٹی ننکانہ صاحب میں کام کرنے والے ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محکمہ پبلک ہیلتھ کی جانب سے واٹر سپلائی کے جو بھی منصوبے شروع کئے جاتے ہیں ان کی لاگت کروڑوں روپے ہوتی ہے لیکن یہ منصوبے یا تو چند ماہ ہی چل پاتے ہیں یا پھر ننکانہ واٹر سپلائی کی طرح شروع ہونے سے پہلے ہی بند ہو جاتے ہیں۔

"ننکانہ صاحب میں محکمہ پبلک ہیلتھ کی جانب سے واٹر سپلائی کے لیے مکمل نئی پائپ لائن بچھانے کی بجائے پائپوں کو 1980 میں ڈالی گئی بوسیدہ پائپ لائن سے جوڑ کر کام چلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہےکہ نہر پر نصب کیے گئے ٹیوب ویلوں کا صاف پانی جب پرانی پائپ سے گزرتا ہے تو صارف تک پہنچنے کے بعد پینے کے قابل نہیں رہتا۔"

وہ انکشاف کرتے ہیں کہ انہی وجوہات کی بنا پر میونسپل کمیٹی واٹر سپلائی کی ذمہ داری لینے سے کترا رہی تھی مگر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر راجہ منصور احمد نے کمیٹی پر دباؤ ڈال کر یہ منصوبے اسے ہینڈ اوور کروا دیا جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جتنے پیسے اس منصوبے پر ضائع کئے گئے ہیں ان میں سے اگر 15 فیصد بھ فلٹریشن پلانٹ لگانے کے لیے مہیا کر دیے جاتے تو نا صرف شہر کے ہر محلے میں پینے کا صاف پانی میسر ہوتا بلکہ باقی بچ جانے والی رقم کسی دوسرے ترقیاتی منصوبے کے لیے کام آ سکتی تھی۔

"ہم نے مخیر افراد کے تعاون سے رائے بلار پارک میں 15 لاکھ میں ایک آر او فلٹر پلانٹ لگایا ہے جو پرانا ننکانہ صاحب کے رہائشیوں کو صاف پانی مہیا کر رہا ہے"۔

کچھ عرصہ پہلے تک ننکانہ صاحب کے بہت سے شہری پینے کے صاف پانی کی ضرورت رکشوں پر نہری پانی بیچنے والوں سے پوری کررہے تھے لیکن اپر گوگیر کے قریب ایک بااثر گروہ نے بھتہ نہ دینے پر رکشوں کو پانی کی فراہمی روک دی ہے جس کے باعث شہریوں کے لیے صاف پانی کا یہ ذریعہ بند ہو گیا ہے۔

سماجی کارکن عابد حمید کہتے ہیں کہ واٹر سپلائی منصوبے کی ناکامی کے بعد ان کا گھرانہ پینے کے لیے اسی نہری پانی پر انحصار کر رہا تھا لیکن مافیا نے ان سے یہ حق بھی چھین لیا۔

"صاف پانی نہ ہونے کے باعث میرا معدہ خراب ہو گیا اس لیے اب مجھے دکانوں سے مہنگے داموں پانی خرید کر پینا پڑتا ہے۔ کروڑوں روپے لگانے کے باوجود واٹر سپلائی منصوبہ بند پڑا ہے جس پر نہ تو آج تک کوئی انکوائری ہوئی اور نہ ہی کسی نے اس عوامی مسئلے کو حل کروانے کی کوشش کی ہے۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

کوئٹہ میں موجود غیر قانونی ٹیوب ویل: عوام پینے کے پانی کے لیے ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر

تاہم محکمہ پبلک ہیلتھ کے سب انجینئر جنید احمد اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ واٹر سپلائی سکیم میں پرانی پائپ لائن استعمال کی گئی ہے۔ اس کے بجائے ان کا کہنا ہے کہ میونسپل کمیٹی نے واٹر سپلائی کی ذمہ داری قبول کرنے میں وقت ضائع کیا جس کے باعث پائپ لائنوں میں مٹی جم جانے سے گدلا پانی آنے لگا۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ پوری پائپ لائن کی صفائی کروا دی جائے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

اس معاملے کی انکوائری سے متعلق ننکانہ صاحب کے ڈپٹی کمشنر میاں رفیق احسن سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ واٹر سپلائی کا منصوبہ ان کی تعیناتی سے پہلے کا ہے اس لیے پہلے وہ خو د تمام تر تفصیلات جمع کریں گے اور تبھی انکوائری ہوگی۔

وہ تصدیق کرتے ہیں کہ محکمہ پبلک ہیلتھ کی جانب سے کام میں غفلت اور بدعنوانی کی شکایات موصول ہوئی ہیں اور جو بھی قصور وار پایا گیا اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ جہاں کہیں اس منصوبے میں کوئی خرابی ہے اسے ٹھیک کروا کر لوگوں کو جلد از جلد صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

تاریخ اشاعت 15 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ضلع ننکانہ صاحب سے تعلق تکھنے والےصداقت علی عوامی، سماجی، سیاسی اور دیگر مسائل پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

آخر ٹماٹر، سیب اور انار سے بھی مہنگے کیوں ہو گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

حلیم اسد
thumb
سٹوری

کھیت ڈوبے تو منڈیاں اُجڑ گئیں: سیلاب نے سبزی اور پھل اگانے والے کسانوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحسن مدثر

"کوئلے نے ہمارے گھڑے اور کنویں چھین کربدلے میں زہر دیا ہے"

thumb
سٹوری

بلوچستان 'ایک نیا افغانستان': افیون کی کاشت میں اچانک بے تحاشا اضافہ کیا گل کھلائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

بجلی بنانے کا ناقص نظام: صلاحیت 45 فیصد، پیداوار صرف 24 فیصد، نقصان اربوں روپے کا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

باجوڑ کا منی سولر گرڈ، چار سال بعد بھی فعال نہ ہو سکا، اب پینلز اکھاڑنا پڑیں گے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

گوادر کول پاور پلانٹ منصوبہ بدانتظامی اور متضاد حکومتی پالیسی کی مثال بن چکا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

اینٹی ریپ قوانین میں تبدیلیاں مگر حالات جوں کے توں: "تھانے کچہری سے کب کسی کو انصاف ملا ہے جو میں وہاں جاتا؟"

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

'کوئلے کے پانی نے ہمیں تباہ کردیا'

thumb
سٹوری

آئے روز بادلوں کا پھٹنا، جھیلوں کا ٹوٹنا: کیا گلگت بلتستان کا موسمیاتی ڈھانچہ یکسر بدل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
thumb
سٹوری

بپھرتے موسموں میں پگھلتے مسکن: کیا برفانی چیتوں کی نئی گنتی ان کی بقا کی کوششوں کو سہارا دے پائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشازیہ محبوب
thumb
سٹوری

تھر،کول کمپنی"بہترین آبی انتظام کا ایوارڈ" اور گوڑانو ڈیم میں آلودہ پانی نہ ڈالنےکا حکومتی اعلان

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.