ننکانہ صاحب میں رابطہ سڑکوں کے لیے ترستے شہری موٹروے پر انٹرچینج بننے سے نالاں کیوں؟

postImg

صداقت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

ننکانہ صاحب میں رابطہ سڑکوں کے لیے ترستے شہری موٹروے پر انٹرچینج بننے سے نالاں کیوں؟

صداقت علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

سولہ سالہ عرفان علی فرسٹ ایئر کے طالب علم ہیں۔ وہ ضلع ننکانہ صاحب کے نواحی قصبے بچیکی کے رہائشی ہیں۔ انہیں جڑانوالہ میں اپنے کالج آنے جانے کے لیے روزانہ 40 کلو میٹر فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جو ان کے لیے بہت مشکل ہے۔

عرفان علی کا مسئلہ صرف طویل سفر نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ صبح بچیکی سے جڑانوالہ تک بہت کم بسیں جاتی ہیں اور بعض اوقات رش زیادہ ہو تو گاڑیوں میں جگہ ہی نہیں ملتی اوروہ کالج نہیں جا پاتے۔ اگر بس کے انتظارمیں تاخیر ہو جائے تو تب بھی انہیں گھر واپس آنا پڑتا ہے۔

عرفان علی کے والد سلیم علی سبزی بیچتے ہیں اور اس آمدنی میں چھ افراد پر مشتمل ان کے کنبے کی روزی روٹی مشکل سے ہی پوری ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے بیٹے کو کسی نجی کالج میں نہیں پڑھا سکتے اور نہ ہی عرفان کے لیے الگ سواری کا اضانی خرچ برداشت کر سکتے ہیں۔

عرفان علی کہتے ہیں کہ بچیکی میں کالج ہوتا تو ہمیں روزانہ مشکل نہ اٹھانا پڑتی۔ موٹر وے انٹرچینج پر جتنی رقم خرچ کی گئی ہے اس کا پانچواں حصہ بھی یہاں تعلیم پرلگایا جاتا تو دو کالج بن سکتے تھے۔

ننکانہ صاحب اور نواحی قصبات کو موٹروے سے جوڑنے کے لیے حکومت نے رواں سال تین مختلف مقامات پر انٹر چینج بنانے کی منظوری دی ہے۔ ان کے لیے چار ارب 26 کرورروپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ مگر اس پر یہاں کے لوگ منصوبہ سازوں اور مقامی سیاست دانوں سے خوش نہیں ہیں۔

موٹروے پر رائے منصب علی کھرل کے نام سے منسوب پہلا انٹر چینج بچیکی ننکانہ صاحب روڈ پر منظور ہوا۔ اس کے لیے ایک ارب 33 کروڑ 20 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

دوسرا انٹر چینج اڈا مانگٹانوالہ کے قریب تارے گڑھ کے مقام بن رہا ہے اس پر ایک ارب 59 کڑور 60 لاکھ روپے خرچ ہوں گے ۔تیسرا انٹرچینج شرقپور کے قریب ہے جس کی لاگت ایک ارب 33 کروڑ 20 لاکھ روپے بتائی گئی ہے۔

تینوں منصوبوں کی منظوری سے پہلے موٹروے سے ننکانہ صاحب، واربرٹن اور بچیکی جانے کے لیے لوگ کھیاڑے کلاں انٹرچینج استعمال کر رہے تھے ۔ننکانہ سے کھیاڑے کلاں انٹرچینج کا فاصلہ 10 کلومیٹر، بچیکی سے 12 کلومیٹر اور واربرٹن سے کھیاڑے کلاں تک 28 کلومیٹر بنتا ہے۔
بچیکی کے ساتھ نیا انٹرچینج سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب نے منظور کرایا ہے۔

سماجی کارکن فیصل اعجاز بتاتے ہیں کہ بچیکی سے نئے انٹر چینج کا فاصلہ آٹھ کلو میٹر اور پہلے سے موجود کھیاڑے کلاں انٹرچینج کا فاصلہ 14 کلو میٹر ہے۔ اس لیے یہ منصوبہ سیاست دانوں نے اپنے ووٹر بڑھانے کے لیے منظور کرایا اور ان قومی خزانے کے اربوں روپے ضائع کیے جا رہے ہیں۔

 وہ کہتے ہیں کہ بچیکی کی کل آبادی دو لاکھ 76 ہزار 391 نفوس پر مشتمل ہے۔ اتنی بڑی آبادی بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ یہاں سے ہر سال تین سو سے زیادہ بچے میٹرک پاس کر رہے ہیں۔ مگر ان طلبہ کے لیے یہاں کوئی سرکاری کالج نہیں ہے۔

فیصل اعجاز کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر شذرہ منصب نے الیکشن سے قبل بچیکی میں بوائز ڈگری کالج بنوانے کا وعدہ کیا تھا ۔ لیکن ان کی پارٹی کی حکومت آئی تو انہوں نےعوام سےاپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔

انہوں کہا کہ بچیکی شہر کے اکثر علاقے گیس، پینے کے صاف پانی اور تفریحی پارکس سے محروم ہیں مگر یہاں انٹرچینج بنانے کو ترجیح دی گئی ہے۔

سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب بتاتی ہیں کہ انہوں نے بچیکی کے لیے بوائز ڈگری کالج سمیت بہت سے منصوبے منظور کرانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں انٹرچینج کے لیے ہی فنڈز ملے۔ انہیں کالج کی رقم منظور نہ ہونے کا افسوس ہے۔ اب کبھی موقع ملا تو وہ پہلے یہی وعدہ پورا کریں گی۔

ننکانہ کے قصبہ واربرٹن سے 14 کلومیٹر دور تارے گڑھ کے مقام پر نئے انٹرچینج کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ یہ منصوبہ سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری برجیس طاہر نے واربرٹن کے لوگوں کے لیے منظور کرایا ہے۔

موٹروے انٹرچینج نقشے کے مطابق تارے گڑھ جانے کے لیے واربرٹن کے رہائشیوں کو جسلانی موڑ اور فتح دریا کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ لیکن یہ رابطہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اوراتنی تنگ ہیں کہ مسافر گاڑیاں ادھر جانا بہت مشکل ہے۔

واربرٹن کے مکین بھی کئی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے وہ اس انٹرچینج سے کچھ زیادہ خوش نظر نہیں آرہے۔

انجمن پٹرولیم ایسوسی ایشن کے صدرچوہدری لطیف دانش بتاتے ہیں کہ واربرٹن کی 50 ہزار سے زیادہ آبادی ہے۔لیکن یہاں بچوں کے لیے کوئی سرکاری کالج ہے اورنہ ہی کھیل کا میدان۔ سابق ایم این اے چوہدری برجیس طاہر یہاں کالج ،سپورٹس کمپلیکس اور ریسکیو 1122 سنٹر بنوانے کے اپنے وعدے ہی بھول گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ تارے گڑھ انٹرچینج کا واربرٹن کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وہاں جانے والی رابطہ سڑکیں خراب ہیں۔اسی طرح جسلانی اور فتح دریا میں امن و امان کی صورتحال اچھی نہیں۔ رات کو وہاں سے کوئی موٹروے کی جانب نہیں جائے گا اور سب لوگ کھیاڑے کلاں انٹرچینج کو ترجیح دیں گے۔

تیسرا انٹر چینج شیخوپورہ کی تحصیل شرقپور کے گاؤں ایسن پر ننکانہ ہی کے علاقے منڈی فیض آباد اور شیخوپورہ جانے والی گاڑیوں کی سہولت کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ بھی باقی دو انٹر چینجز کی طرح تنقید کی زد میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سُن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں: ننکانہ صاحب کی انوکھی ضلعی حدود کیسے اس کے باسیوں کے لیے وبالِ جان بنی ہوئی ہیں۔

منڈی فیض آباد کے رہائشی سہیل منظور گل بتاتے ہیں کہ شرقپور کے لیے پہلے سے موجود انٹر چینج گاؤں ایسن سے 11 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ منڈی فیض آباد سے شرقپور اور ایسن کا فاصلہ برابر ہی ہے۔ ایسن پر انٹرچینج بنانے کا مقصد محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پچاس ہزار آبادی کا قصبہ منڈی فیض آباد چاول کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔یہاں چاول صاف کرنے کی ڈیڑھ سو سے زیادہ فیکٹریاں ہیں اور منڈی سے سیکڑوں مال بردار گاڑیاں روزانہ جی ٹی روڈ کے ذریعے شرقپور انٹرچینج جاتی ہیں۔ اس سڑک پر ٹریفک کا دباؤ بہت زیادہ ہے۔
سہیل منظور کا کہنا ہے کہ جی ٹی روڈ پر گاڑیاں گھنٹوں رش میں پھنسی رہتی ہیں۔ ایسن کے بجائے منڈی فیض آباد انٹر چینج بنا دیا جاتا تو ٹریفک جام کے مسائل حل ہو جاتے اور شرقپورانٹرچینج جانے کی تکالیف سے بھی جان چھوٹ جاتی۔

سابق رکن قومی اسمبلی و وفاقی وزیر چوہدری برجیس طاہر کہتے ہیں کہ واربرٹن میں سپورٹس کمپلیکس ،تفریحی پارک اور بوائز کالج کے لیے محکمہ ریلوے کا این او سی ضروری تھا۔ اس کی منظوری لینے میں دیر ہوگئی تو انہوں نے موٹر وے انٹر چینج کے لیے فنڈز منظور کرا لیے۔
انہوں نے بتایا کہ انٹر چینج کے بعد ان کا ٹارگٹ رابطہ سڑکوں کی منظوری تھا مگر انہیں وقت نہیں مل سکا ۔وہ پرامید ہیں کہ نئے الیکشن میں کامیاب ہو کروہ ادھورے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کریں گے۔

تاریخ اشاعت 22 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ضلع ننکانہ صاحب سے تعلق تکھنے والےصداقت علی عوامی، سماجی، سیاسی اور دیگر مسائل پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.