ننکانہ صاحب کے قصبے واربرٹن سے تعلق رکھنے والے رفیق علی کیٹرنگ کا کام کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔ جب انہیں ہسپتال لایا گیا تو وہ بے ہوش تھے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے دماغ میں خون جم گیا ہے اس لئے جتنا جلد ہو سکے انہیں لاہور لے جایا جائے۔
لاہور کے جنرل ہسپتال میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ انہیں یہاں بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سی ٹی سکین میں ان کے دماغ میں خون جما دکھائی نہیں دیا۔
اس طرح رفیق اور ان کے اہلخانہ نے نہ صرف شدید ذہنی کوفت برداشت کی بلکہ انہیں لاہور لانے اور واپس لے جانے پر ان کے بہت سے پیسے بھی خرچ ہو گئے۔
ننکانہ صاحب کی بشریٰ بی بی کا دو سالہ بیٹا محمد وسیم پیٹ میں درد کی وجہ سے دو روز تک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں زیر علاج رہا۔ تیسرے دن ڈاکٹروں نے انہیں فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال لے جانے کا مشورہ دے دیا۔
بشریٰ کے لیے یہ صورتحال کافی پریشان کن تھی۔ کیونکہ اس روز ان کے بیٹے کی طبعیت دوبارہ بگڑ گئی تھی اور ان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ فوری طور پر کرایے کی گاڑی کا بندوبست کر سکتیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر نے کسی سے کچھ پیسے ادھار لیے اور اس طرح انہوں نے بچے کو 80 کلومیٹر دور فیصل آباد پہنچایا۔
الائیڈ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے مختلف معائنوں کے بعد انہیں بتایا کہ بچے کے پیٹ میں ہونے والا درد دراصل مثانے کی کسی خرابی کی وجہ سے ہے۔
بشریٰ بی بی اور ان کے شوہر بیٹے کے ساتھ دو روز تک ہسپتال میں فرش یا گھاس پر سوتے رہے۔ کیونکہ فیصل آباد میں نہ تو ان کا کوئی رشتہ دار تھا جس کے پاس وہ ٹھہر سکتے اور نہ ہی ان کے پاس کرایے پر کمرہ لینےکے پیسے تھے۔
بشریٰ کہتی ہیں کہ ان کا بچہ تو صحت یاب ہو گیا لیکن آنے جانے اور کھانے پینے پر 15 ہزار روپے خرچ ہو گئے۔
''اگر میرے بچے کا علاج ننکانہ صاحب کے ہسپتال میں ہو جاتا تو ہمیں اس قدر بڑی رقم خرچ نہ کرنا پڑتی۔''
وہ الزام عائد کرتی ہیں کہ ننکانہ صاحب کے ہسپتال میں ڈاکٹروں نے ان کے بچے کی زندگی کو اس لیے خطرے میں ڈالا کیوں کہ وہاں کسی بڑی سفارش پر آنے والے مریض کو بستر مہیا کرنا تھا۔
رفیق علی کا خیال ہے کہ اس ہسپتال کے ڈاکٹر شعبہ حادثات یا آؤٹ ڈور میں جانے والے بیشتر مریضوں کو فیصل آباد یا لاہور کے کسی ہسپتال میں بھجوا دیتے ہیں۔
ہسپتال کے ریکارڈ سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہاں آنے والے ہر چوتھے مریض کو دوسرے شہروں کے ہسپتالوں میں ریفر کیا جارہا ہے۔
رواں برس جنوری سے اب تک یہاں پانچ ہزار 625 مریضوں کا علاج کیا گیا جبکہ اس دوران لاہور یا فیصل آباد کے ہسپتالوں میں ریفر کیے جانے والے مریضوں کی تعداد ایک ہزار 955 ہے۔
اس ہسپتال میں بطور فزیشن کام کرنے والے ڈاکٹر محمد حمزہ کے مطابق ایمرجنسی میں جو بھی مریض آتا ہے اس کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اسے یہیں پر داخل کرنا ہے یا کسی دوسرے ہسپتال میں بھجوانا ہے۔
ان کے بقول ہسپتال میں سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کی سہولت نہ ہونے کے باعث بھی زیادہ تر مریضوں کو فیصل آباد یا لاہور کے بڑے ہسپتالوں میں بھجوانا پڑتا ہے۔
رفیق علی کو لاہور بھجوانے کے بارے میں بھی ان کا موقف ہے کہ وہ بے ہوشی کی حالت میں یہاں آئے تھے پھر جب انہیں ہوش آیا تو ان کا مکمل معائنہ کیا گیا جس میں ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ شاید ان کے دماغ میں خون جم گیا ہے اور اسی بنا پر انہیں لاہور لے جانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
ننکانہ صاحب کا یہ سرکاری مرکز صحت 1985ء میں قائم کیا گیا تھا اور جب اس شہر کو ضلعے کا درجہ ملا تو 2007ء میں اسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں تبدیل کر دیا گیا۔
ہسپتال کی ویب سائٹ کے مطابق 2018ء میں اس ہسپتال کی مزید توسیع اور تزئین و آرائش ہوئی ہے اور اس میں سہولیات کو مزید بہتر بنایا گیا ہے۔
ہسپتال میں گائناکالوجی، آرتھوپیڈک، ریڈیالوجی، ڈینٹل اینڈ چیسٹ اور ایکسیڈنٹل و میڈیکل ایمرجنسی سمیت سات شعبے ہیں۔ یہاں آپریشن اور آؤٹ ڈور کی سہولت بھی میسر ہے۔
اس ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی تعداد بھی 160 ہے جو کسی بھی لحاظ سے کم نہیں ہے۔ ان ڈاکٹروں میں 70 کنسلٹنٹ، 25 فزیشن، 20 آرتھوپیڈکس، 20 گائناکالوجسٹ، 15 سرجن، 5 کارڈیالوجسٹ اور 5 پیڈیٹریشن ہیں۔
ہسپتال کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ "کوئی بھی مریض معمول کے مطابق آئے یا ایمرجنسی میں، ہسپتال اسے بہترین طبی خدمات فراہم کرے گا"۔
لیکن شہر سے 12 کلومیٹر دور قصبہ مانگٹانوالہ کے مزدور کرامت علی ہسپتال کی طرف سے بہترین طبی خدمات فراہم کرنے کے ان دعووں کو درست تسلیم نہیں کرتے۔
چند ماہ پہلے ان کے بیٹے کو شہد کی مکھیوں نے کاٹ لیا تو وہ انہیں فوری طور پر ڈی ایچ کیو ننکانہ صاحب لے گئے لیکن وہاں کے ڈاکٹروں نے انہیں داخل کرنے کے بجائے فیصل آباد ریفر کر دیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس علاج تو دور کی بات، فیصل آباد جانے کے لئے کرائے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ انہوں نے ڈاکٹروں کی منت سماجت کی کہ بچے کو ایک آدھ دن کے لیے ہسپتال میں داخل کر لیں لیکن انھوں نےانکار کردیا۔
ہسپتال کے انتظامی معاملات کی نگرانی کے حوالے سے ہسپتال انتظامیہ، ضلعی انتظامیہ اور عوامی نمائندوں پر مشتمل ''ہیلتھ کونسل'' کے رکن شاہین غیور کا کہنا ہے کہ کرامت علی چونکہ مالی طور پر کمزور ہیں اس لیے وہ بیٹے کو کسی دوسرے شہر لے جانے کی سکت نہیں رکھتے تھے اس لیے وہ ان کے پاس آئے۔
"میں نے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے رابطہ کر کے انہیں ساری صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے مریض بچے کا ہسپتال میں علاج شروع کرا دیا"۔
میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر افضال سندھیلہ کے مطابق شہد کی مکھی کے کاٹنے سے متاثرہ مریض کو دوسرے شہر ریفر کرنے پر انہوں نے متعلقہ ڈاکٹر کی سرزنش کی ہے اور انہیں تنبیہ کردی گئی ہے کہ اگر ان کے خلاف دوبارہ کوئی شکایت آئی تو انہیں محکمانہ کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں شکایات کے حوالے سے مانیٹرنگ سیل نہیں ہے لیکن پھر بھی آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب جو بھی مریض کہیں اور ریفر کیا جائے گا اس کے لیے سی ای او اور ایم ایس کا اجازت نامہ ضروری ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں
لیاقت پور تحصیل ہسپتال: 'انتہائی نگہداشت کا یونٹ فعال ہوتا تو جان بچ سکتی تھی'
انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ آنے والے دنوں میں صرف وینٹی لیٹر پر موجود مریضوں کے علاوہ تمام افراد کا علاج ہسپتال میں ہی ممکن بنایا جائے گا جس کی روزانہ کی بنیاد پر نگرانی ہوگی۔
ڈاکٹر راحیل اس ہسپتال میں بطور کارڈیالوجسٹ کام کرتے ہیں۔ان کے مطابق ہسپتال میں مثانے، گردوں، ناک کان، جلد اور گلے کی بیماریوں کے ڈاکٹر دستیاب نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس ضلعے کی آبادی کے لحاظ سے ہسپتال میں بستروں کی کمی بھی مریضوں کو دوسرے شہر بھیجے جانے کی ایک وجہ ہے۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق ننکانہ صاحب کی کل آبادی 13 لاکھ 54 ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ ڈی ایچ کیو اس ضلع کا واحد بڑا سرکاری ہسپتال ہے جہاں 125 بستروں کی سہولت موجود ہے۔ گویا ضلع کے ہر گیارہ ہزار افراد کے لئے ضلع ہیڈ کواٹر ہسپتال میں ایک بستر میسر ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آبادی اور ہسپتال کے بستروں میں تناسب انتہائی کم ہے۔ ادارہ کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دس ہزار افراد کے لیے اوسطاً چھ بستر دستیاب ہیں۔ یہ شرح چین میں 43، سری لنکا میں 41، ایران میں 16 اور بنگلہ دیش میں آٹھ ہے جبکہ بھارت اور افغانستان میں پاکستان سے بھی کم یعنی بالترتیب پانچ اور چار ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جاپان اور کوریا پہلے نمبر پر ہیں جہاں یہ شرح بالترتیب 130 اور 124 ہے۔
ضلعے میں شاہ کوٹ اور سانگلہ ہل میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کے علاوہ پورے ضلعے میں صرف سات دیہی مراکز صحت اور 47 بنیادی مراکز صحت ہیں۔
شاہین غیور اپنے شہر میں صحت کی سہولیات کے فقدان سے تو انکار نہیں کرتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ اس ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر اگر اپنے رویوں میں بہتری لے آئیں تو بھی بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 8 مئی 2023