پینتالیس سالہ راوتو کولھی نے ایک موٹی سی لکڑی کندھے پر اٹھا رکھی ہے جس کے دونوں طرف پانی کے کنستر لٹک رہے ہیں (اسے مقامی زبان میں کنواٹی کہتے ہیں)۔ انہوں نے اپنے گھر جا کر کنستر خالی کیے اور کنویں کا دوسرا چکر لگانے کے لیے پسینہ پونچھتے باہر آ گئے۔
راوتو کولھی ننگر پارکر شہر کے رہائشی ہیں جو اپنے آٹھ افراد پر مشتمل خاندان کے لیے پانی روزانہ اسی کنویں سے بھرتے ہیں۔
وہ محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں مگر مزدوری پر جانے سے پہلے کنویں کے دو پھیرے لگانا ان کا معمول ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہاں پانی کی قلت ہے جس کی وجہ سےلوگوں کو پانی خریدنا پڑتا ہے جبکہ وہ صرف چھ سو روپے دیہاڑی کماتے ہیں۔ مزدوری نہ ملے تو خالی ہاتھ آنا پڑتا ہے۔
اس لیے صرف راوتو کولھی ہی نہیں ان جیسے بیشتر افراد اپنے گھروں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کنواٹیوں اور گدھا ریڑھیوں کے ذریعے کنویں سے پانی لاتے ہیں جو نسبتاً کم کڑوا ہوتا ہے۔
"ہم برسوں سے واٹر سپلائی کی پائپ لائن کو دیکھ رہے ہیں مگر یہ منصوبہ مکمل ہونے کو ہی نہیں آ رہا۔ گرمیوں میں کنووں کا پانی نیچے چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ سوکھ بھی جاتے ہیں جس سے ہمیں زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔"
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق 2017ء سے 2020ء تک ضلع تھرپارکر میں الیکٹریکل ریزسٹیویٹی سروے (ای آر ایس) کرایا گیا تھا جس کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ضلعے کے جنوبی حصوں ننگرپارکر، ڈپلو اور اسلام کوٹ میں 25 میٹر (تقریباً 82 فٹ) تک کی گہرائی میں تقریباً 10 فیصد پانی قابل استعمال ہے۔
سروے کے مطابق اس سطح پر تقریباً 31 فیصد رقبے کا پانی نمکین، 51 فیصد کا زیادہ نمکین جبکہ اس سے زیادہ گہرائی میں زیر زمین پانی کا معیار مزید بگڑ جاتا ہے۔
ننگر پارکر ہی کے رہائشی 52 سالہ محمد بخش بتاتے ہیں کہ پرانے زمانے کے یہ کنویں بارشوں کے دوران پہاڑی نالوں سے ری چارج ہوتے ہیں۔ ٹاؤن کمیٹی بھی شہر میں یہی پانی فراہم کرتی ہے جو کڑوا ہی ہوتا ہے۔
"بارش کے دوران شہر میں موجود چائنا کلے کی فیکٹریوں کا پانی کنووں میں چلا جاتا ہے جس سے صورت حال زیادہ خراب ہو جاتی ہے۔ یہ پانی پینے سے ہمارے ہاں بچوں بڑوں سمیت بیشتر لوگوں کو پیٹ کی بیماریاں ہو رہی ہیں۔ یہاں تاریخی مقامات پر آنے والے ہزاروں سیاح بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔"
ضلع تھرپارکر 17 لاکھ 78 ہزار 407 کی آبادی پر مشتمل ہے جس کی سرحدی تحصیل ننگرپارکر کا 80 فیصد رقبہ کارونجھر کے پہاڑ ہیں۔ ان پہاڑوں کی گود میں واقع تحصیل ہیڈکوارٹر کی آبادی 18 ہزار کے قریب ہے مگر یہاں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت ہے۔
2017ء میں سندھ ہائی کورٹ میں ضلع تھرپارکر میں واٹر سپلائی سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ تھر کے لیے واٹر سپلائی سکیم بنائی گئی تھی جس کا مقصد متھراؤ کینال (نارا کینال) سے پانی لے کر رن شاخ سے نونکوٹ پمپنگ سٹیشن کے ذریعے پانی فراہم کرنا تھا مگر یہاں سے پانی کم ہی ملتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق شہریوں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے 778 آر او (ریورس اسموسس) پلانٹس لگائے گئے جن میں سے 700 حکومت سندھ اور 78سندھ کول اتھارٹی نے لگائے تھے۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہےکہ ان 778 آر او پلانٹس میں سے ایک بھی ننگر پارکر شہر میں نہیں لگایا گیا تھا۔
پرویز مشرف حکومت نے تھرپارکر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر مٹھی کو نارا کینال سے (بذریعہ نونکوٹ پمپنگ سٹیشن) پانی کی فراہمی کے لیے 2000ء میں پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ شروع کیا تھا جو 2002ء میں لگ بھگ 20 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔
تاہم 2010ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس پائپ لائن کو پہلے اسلام کوٹ تک توسیع دینے اور پھر اسے 54 کلومیٹر آگے ننگر پارکر تک پہنچانے کا فیصلہ کیا جس کے لیے 50 کروڑ کے قریب (نظر ثانی شدہ) رقم مختص کی گئی۔
لیکن کام کی رفتار سست ہونے کے باعث گیارہ سال بعد 2021ء میں پائپ لائن تو ننگر پارکر تک مکمل ہو گئی مگر اس دوران نونکوٹ سے مٹھی کے درمیان بچھائی گئی پائپ لائن خستہ ہو چکی تھی۔
اب یہ منصوبہ مکمل ہوئے تین سال ہو گئے لیکن اسلام کوٹ کے گاؤں لونیو سمان سے آگے پانی کی سپلائی شروع نہیں کی جا سکی۔
ننگرپارکر کے رہائشی عثمان جان خاصخیلی بتاتے ہیں کہ پی پی رہنما شرجیل انعام میمن جب یہاں سے ایم پی اے منتخب ہوئے تو انہوں نے عوامی مطالبے پر ننگر پارکر کے لیے پائپ لائن منظور کرائی تھی جس کی تعمیر کا افتتاح انہوں نے 2010ء میں کیا تھا۔ لیکن لوگ یہاں دس ہزار روپے تک فی ٹینکر پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس پائپ لائن کے راستے میں دو قصبات ڈانو داندھل اور ویرا واہ شہر کے علاوہ گاؤں بھالوا، گوڑی، چنیسر ڈھانی، جام خان جو وانڈیو سمیت 20 دیہات میں پانی واٹر سٹوریج بھی بنائے گئے ہیں جہاں کے رہائشی برسوں سے میٹھے پانی کے منتظر ہیں۔
محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط بتایا کہ دراصل واٹر سپلائی پائپ لائن صرف مٹھی شھر کے لیے بنائی گئی تھی مگر پھر حکومت نے اسے پہلے اسلام کوٹ اور پھر ننگر پارکر تک پہنچا دیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ اب اس لائن میں بہت سارے مسائل پیدا ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے اسلام کوٹ کے گاؤں لونیو سماں تک مہینے میں صرف ایک مرتبہ میٹھا پانی دیا جاتا ہے۔ البتہ اگر اس سکیم کو اپ گریڈ کیا جائے تو کم سے کم 15 روز پانی فراہم کیا جا سکتا ہے۔
چیئرمین ٹاؤن کمیٹی ننگر پارکر محمد رحیم کھوسو تصدیق کرتے ہیں کہ اس وقت شہر میں کنویں کا پانی ہی مہیا کیا جا رہا ہے۔ اگر پائپ لائن سے سپلائی مل جائے تو بہت فائدہ ہوگا جس کے لیے وہ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے اسسٹنٹ انجنیئر محمد باقر بتاتے ہیں کہ پائپ لائن منصوبہ نہ صرف شہروں بلکہ اسلام کوٹ سے ننگر پارکر تک دیہات کو بھی پانی پہنچانے کے لیے شروع کیا گیا تھا تاہم راستے میں کسی پمپنگ سٹیشن پر بجلی میسر نہیں ہے۔
ان کے مطابق یہاں پانی کی فراہمی میں تاخیر پاور سپلائی نہ ملنے کی وجہ سے ہوئی تاہم محکمہ توانائی نے سندھ حکومت کو نونکوٹ سے چیلہار ننگر پارکر تک اس منصوبے کو سولر سسٹم پر چلانے کی تجویز دی ہے۔
"جیسے ہی پمپنگ سٹیشنوں کو پاور سپلائی کا مسئلہ حل ہوگا تو ہم واٹر سپلائی شروع کردیں گے۔ ورنہ اس کو فعال کرنا مشکل ہے۔ ہم پر امید ہیں کہ نئی سندھ کابینہ اس مسئلے کو حل کرے گی۔"
یہ بھی پڑھیں
تھرپارکر میں گندے پانی کا ذخیرہ: 'پانی زندگی دیتا ہے لیکن اس نے ہماری بقا کو مشکل بنا دیا ہے'۔
سندھ حکومت میں محکمہ پلاننگ ذرائع بتاتے ہیں کہ محکمہ توانائی نے تھر کے پمپنگ سٹیشنز پر سولر سسٹم لگانے کے لیے 22 کروڑ روپے سے زائد لاگت کی ابتدائی تجاویز دی تھیں۔
اسسٹنٹ انجنیئر محمد باقر کی توقعات اپنی جگہ ہیں تاہم سندھ حکومت نے نونکوٹ سے اسلام کوٹ تک پانی کی سپلائی کی صورت حال دیکھتے ہوئے2017ء میں 1025.707 ملین (ایک ارب دو کروڑ 57 لاکھ سے زائد) روپےکی لاگت سے تھر واٹر سپلائی کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ بنایا تھا۔
منصوبے کے تحت سندھ ترقیاتی بجٹ 24-2023ء میں واٹر سپلائی منصوبے سے لگ بھگ چار لاکھ 59 ہزار شہریوں کو 66 لاکھ 31 ہزار گیلن نہری پانی (نارا کینال سے) ملے گا جن میں نوکوٹ سے مٹھی، اسلام کوٹ کے راستے لونیو، پیلو، بنتاری، چیلہار اور چوریوتو نگر پارکر تک کی آبادی شامل ہے۔
صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کی یہ دستاویز ظاہر کرتی ہے کہ اس منصوبے پر گزشتہ جون تک 31 کروڑ 34 لاکھ سے زائد رقم خرچ ہو چکی تھی جس سے دس انچ قطر کی پائپ لائن کا کئی کلومیٹر حصہ اور ایک لاکھ 70 ہزار گیلن گنجائش کے پختہ تالاب بنائے گئے تھے جن میں چیلہار شہر کا تالاب بھی شامل ہے۔
تاہم رواں بجٹ میں اس ترقیاتی منصوبے کے لیے 71 کروڑ 22 لاکھ 18 ہزار روپے رقم مختص کی گئی ہے جس سے ننگر پارکر کے زیر زمین تالاب سمیت کئی تعمیرات، چھ پمپنگ سٹیشنز کی تنصیب و دیگر کام ہوں گے۔
اس دستاویز کے مطابق تھرپارکر واٹر سپلائی کے اس اپ گریڈڈ منصوبے کی تکمیل جون 2025ء میں متوقع ہے تاہم ننگر پارکر کے مکینوں کا انتظار کب ختم ہوتا ہے؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔
تاریخ اشاعت 9 مئی 2024