مظفرگڑھ سولر پاور منصوبے کے خلاف احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟

postImg

ندیم شاہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

مظفرگڑھ سولر پاور منصوبے کے خلاف احتجاج کیوں ہو رہا ہے؟

ندیم شاہ

loop

انگریزی میں پڑھیں

"وہ ہمارے باپ دادا کی زمین اور ہماری چھتیں چھین رہے ہیں۔ ہمارے پاس رہنے کے لیے کوئی اور جگہ بھی نہیں۔ ہم ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر کہاں جائیں؟ سیکڑوں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں نیلی چھتری والا انصاف ضرور کرے گا۔"

یہ کہنا ہے 80 سالہ نوراں بی بی کا جو  کوٹ ادو کے تھل میں واقع چاہ حاصل والا کی رہائشی ہیں لیکن آج کل بہت پریشان ہیں۔

حاصل والا صرف چند سال پہلے تک بے آب و گیاہ ٹیلوں پر مشتمل ایک بنجر علاقہ تھا لیکن پھر سولر ٹیکنالوجی نے یہاں جادو جگایا جس سے لوگوں نے سولر ٹیوب ویل لگائے اور محنت کر کے ٹیلے ہموار کیے۔ وہاں اب فصلیں لہلہا رہی ہیں اور آبپاشی کے لیے پختہ کھال بن چکے ہیں۔

لیکن اب اس علاقے کی ڈھائی ہزار ایکڑ سے زائد اراضی سولر پاور پلانٹ کے لیے حاصل کر لی گئی ہے۔

نوراں بی بی سمیت تھل کا کوئی رہائشی اس سولر پراجیکٹ کے خلاف نہیں ہے تاہم زمین کے حصول کے ناقص طریقہ کار اور انتہائی کم معاوضے نے لوگوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ انہیں تشویش یہ ہے کہ سرکار  زمینیوں کے بدلے جو رقم (ایکوزیشن ایوارڈ ) دے رہی ہے وہ اس سے نئی زندگی کیسے شروع کر پایئں گے؟

"ہم نے تھل آباد کیا اور اب حکومت ہمیں یہاں سے نکالنا چاہتی ہے جبکہ کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ بچوں اور مال مویشی کو لے کر ہم کہاں جائیں؟"

ستمبر 2022ء میں شہباز شریف حکومت نے بجلی بحران پر قابو پانے کے لیے شمسی توانائی سے دو ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ منظور کیا تھا۔ منصوبے کا بنیادی مقصد مہنگے تھرمل بجلی گھروں پر انحصار کم کر کے زرمبادلہ بچانا اور شمسی توانائی سے کم قیمت اور ماحول دوست بجلی کرنا تھا۔

 اسی منصوبے کے تحت حکومت نے مظفرگڑھ شہر سے لگ بھگ 35 کلو میٹر شمال میں (ایم ایم روڈ اور رنگ پور روڈ کے درمیان) 600 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والا سولر پلانٹ لگانے فیصلہ کیا تھا جس کے لیے سروے اور زمین خریدنے کا کام وفاقی ادارے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈیسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کو سونپا گیا۔

اس سولر پاور پلانٹ کی مجوزہ سائٹ میں تحصیل مظفرگڑھ اور ضلع کوٹ ادو کی تحصیل چوک سرور شہید کا رقبہ شامل ہے جس میں موضع واندڑ شرقی، پتی سلطان محمود شرقی اور موضع خدائی کے دیہات آتے ہیں۔

یہاں زمین کے حصول کے لیے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کی شق فور کے تحت کارروائی (ابتدائی نوٹس) اور زمین کے تخمینے کا کام ضلعی انتظامیہ  مظفرگڑھ (تب کوٹ ادو ضلع نہیں بنا تھا) کے سپرد کیا گیا تھا، جس کا ابتدائی تخمینہ ایک ارب 40 کروڑ روپے کے قریب لگایا گیا تھا لیکن ضلع انتظامیہ نے زمین کی قیمت 93 کروڑ روپے سے بھی کم بتائی جس کی صدر پاکستان منظوری دے چکے ہیں۔

مظفرگڑھ میں مظفر خان مگسی متحرک سرائیکی رہنما ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تھل میں حکومت نے سڑکیں دیں نہ بجلی اور نہ ہی صاف پانی فراہم کیا۔ اب جبکہ لوگوں نے رقبے آباد کر لیے تو حکومت یہ زرعی زمینیں اونے پونے خرید کر پاور پلانٹ لگانا چاہتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ لگ بھگ تین سو خاندان بیروزگار اور بےگھر ہو جائیں گے جبکہ ان کا تحفظ بھی منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے تھا،  مگر کسی نے نہیں سوچا کہ ان ہزاروں لوگوں کی آباد کاری کا کیا بنے گا؟

سولہ مارچ  2024ء کو این ٹی ڈی ہیڈکوارٹرز، واپڈا ہاؤس نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں بتایا گیا تھا کہ"سولر پاور پلانٹ کے لیے تحصیل چوک سرور شہید میں دو ہزار 553 ایکڑ، چھ کنال اور نو مرلے اراضی کامیابی کے ساتھ ایکوئر  کر کے آج اس کا قبضہ لے لیا گیا ہے۔"

" لینڈ ایکوزیشن کلکٹر نے مذکورہ اراضی کے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894ء (حصول زمین کا قانون) کی شق 11 کے تحت ایوارڈ کا اعلان کیا۔ اس موقع پر ڈائریٹر جنرل (لینڈ) این ٹی ڈی سی و دیگر حکام بھی موجود تھے۔"

اس پریس ریلیز کے ساتھ ایک تصویر بھی جاری کی گئی جس میں 'ایوارڈ کی تقریب' کا بینر نظر آ رہا ہے۔

تاہم زمین مالکان، این ٹی ڈی سی کے سیکشن 11 کے تحت ایوارڈ کے اعلان کی کارروئی کے دعوے کو " جھوٹ پر مبنی" قرار دیتے ہیں۔

شفقت نوناری مقامی کسان ہیں اور وہ سائٹ کے قریب 'اڈا چوک' پر دکان چلاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ نہ ان کے اعتراضات کی سماعت ہوئی نہ ایوارڈ کے لیے انہیں کسی قسم کے نوٹسز جاری ہوئے اور نہ ہی انہیں ان کی زمینوں کے بدلے ادائیگیاں کی گئیں۔

وہ کہتے ہیں کہ سال پہلے چند لوگ آئے اور کچھ بتائے بغیر ان کی زمینوں کا سروے شروع کر دیا جس کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔

" آٹھویں/ نویں بار جب آئے تو انہوں نے ہمیں بتایا کہ یہاں سولر پلانٹ لگانا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری زمین کا فی ایکڑ سوا دولاکھ سے دو لاکھ 80 ہزار تخمینہ لگایا گیا ہے۔ موضع واندڑ کا ایک لاکھ 80 ہزار سے سوا دولاکھ روپے فی ایکڑ ریٹ مقرر ہوا ہے۔ تاہم موضع پتی سلطان میں زمینداروں کو چار سے پانچ لاکھ روپے ایکڑ معاوضہ ملے گا۔"

شفقت بتاتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی اور اعتراضات جمع کرا دیے۔ کچھ دن بعد زمین مالکان کو بلایا گیا کہ ایوارڈ کی کاروائی ہے اور اپنی اپنی زمینوں کے پیسے لے لیں۔

"ہم نے انہیں اعتراضات سے متعلق بتایا تو سرکاری افسروں نے کہا کہ آپ لوگ پیسے لے لیں ورنہ ان کے لیے بھی لاہورکے چکر لگانے پڑیں گے۔"

 وہ کہتے ہیں کہ اس کارروائی کے بعد سرکاری اہلکاروں نے بینر لگا کر تصاویر بنوائیں اور چلے گئے۔ اگلے روز خبریں لگوا دیں کہ عوام سے زمین خرید کر لی گئی ہے لیکن چند روز قبل جب سرکاری ٹیمیں دوبارہ آئیں تو مقامی لوگوں نے مزاحمت کر کے انہیں نئے سروے سے روک دیا۔

لینڈ ایکوزیشن  ایکٹ 1894 کا سیکشن 11 کیا ہے؟

کلکٹر انکوائری کرے گا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ زمین کی قیمت کیا ہے اور کون معاوضے کا مستحق ہے۔

کلکٹر ان اعتراضات کو بھی سنے گا جو کسی نے زمین کی پیمائش یا قیمت کے بارے میں کیے ہیں۔

کلکٹر ایک ایوارڈ جاری کرے گا جس میں بتایا جائے گا کہ کون کتنا معاوضہ حاصل کرے گا۔

اسی قانون کی شق 4(1) کہتی ہے کہ جب بھی ضلع  کلکٹر محسوس کرے کہ ضلع کی حدود میں مفاد عامہ میں کسی جگہ زمین درکار ہے تو اس کے لیے کلکٹر سب سے پہلے ابتدائی آفیشل گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے درکار زمین کی نشان دہی کر کے اسے ریکارڈ پر لائے گا۔اور وہ (کلکٹر) اس نوٹیفکیشن کے مواد کو عوامی نوٹس کے ذریعے متعلقہ علاقے میں مناسب جگہوں پر لگوائے گا۔

سب کلاز (2)  میں ہدایت کی گئی ہے کہ افسر مجاز یا ماتحت عملہ سروے یا نشان لگانے کے لیے بھی کھڑی فصل، باڑ یا جنگل نہیں کاٹے جائیں گے اور مالک/ قابض کی رضا مندی (یا سات روز کا نوٹس)کے بغیر کسی عمارت یا مکان کے احاطے یا باغ میں داخل نہیں ہوا جا سکتا۔

سیکشن (3) کے تحت مجاز افسر سروے کے دوران توڑ پھوڑ یا کسی نقصان کی صورت میں اس کی ادائیگی یقینی بنائے گا جبکہ رقم پر تنازعے کی صورت میں ضلع کے کلکٹر کو آگاہ کرے گا جس کا فیصلہ حتمی ہو گا۔

تاہم یہاں سولر پاور پلانٹ کی مجوزہ سائٹ کے زمین مالکان نے شق 4 (1) کے تحت کسی بھی نوٹیفیکیشن سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

اسی طرح لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کی شق فائیو  اے، ایکوئر کی جانے والی زمین کے مالکان کے اعتراضات کی سماعت اور انکوائری سے متعلق ہے جن کی سماعت کی کسی نے ضرورت ہی نہیں سمجھی اور موقع پر جا کر حکم سنا دیا گیا۔

مہر اعجاز جو تھل کے زمیندار ہیں اور مظفرگڑھ میں بطور وکیل پریکٹس کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ لینڈ ایکوزیشن کلکٹر لاہور بیٹھتے ہیں جہاں 50 سے زائد زمین مالکان نے اعتراضات پر مبنی پٹیشن دائر کی ہے جن میں واندڑ شرقی، اور پتی سلطان شرقی کے متاثرین شامل تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ پٹیشنرز نے ایکوزیشن ایکٹ 1894ء کی مختلف شقوں کے اطلاق اور اراضی کے حصول کے لیے قیمت کے تعین میں قواعد کی سنگین خلاف ورزیاں سے متعلق اعتراضات اٹھائے ہیں۔

"ہمارے اعتراضات کو نہیں سنا گیا اور یکطرفہ طور پر معاملات چلائے جا رہے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے میں نے ایک پٹیشن ضلع مظفرگڑھ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں دائر کی تھی لیکن وہاں سے بھی انصاف نہ ملا۔"

تھل کے زمیندار میاں امیر نواز کہتے ہیں کہ حکومت یہاں زراعت کو ختم کرنے کی بنیاد ڈال رہی ہے۔سولر پلانٹ تک پہنچنے کے لیے 21 ایکڑ رقبہ الگ سے خریدا جا رہا ہے جس پر 300 فٹ چوڑی سڑک تعمیر کی جائےگی۔

"کاش! کمشنر ڈیرہ غازی خان اپنے ڈپٹی کمشنرز کے ساتھ سائٹ اور ان زرخیز زمینوں کا وزٹ کر لیں مجھے یقین ہے وہ سولر پلانٹ کی جگہ تبدیل کرا دیں گے۔"

پندرہ مارچ کو خدائی بس سٹاپ پر متاثرین نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے سوا دو لاکھ روپے فی ایکڑ معاوضہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ایک ایکڑ بنجر زمین کو صرف ہموار کرنے اور اسے قابل کاشت بنانے پر آٹھ سے دس لاکھ روپے لاگت آتی ہے۔

"بنجر اور آباد زمین ملاکر ہم پر اوسطاً دو لاکھ روپے فی ایکڑ قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے جو ہمیں کسی صورت قبول نہیں۔"

بستی خدائی کے امیر نوار خدائی بھی اس احتجاج میں شریک تھے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ضلع مظفر گڑھ اور کوٹ ادو میں ہزاروں ایکڑ سرکاری اراضی خالی پڑی ہے جہاں حکومت پاور پلانٹ لگا سکتی ہے جبکہ زرعی رقبہ اور قومی سرمایہ بھی بچ جائےگا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

شفقت نوناری نے شکوہ کیا کہ یہاں زمینوں پر لوگوں نے ڈرپ اریگیشن، سولر ٹیوب ویل اور امپورٹڈ سینٹرل پیوٹ ایری گیشن سسٹم (CPIS) لگا رکھے ہیں جہاں گندم، چنا، لہلہاتے باغات اور فش فارمز ہیں مگر حکومتی ریکارڈ میں انہیں بنجر ظاہر کر کے کوڑیوں کے بھاؤ چھینا جا رہا ہے۔

"ہماری زمینوں کا مارکیٹ ریٹ دس سے پندرہ اور اٹھارہ لاکھ ایکڑ ہے جس کی محکمے والوں نے سوا دولاکھ روپے قیمت لگائی ہے۔ اگر زبرستی زمین لینی ہے تو کم از کم مارکیٹ ریٹ کے مطابق ادائیگیاں تو کی جائیں۔"

موضع واندڑ شرقی کے پٹواری طاہر گھمن نے لوک سجاگ کو بتایا کہ سولر پلانٹ کے مجوزہ رقبے میں آباد اور بنجر دونوں طرح کی اراضی شامل ہے۔ تاہم انہوں نے تصدیق کی کہ یہاں اکثر رقبے آباد ہو چکے ہیں مگر محکمہ مال نے اپنا ریکارڈ اپ ڈیٹ نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کی قیمت کم دی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر میاں عثمان علی نے لوک سجاگ کو بتایا  کہ پلانٹ کے لیے زمین محکمہ ریونیو کے ذریعے حاصل کی گئی ہے اور قیمت کا فیصلہ بھی قانون کے مطابق کیا گیا ہے۔

 کیا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے؟

'فاسٹ ٹریک ٹریک سولر پی وی انیشیٹوز 2022ء' کے تحت مظفرگڑھ/کوٹ ادو سولر پاور پلانٹ کا یہ حکومتی 'پائلٹ پراجیکٹ' جنوری 2024ء میں بھی عالمی بڈرز (بولی دہندگان) کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔

 وفاقی حکومت نے کئی بار عالمی مارکیٹ میں 600 میگا واٹ کے اس سولر پلانٹ کے لیے پیشکشیں طلب کی ہیں جبکہ ابتدائی ٹیرف سے لے کر مراعات تک ہر معاملے پر نظرثانی کی ہے لیکن کسی بولی دہندہ نے دلچسپی ظاہر نہیں دکھائی۔

سولر انرجی کے شعبہ سے وابستہ ٹیکنیکل انجنیئرز کے مطابق مظفرگڑھ سولر پلانٹ کا منصوبہ 'مس ہینڈل' ہوا ہے ورنہ بولی نہ لگنے والی بات نہیں تھی۔

ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کے ریٹائرڈ انجنیئر عباس لاشاری کا ماننا ہے کہ بولی نہ آنے کی دو بڑی وجوہات ہوسکتی ہیں، فی یونٹ ٹیرف یا مدت معاہدہ۔

وہ کہتے ہیں کہ اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نے 3.4 سینٹ فی یونٹ ریٹ مقرر کیا جبکہ معاہدے کی مدت (بلڈ، اون، آپریٹ اینڈ ٹرانسفر) 25 سال رکھی ہے۔ اگر 3.4 سینٹ (10-11 روپے) فی یونٹ والی بات درست ہے تو یہ آفر انتہائی پرکشش ہے۔

ان کے خیال میں معاہدے کی مدت بہت زیادہ ہے کیونکہ سرمایہ کار سوچتا ہے کہ اتنے لمبے عرصے میں ملکی حالات میں سیاسی استحکام رہے گا یا نہیں؟ ان کے ذہین میں مختلف خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگر پراجیکٹ کی مدت چار پانچ  سال کر دی جائے تو ریٹ پر زیادہ فرق نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ بات شاید حکومت کو قبول نہیں ہو گی۔

تاریخ اشاعت 9 اپریل 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ندیم شاہ کاونٹر ٹیریرازم ریسرچر ہیں اور انگریزی صحافت سے وابستہ ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی۔ طالبان مدرسہ میکینزم ان کے خصوصی موضوعات ہیں۔

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.