مظفرگڑھ اور کوٹ ادو کی مشترکہ صوبائی نشست ختم ہونے سے کیا تبدیلی آئی؟ فرق کس کو پڑے گا؟

postImg

محمد عدنان مجتبیٰ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

مظفرگڑھ اور کوٹ ادو کی مشترکہ صوبائی نشست ختم ہونے سے کیا تبدیلی آئی؟ فرق کس کو پڑے گا؟

محمد عدنان مجتبیٰ

loop

انگریزی میں پڑھیں

"کوٹ ادو ضلع بنے گا تو یہاں لوگوں کو یہاں بہت فائدہ ہو گا۔" سیاست دانوں کے بتائے وہ  فوائد تو ابھی تک نظر نہیں آئے۔ البتہ ضلع مظفر گڑھ کے دو اضلاع میں تقسیم ہونے سے یہاں ایک صوبائی نشست ضرور کم ہو گئی ہے۔

پچھلی مردم شماری میں ضلع مظفرگڑھ(بشمول تحصیل کوٹ ادو) کی آبادی 43 لاکھ 32 ہزار 549 لاکھ تھی تو اس ضلعے کو قومی اسمبلی کی چھ اور صوبائی اسمبلی کی 12 نشستیں دی گئی تھیں۔

 اب نئی حلقہ بندیوں میں مظفرگڑھ کے حصے میں چار قومی اور آٹھ صوبائی حلقے آئے جبکہ کوٹ ادو کو دو قومی اور تین صوبائی حلقے ملے ہیں۔

تحلیل شدہ حلقے کے مکینوں کو تکلیف تو بہت ہے لیکن انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اعتراض کریں تو کیا؟ کیونکہ یہ حلقہ جن دو مختلف تحصیلوں کی آبادیوں پر مشتمل تھا۔ اب وہ دونوں الگ الگ ضلعے کا حصہ ہیں۔

حالیہ مردم شماری میں ضلع مظفرگڑھ(بشمول کوٹ ادو) آبادی 50 لاکھ 15 ہزار 325 گنی گئی ہے۔ نئی حلقہ بندی میں پنجاب کی نشتوں کے کوٹہ کے تحت پنجاب میں قومی اسمبلی کا حلقہ نو لاکھ پانچ ہزار 595  اور صوباتی حلقہ چار لاکھ 29 ہزار 929 کی آبادی پر مشتمل ہو گا۔ اس میں دس فیصد کی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔

 یوں اگر ضلع مظفر گڑھ بر قرار رہتا تو سابقہ نشستیں بھی برقرار رہ سکتی تھیں لیکن کوٹ ادو کو ضلعے کا درجہ ملنے سےآبادی تقسیم ہو چکی ہے۔

اب ضلع مظفر گڑھ کی آبادی 35 لاکھ 28 ہزار 567 اور ضلع کوٹ ادو کی آبادی 14 لاکھ 86 ہزار 758 بتائی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن  کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق فارمولے کے تحت نئی حلقہ بندیوں میں مظفر گڑھ کا حصہ 3.90 قومی نشستیں بنتا تھا تو چار حلقے بنا دیئے گئے۔ کوٹ ادو کا حصہ 1.64 نشستیں بنتا تھا یہاں قومی اسمبلی کے دو حلقے بنا دیئے گئے۔

اسی طرح صوبائی اسمبلی میں ضلع مظفر گڑھ کا حصہ 8.21 نشستیں بنتا ہے تو آٹھ صوبائی حلقے بنائے گئے ہیں۔ ضلع کوٹ ادو کا حصہ 3.46 نشستیں بنتا تھا تو یہاں تین حلقے بنائے گئے ہیں۔

اگر دونوں اضلاع کی آبادی کو ملا کر دیکھا جاتا تو صوبائی اسمبلی کی 11.66 نشستیں بنتی تھیں لیکن دو اضلاع بننے سے یہاں ایک سیٹ کا نقصان ہوا ہے۔ ضوابط کے تحت دو مختلف اضلاع کی آبادی پر مشتمل (ملا کر) صوبائی نشست نہیں بنائی جا سکتی۔

پہلے ضلع مظفر گڑھ(بشمول کوٹ ادو) کے صوبائی حلقے پی پی 269 سے پی پی 280 تک ہوتے تھے لیکن اب یہاں صوبائی حلقوں کے سیریل نمبر پی پی 268 سے پی پی 275 تک جاتے ہیں۔ اس کے بعد کوٹ ادو کے حلقے آ جاتے ہیں جو پی پی 276 سے 278 تک ہیں۔

سابقہ پی پی 269 (جو تحلیل کیا گیا ہے) میں تحصیل مظفر گڑھ کے قانون گوئی حلقے رنگ پور، مراد آباد اور مظفر گڑھ ون ماسوائے رکھ خان پور پٹوار سرکل، مظفرگڑھ ٹو قانون گوئی کا لعل پور پٹوار سرکل شامل تھے۔ تحصیل کوٹ ادو کے علاقے قانون گوئی واندھڑ اور چوک سرور شہید قانونگوئی کا پٹوار سرکل پتل منڈا شرقی شامل تھے۔

تحلیل شدہ سابق پی پی 269 میں شامل تحصیل  مظفر گڑھ کے قانون گوئی حلقوں رنگ پور اور مرادآباد کو اب میونسل کمیٹی مظفرگڑھ (چارج 12 اور 13)  کے ساتھ ملاکر حلقہ پی پی 268 مظفر گڑھ ون  بنا دیا گیا ہے۔ اس میں مظفر گڑھ دوئم قانونگوئی ماسوائے مبارک پور پٹوار سرکل کی آبادیاں بھی شامل کی گئی ہیں۔

اب پوری مظفر گڑھ اول قانون گوئی صوبائی حلقہ پی پی 269 (نیا)میں شامل کی گئی ہے۔ اس حلقے میں نصیرہ، کرم داد قریشی  اور مظفرگڑھ ٹو کا  مبارک پور سرکل بھی شامل کیا گیا ہے۔

ضلع مظفر گڑھ کی جنوبی تحصیلوں علی پور اور جتوئی کے صوبائی حلقوں اور قومی حلقوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔

نئی حلقہ بندی پر ضلع مظفر گڑھ سے اعتراضات پر مشتمل کل 33 درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ جن میں زیادہ تر تحصیل مظفر گڑھ کے قومی اور صوبائی حلقوں سے متعلق ہیں۔

صوبائی حلقہ پی پی 268(اس میں رنگ پور بھی شامل ہے) سے متعلق زیادہ تر اعتراضات میں اس حلقے سے شہری علاقوں اور مراد آباد قانون گوئی نکال کر دوآبہ، تلیری وغیرہ شامل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ تاہم رنگ پور والوں کی مشکلات کا حل کسی نے تجویز نہیں کیا ہے۔

ضلع مظفر گڑھ سےاعتراضات میں قابل ذکر درخواست نوابزادہ نصراللہ کے پوتے اور نوابزادہ افتخار کے صاحبزادے نوابزادہ عدنان کی طرف سے جمع کرائی گئی ہے۔ جنہوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 176 کی حد بندی کو حتمی قرار دینے کی درخواست کی ہے۔

ضلع کوٹ ادو  کی نئی حلقہ بندی

اب تحلیل شدہ (پرانا پی پی 269)حلقے میں شامل تحصیل کوٹ ادو کی آبادیوں کو  نئے پی پی 276 کوٹ ادو ون میں شامل کیا گیا ہے۔ اس حلقے میں تحصیل چوک سرور شہید کے علاوہ کوٹ ادو قانون گوئی نمبر 2 کا پٹوارسرکل شادی خاں منڈا اور سنانواں قانون گوئی کے تین پٹوار سرکلز پتی دایا چوکھا، پتی غلام علی اور پتی نائچ  کی آبادیاں شامل ہیں۔

پی پی 277 کوٹ ادو ٹو میونسپل کمیٹی سنانوں (چارج 13)، گجرات قانون گوئی، گورمانی قانون گوئی اور سنانواں قانون گوئی سوائے پٹوار سرکلز پتی دایا چوکھا، پتی غلام علی اور پتی نائچ  کی آبادیوں پر مشتمل ہو گا۔

پی پی 278 کوٹ ادو تھری میں ٹاؤن کمیٹی دائرہ دین پناہ، میونسپل کمیٹی کوٹ ادو(چارج 9، 10)، کوٹ ادو قانون گوئی نمبر 1 اور کوٹ ادو قانون گوئی نمبر 2 ماسوائے شادی خاں منڈا کے علاقے شامل ہیں۔

رنگ پور کی صوبائی نشست ختم ہونے کا نقصان

رنگ پور، تحصیل مظفرگڑھ کا وہ علاقہ ہے جو شمال میں ضلع جھنگ اور لیہ جبکہ مشرق میں دریائے چناب کے پار ضلع خانیوال  سے جا لگتا ہے۔ یہاں حلقہ( سابق پی پی 269) تحلیل ہونے سے اس علاقے کو 65 کلو میٹر دور مظفرگڑھ شہر کے صوبائی حلقے پی پی 268 میں شامل کر دیا گیا ہے۔

یوں سب سے زیادہ نقصان رنگ پور کے لگ بھگ 70 ہزار لوگوں کا ہوا ہے۔ مظفر گڑھ شہر ترقیاتی منصوبے یا فنڈز کیسے یہاں پہنچنے دے گا؟ یہ الگ سوال ہے۔ مظفر گڑھ کی حلقہ بندی پر داخل اعتراضات میں بھی ایسا کوئی حل پیش نہیں کیا گیا جس سے ان لوگوں کا اپنے نمائندے تک پہنچنے کے لیے فاصلہ کم ہو جائے۔

صحافی نوید فریاد بتاتے ہیں کہ رنگ پور کا علاقہ پہلے ہی پسماندہ تھا اب اس کو ناقابل تلافی ہوا ہے۔ ضلع مظفرگڑھ اور کوٹ ادو کو ملا کر کے صوبائی حلقے بنائے جاتے تو بہتر تھا۔ رنگ پور اور نواحی دیہات کو ملا کے الگ صوبائی حلقہ بنانا بہتر ہو گا۔

تحلیل شدہ (پرانا پی پی 269)حلقے سے سردار اظہر چانڈیہ ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں مجوزہ حلقہ بندی کا سیاسی طور پر فائدہ ہوا ہے لیکن یہاں کے لوگوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ ان کا خیال ہے کہ چوک سرور شہید کے حلقے میں ان کی برادری زیادہ ہے اس لیے انہیں نقصان نہیں ہو گا۔

نئی حلقہ بندیوں پر ضلع کوٹ ادو میں امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں کو زیادہ تحفظات حلقوں کی آبادی اور پھیلاؤ سے متعلق ہیں۔ یہاں سے اعتراضات کی کل 16 درخواستیں جمع کرائی گئی ہیں۔ جن میں علاقوں میں رد و بدل کی تجاویز دی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سابق قبائلی اضلاع سے چھ قومی نشستوں کا خاتمہ، " کرّم میں شیعہ بمقابلہ سنی انتخاب کا خوف ہے۔"

سابق سینیٹر امجد عباس قریشی کے بھائی ارشد عباس قریشی بھی اعتراضات جمع کرانے والوں میں شامل ہیں۔ ان کے اعتراضات تینوں صوبائی حلقوں کے ساتھ قومی حلقوں کی تشکیل پر بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض قانون گوئی اور پٹوار سرکلز کو  غیر متعلقہ حلقوں کے ساتھ جوڑنے سے حلقے پھیل گئے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی ہے کہ پٹوار سرکلز پتی نائچ، پتی غلام علی، دایا چوکھا اول اور شادی خاں منڈا کو  پی پی  276 سے نکال کر پی پی 277 میں شامل کیا جائے۔

اسی طرح پٹوار سرکل جھنجھن والی، بیٹ انگڑا، کھر غربی، دایا چوکھا غربی، لدھا لنگر اور لال میر کوپی پی 277 سے نکال کر پی پی 278 میں شامل کیا جائے۔

یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ پٹوار سرکلز احسان پور، ہنجرائی مستقل شرقی اور ٹبہ مستقل شرقی کو پی پی 278 سے الگ کر کے پی پی 276 میں شامل کیا جائے۔ اس طرح حلقوں کی مرکزی شہروں سے دوری کم ہو جائے گی۔

مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر احمد یار ہنجرا بتاتے ہیں کہ کوٹ ادو کے تینوں صوبائی حلقے غیر ضروری طور پر بڑے بنائے گئے ہیں۔ اس طرح وسائل کی منصفانہ تقسیم ہوگی نہ ہی لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے گی۔

پیپلز پارٹی ضلع مظفر گڑھ کے صدر ملک مظہر پہوڑ کا کہنا ہے کہ صوبائی نشست کم کرنے کی تجویز کوئی اچھا فیصلہ نہیں۔ ضلع کوٹ ادو اور ضلع مظفرگڑھ دونوں کی نشستوں میں اضافہ ضروری ہے۔

تحریک انصاف کے ضلعی جنرل سیکرٹری مہر جاوید حسن بتاتے ہیں کہ ایک صوبائی حلقہ ختم ہونے سے مظفرگڑھ کا شہری حلقہ پی پی 268 بہت زیادہ پھیل گیا ہے۔ اسی طرح کوٹ ادو کے صوبائی حلقوں پر بھی بوجھ بڑھ گیا ہے۔ منتخب نمائندگان عوامی توقعات پر کیسے پورا اتر سکیں گے ؟

تاریخ اشاعت 14 نومبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد عدنان مجتبیٰ کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ سے ہے۔ وہ مظفرگڑھ میں ایک قومی اخبار کے ڈسٹرکٹ رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.