ماضی میں دہلی اور ملتان کے درمیان جس راستے پر تجارت ہوا کرتی تھی اس کا ایک حصہ اب ملتان وہاڑی روڈ کہلاتا ہے۔ اس پر وہاڑی کی جانب سفر کرتے ہوئے دہلی کا فاصلہ بتانے والے سنگ میل نظر آتے ہیں۔
ملتان وہاڑی روڈ صوبہ پنجاب میں قومی اسمبلی کے سات حلقوں سے گزرتی ہے۔ ان میں بوریوالا سے این اے 162، ماچھیوال سے این اے 163، وہاڑی سٹی سے این اے 164، ٹبہ سلطان پور سے این اے 165، جہانیاں سے این اے 153، ملتان سے این اے 156 اور این اے 157 شامل ہیں۔
اس اہم سڑک کی تعمیر نو آخری بار16 سال قبل کی گئی تھی۔ وہاڑی میں نو کلومیٹر، گڑھا موڑ میں دو کلومیٹر اور ٹبہ سلطان پور میں ڈھائی کلومیٹر سڑک دو رویہ جبکہ باقی یک رویہ ہے۔
انجینئرز کا کہنا ہے کہ اس سڑک کی عمر 12 سال تھی۔ ان کے مطابق کارپٹ سڑک کو تقریباً ایک دہائی اور عام سڑک کو پانچ سال بعد مرمت یا تعمیرنو کی ضرورت ہوتی ہے۔
ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن وہاڑی کے صدر رانا اعجاز احمد کا کہنا ہے کہ یہ سڑک طویل عرصے سے خراب ہے جس سے گاڑیوں کی مرمت کا کام بڑھ گیا ہے۔ گڑھوں اور پتھروں کے باعث ٹائر جلدی خراب ہو جاتے ہیں۔
"ہماری گاڑیوں کے ٹائر دیگر سڑکوں پر آٹھ سے نو ماہ چلتے ہیں لیکن اس پر دو ڈھائی ماہ ہی میں انہیں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ ایک کوسٹر کے چار ٹائروں کی قیمت ایک لاکھ روپے جبکہ بس کے ٹائروں کی قیمت تین لاکھ روپے ہے۔ اس پر مسافروں کو تاخیر کا شکوہ بھی رہتا ہے۔"
ان کے مطابق جن دنوں سڑک کی حالت اچھی تھی، ڈیڑھ گھنٹے میں گاڑی وہاڑی سے ملتان پہنچ جایا کرتی تھی لیکن اب تقریباً سوا دو گھنٹے لگتے ہیں۔ کچھ گاڑیوں نے خانیوال روڈ کی طرف سے متبادل راستہ اپنا لیا ہے جس سے سفر 30 کلومیٹر بڑھ جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں "سب سے زیادہ مشکل اڈا ٹھینگی پر ہوتی ہے جہاں سڑک پانچ فٹ تک نیچے دب چکی ہے اور وقفے وقفے سے وہاں کوئی ٹرک الٹ جاتا ہے۔"
ڈسٹرکٹ ہسپتال وہاڑی کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر عرفان نیک کا کہنا ہے کہ ایسی خراب سڑک پر بالخصوص ریڑھ کی ہڈی، جسم کی دیگر ہڈیوں، سر، آرٹیریل انجری اور ویسکولر سرجری کے مریضوں کے لیے سفر انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جو مریض وینٹی لیٹر پر ہو اسے بھی خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ریسکیو 1122 کے شفٹ انچارج محمد اعجاز خان نے بتایا کہ ملتان روڈ بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس لیے یہاں حادثات کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد عظیم جٹ کے مطابق یکم جنوری 2019ء سے 30 ستمبر 2023ء تک ملتان روڈ پر پانچ ہزار 208 حادثات پیش آئے جن میں سے 13 بڑے تھے۔ ان حادثات میں پانچ ہزار 796 افراد زخمی ہوئے اور 74 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ان میں تین ہزار 150 گاڑیوں اور سات ہزار 234 موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچا۔
2021ء میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سڑک کی تعمیرنو کا منصوبہ طے پایا لیکن چند ماہ کی تاخیر سے اخراجات کا تخمینہ بڑھ گیا اور منصوبہ ادھورا رہ گیا۔
پنجاب کے پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ نے اس مقصد کے لیے حال ہی میں ساڑھے چار ارب روپے کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس کے مطابق ٹبہ سلطان پور تک ضلع وہاڑی کے حصے میں آنے والی 60 کلومیٹر سڑک پر ایک ارب 70 کروڑ روپے لاگت آئے گی جبکہ سلطان پور سے وہاڑی چوک تک ضلع ملتان کے حصے میں آنے والے 30 کلومیٹر کی تعمیرنو دو ارب 80 کروڑ روپے میں ہو گی۔ ضلع ملتان میں سڑک دو رویہ بنانے کے لیے اطراف کی اراضی خریدنے کی ضرورت نے لاگت کا تخمینہ بڑھا دیا ہے۔ تمام سڑک دو رویہ اور 120 فٹ چوڑی ہو گی۔
محکمہ ہائی وے وہاڑی کے مطابق اعلیٰ حکام کو سڑک کی جامع مرمت اور نئی تعمیر کے لیے بھیجا جانے والا ساڑھے چار ارب روپے کا تخمینہ ابھی منظور نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں
6 ہزار حادثات، 680 ہلاکتیں، میانوالی تا مظفرگڑھ روڈ ڈیڑھ سال میں 'خونی سڑک' کیسے بنی؟
سابق ممبر صوبائی اسمبلی میاں ثاقب خورشید کہتے ہیں کہ ماضی میں مقامی ممبر قومی اسمبلی طاہر اقبال چوہدری نے عوام کو بہلانے کے لیے سڑک کا تین مرتبہ افتتاح کرایا۔ پہلے عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس سے اس کا افتتاح کیا۔ اس کے بعد سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی افتتاح کیا، لیکن سڑک نہ بن سکی۔
اس حلقے سے پاکستان تحریک انصاف کے طاہر اقبال چوہدری ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے لیکن نو مئی کے واقعات کے بعد وہ مسلسل روپوش ہیں لہٰذا ان کا مؤقف نہ لیا جا سکا۔
ڈپٹی کمشنر وہاڑی سید آصف حسین شاہ کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت سڑک جلد از جلد تعمیر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دو سال قبل پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ایک کمپنی کے ساتھ سڑک بنانے کا معاہدہ طے پا گیا تھا لیکن میٹریل کی قیمتیں بڑھنے سے معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔اب تخمینہ پنجاب حکومت کو بھیج دیا گیا ہے، جوں ہی احکامات جاری ہوں گے کام شروع کروا دیا جائے گا۔
تاریخ اشاعت 2 نومبر 2023