پتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو: اپر دیر میں پہاڑ کاٹنے کا کاروبار 'قدرتی ماحول اور انسانی صحت کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے'۔

postImg

سید زاہد جان

postImg

پتھرو آج مرے سر پہ برستے کیوں ہو: اپر دیر میں پہاڑ کاٹنے کا کاروبار 'قدرتی ماحول اور انسانی صحت کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے'۔

سید زاہد جان

گُل افضل پچھلے پانچ سال سے کمر درد میں مبتلا ہیں۔ بیماری سے پہلے وہ تجارتی سامان کی باربرداری کیا کرتے تھے لیکن مسلسل بھاری بوجھ اٹھانے سے ان کی صحت متاثر ہونے لگی تو انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا اور کوئی ایسا ذریعہ روزگار ڈھونڈنے لگے جس کی مدد سے وہ سات افراد پر مشتمل اپنے کنبے کی کفالت گھر بیٹھے کر سکیں۔

دو سال پہلے ایسا ہی ایک موقع اس وقت ان کے ہاتھ آیا جب ایک سرمایہ کار نے ان سے رابطہ کر کے کہا کہ وہ ان کے گھر کے ساتھ واقع ان کی ملکیتی پہاڑی ٹھیکے پر لے کر اس سے پتھر نکالنا چاہتا ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس عمل کے نتیجے میں ان کے گھر کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ تنگدستی سے مجبور ہو کر انہوں نے ہاں کر دی۔ 

اب انہیں ہر وقت یہی خدشہ رہتا ہے کہ پتھر نکالنے کے دوران اپنی جگہ سے ہل جانے والے پہاڑی تودے کہیں ان کے گھر پر نہ آ گریں۔ مزیدبرآں پتھریلی چٹانوں کو کاٹنے کے لیے کیے جانے والے دھماکوں اور کھدائی کی وجہ سے ان کا گھر ہر وقت لرزتا رہتا ہے جبکہ اس دوران اڑنے والی دھول سے ان کے گھرانے کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ 

خیبرپختونخوا کے شمالی ضلع اپردیر کے صدرمقام دیر سے چار کلومیٹر مشرق میں واقع ایک گاؤں میں رہنے والے 59 سالہ گل افضل اکیلے اس صورت حال کا سامنا نہیں کر رہے۔ ان کے پڑوس میں کئی اور زمین مالکان نے بھی انہی کی طرح اپنی ملکیتی پہاڑیاں پتھروں کی کان کنی کے لیے ٹھیکے پر دے رکھی ہیں۔

ایک مقامی سماجی کارکن ارشد خان کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس علاقے میں کافی عرصے سے یہ کان کنی کی جا رہی ہے لیکن "پچھلی ایک دہائی میں یہ کام پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے مقامی قدرتی حسن ختم ہو رہا ہے اور مقامی ماحول کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے"۔ اس نقصان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ خوگو اوبہ چینہ، محبتئی چشمہ اور تھانہ چشمہ جیسے پانی کے قدیم مقامی چشمے خشک ہوتے جا رہے ہیں اور پہاڑوں میں بسنے والے جانوروں کی قدرتی چراگاہیں، پرندوں کے ٹھکانے اور جنگلی حیات کی خوراک ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ 

اپر دِیر میں متعین خیبرپختونخوا کے محکمہ جنگلی حیات کے سب ڈویژنل آفیسر نور محمد ان سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے 25 سال میں جنگلوں اور پہاڑوں کو اندھا دھند کاٹا گیا ہے جس کے نتیجے میں اس ضلعے میں جنگلی حیات کی موجودگی پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق ماضی میں اپردِیر کے بالائی علاقوں میں مارخور، چیتا، بھیڑیا، گیدڑ، بندر، ریچھ، لومڑی، خرگوش اور دیگر جانور عام ملتے تھے لیکن یہ سب "اب ناپید ہوتے جا رہے ہیں"۔ اسی طرح ان علاقوں میں "مرغ زرین، چکور، رام چکور، مور، مونال اور مینا جیسے پرندے بھی پائے جاتے تھے جو اب کہیں دکھائی نہیں دیتے"۔

پہاڑوں سے پتھر نکالنے کے عمل کے دوران پیدا ہونے والی دھول سے مقامی باسیوں کی صحت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور ان میں سانس اور پھیپھڑے کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ اپردیر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر امتیاز احمد ان بیماریوں میں اضافے کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنوری 2019 سے اگست 2022 تک ان کے ہسپتال میں سانس کی نالی سے متعلقہ بیماریوں میں مبتلا 57 ہزار پانچ سو نو مریض لائے گئے جبکہ اسی عرصے میں دمے کے تین ہزار دو سو 94 مریض اور پھیپھڑوں کی مختلف بیماریوں کا شکار پانچ سو 21 مریض بھی وہاں معائنے اور علاج کے لیے آئے۔

اگرچہ ان کے پاس ایسے اعدادوشمار موجود نہیں جن کی مدد سے اس صورت حال کا موازنہ ماضی سے کیا جا سکے تاہم وہ کہتے ہیں کہ "یہ ایک غیرمعمولی تعداد ہے"۔ 

اپردیر کے علاقے قولنڈی میں پتھروں کی کان کنی سے منسلک 34 سالہ نصیر اللہ خان بھی کہتے ہیں کہ ان کے کام کے نتیجے میں شدید ماحولیاتی آلودگی پیدا ہو رہی ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے اس کاروبار پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی کیونکہ، ان کے مطابق، "درجنوں ٹھیکیداروں اور ہزاروں مزدوروں کی روزی روٹی اس سے جڑی ہوئی ہے"۔ 

کاغذی قواعد، غیر موثر سزائیں

لوئردیر اور اپردِیر کے جڑواں اضلاع میں پتھروں کی کان کنی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے بجائے روایتی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں پتھریلی چٹانوں کو بارودی دھماکوں کے ذریعے توڑا جاتا ہے اور پھر ٹوٹی ہوئی چٹانوں کو کھدائی کرنے والی مشینوں کے ذریعے اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں بعض اوقات پورے پورے پہاڑ اپنی جگہ سے کھسک جاتے ہیں جس سے ان کے قریب واقع آبادیوں پر تودے گرنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

اس امکان کی روک تھام کے لیے خیبرپختونخوا کے صوبائی قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پہاڑوں کے صرف انہی حصوں کو توڑا جا سکتا ہے جو سڑکوں اور انسانی آبادیوں سے دور ہوں۔ اس قانون میں پتھر توڑنے والے کارخانوں پر یہ بھی لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اس عمل کے دوران خارج ہونے والی دھول کو فضا میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے اپنی تمام سرگرمیاں سبز رنگ کے پردے کے پیچھے انجام دیں گے۔ لیکن اپردِیر کے علاقے کوٹکے سے تعلق رکھنے والے 37 سالہ سماجی کارکن اسرار یوسفزئی کہتے ہیں کہ "ان قواعدوضوابط پر شاذ ہی کوئی عمل کرتا ہے"۔

اگرچہ اپردِیر میں متعین اسسٹنٹ کمشنر سکندر خان ان کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ اور خیبرپختونخوا کا محکمہ معدنیات ایسے لوگوں کے خلاف وقتاً فوقتاً کارروائی کرتے رہتے ہیں جو ان قواعدوضوابط کی خلاف ورزی میں ملوث پائے جاتے ہیں لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کارروائی زیادہ موثر نہیں ہوتی۔ ان کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو "زیادہ سے زیادہ تین ماہ قید اور دس ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے جو انہیں اس کام سے باز رکھنے کے لیے بہت ناکافی ہے"۔

تاریخ اشاعت 24 اکتوبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سید زاہد جان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر سے ہے اور وہ گزشتہ باٸیس سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.