حیدر آباد کے گیارہ سالہ راشد میمن گورنمنٹ ہائی سکول قاسم آباد میں ساتویں جماعت کے طالب علم ہیں لیکن ان کے پاس نصاب کی کتابیں نہیں ہیں۔ ان جیسے کئی طلبہ کتابوں کے بغیر سکول آتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے۔ جب وہ اساتذہ سے کتابیں مانگتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے کہ ابھی کتابیں نہیں آئیں جب آئیں گی تو سب کو مل جائیں گے۔
راشد کے والد رضوان میمن ایک ہوٹل پر کام کرتے ہیں جنہیں نو سو روپے دیہاڑی ملتی ہے۔ اس میں ان کے پانچ افراد پر مشتمل کنبے کی روٹی مشکل سے پوری ہو تی ہے۔ ساتویں جماعت کی کتابیں بازار سے اہک ہزار 784 روپے میں ملتی ہیں اور کاپیوں کے نو سو روپے الگ ہیں۔ اس لیے راشد کے والد بھی اس معاملے میں ان کی مدد نہیں کر سکتے۔
امینہ میربحر ٹنڈو جام کےگرلز ہائی سکول میں آٹھویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ انہیں بھی سکول سے کتابیں نہ ملنے کی شکایت ہے۔
کتابیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ سکول کا کام بھی پورا نہیں کر پاتیں ۔سکول انتظامیہ نے انہیں کچھ نہیں بتایا کہ کتابیں کب آئیں گے۔ اس لیے انہوں نے اپنے والد سےکتابیں بازار سے خرید کر لانے کو کہا ہے۔
موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہوئے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ بچے روزانہ صبح سکول بھی جاتے ہیں مگر سندھ میں سرکاری سکولوں کے اکثر بچوں کے بستے خالی ہوتے ہیں۔اس صورتحال سے صرف بچے ہی نہیں ان کے والدین اور اساتذہ بھی پریشان ہیں۔
کئی سال سے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ ہر سال سرکاری سکولوں کے لیے کتابوں کی مطلوبہ تعداد فراہم کرتا آیا ہے۔مگر اس مرتبہ بچوں کی بڑی تعداد اب تک کتابوں سے محروم ہے۔
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ 1971ءسے جام شورو میں کام کر رہا ہے۔ اس کے پہلے چیئرمین ڈاکٹر نبی بخش قاضی تھے۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد پہلی سے بارہویں جماعت تک کی نصابی کتب شائع کرنا ہے۔
گورنمنٹ سیکنڈری ٹیچرز ایسوسی ایشن (گسٹا) حیدرآباد ڈویژن کے رہنما محمود چوہان بتاتے ہیں کہ ٹیکسٹ بورڈ کی ذمہ داری ہی سکولوں کو بروقت درسی کتابیں فراہم کرنا ہے۔لیکن اس مرتبہ سرکاری سکولوں کو صرف 25 فیصد کتابیں مہیا کی گئی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مارچ میں تعلیمی سیشن ختم ہوتا ہے۔ لیکن تاحال بچوں کی بڑی تعداد کو کتابیں فراہم نہیں کی جا سکیں۔ اگرچہ محکمہ تعلیم کی ویب سائٹ پر تمام کتابوں کی پی ڈی ایف موجود ہیں لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چند روز میں گسٹا کا اجلاس ہو رہا ہے۔اجلاس کے بعد بورڈ انتظامیہ سے بات کریں گے۔ اگر کتابوں کی فراہمی یقینی نہ بنائی گئی تو احتجاج کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔
سندھ میں بچوں کے مفت اور لازمی تعلیم کے حق سے متعلق قانون 2013 ءکے تحت پانچ سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی۔ کوئی بھی بچہ سکول میں کسی قسم کی فیس یا اخراجات ادا نہیں کرے گا۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد پہلی بار سندھ کےسکولوں میں مفت کتابیں دینے کا فیصلہ ہوا تھا، ابتدا میں طالبات کو پانچویں تک مفت کتابیں فراہم کی گئیں۔ بعدازاں تمام بچوں کو دسویں جماعت تک مفت فراہمی شروع کر دی گئی۔
2021ء کی 'پاک الائنس فار میتھس اینڈ سائنس ' کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں پہلے ہی پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے 44 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔ لگ بھگ 65 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ایسے میں کتابوں کا نہ ملنا مزید مسائل پیدا کر رہا ہے۔
صدام جروار ڈگھڑی ضلع میرپور خاص میں پرائمری سکول کے استاد ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کے سکول میں چار سو بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے صرف سو بچوں کو ہی کتابیں ملی ہیں باقی انتظار کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اساتذہ نے بعض بچوں کو کتابیں مارکیٹ سے خرید کر دی ہیں۔ مگر سبھی کو اس طرح کتابوں کی فراہمی ممکن نہیں۔ سکول کے پاس تاحال سائنس اور جنرل نالج کی کتابیں نہیں ہیں۔
سندھ میں 36 ہزار سے زیادہ پرائمری اور چار ہزار پوسٹ پرائمری سکول قائم ہیں۔ان میں ہائر سیکنڈری سکول بھی شامل ہیں۔ محکمہ تعلیم سندھ کے ٹیکسٹ بک بورڈ ساڑھے 41 لاکھ سے زیادہ بچوں کے لیے کتابیں چھاپنے کا انتظام کرتا ہے۔ یہ کتب 40 ہزار 635 سکولوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔
ٹیکسٹ بک بورڈ کے پاس اتنی بڑی تعداد میں کتابیں چھاپنے کے لیے وسائل ہیں اور نہ ہی افرادی قوت۔ اسی لیےکتابوں کی چھپائی کے لیے بورڈ ٹینڈر دیتا ہے اور مارکیٹ سے یہ کام کرا لیا جاتا ہے۔ بورڈ کی اجازت سے نجی سکولوں کی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے۔
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کتابوں کی عدم فراہمی کا ذمہ دار محکمہ تعلیم کو سمجھتا ہے۔ بورڈ کے چیئرمین آغا سہیل بتاتے ہیں کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کو41 لاکھ 60 ہزار بچوں کے لیے کتابیں چھاپنےکا ٹارگٹ ملا تھا جو پورا کر دیا گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بورڈ نے جولائی کے آخر تک نصابی کتب ویئر ہاؤس پہنچا دی تھیں۔ ان کی تقسیم محکمہ تعلیم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔کتابوں کی قلت نہیں ہے بلکہ ان کی تقسیم بہتر طریقے سے نہیں ہو پا رہی۔
یہ بھی پڑھیں
''کتابیں دی جائیں ہمیں پڑھنا ہے''، آواران میں سکول کے بچوں کا احتجاج
محکمہ تعلیم کے حکام کتابوں کی تقسیم کے معاملے پر چیئرمین ٹیکسٹ بورڈ سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہےکہ مطلوبہ تعداد سے کہیں کم کتابیں چھاپی گئی ہیں۔
سابق سیکرٹری تعلیم اکبر لغاری اور محکمہ تعلیم کے نصابی شعبے کی مشیر فوزیہ خان نے اس معاملے پر اپنا موقف دینے سے انکار کر دیا جبکہ صوبے کے نگران وزیر تعیلم نے بھی اس معاملے بات کرنے سے گریز کیا۔
تاہم ڈائریکٹر ایجوکیشن حیدرآباد ریجن احمد دین میرانی دعویٰ کرتے ہیں کہ سکولوں میں بچوں کے تعداد بڑھ گئی ہے۔رواں سال بچوں کے داخلے میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس لیےکتابوں کی کمی کا سامنا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسروں کی ایک کمیٹی نے تمام ویئر ہاؤسز کا جائزہ لیا ہے۔کسی ویئر ہاؤس میں کتابیں نہیں ہیں۔ ڈی ای اوز نے بورڈ کو مراسلہ لکھ دیا ہے۔ امید ہے کتابوں کی کمی جلد دور ہو جائے گی۔
حیدرآباد کے ایک پبلشر ساجد سندھی کا ماننا ہے کہ کاغذ کی بڑھتی قیمت کتابوں کی چھپائی پر اثرانداز ہوئی ہے۔ گزشتہ سال ایک ریم کاغذ 1300 روپے کا تھا۔ اب اس کی قیمت ساڑھے تین ہزار روپے ہوگئی ہے۔ زیادہ تعداد میں کتابیں چھاپنے کے لیے اداروں کو بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے۔
تاریخ اشاعت 14 ستمبر 2023