کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لگائے جانے والے احتجاجی کیمپ کو پانچ ہزار دن مکمل ہو گئے ہیں۔ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے یہ کیمپ اکتوبر 2009 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کیمپ کی صورت میں ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں لاپتہ افراد کی بازیابی ہوئی یا نہیں البتہ اس عرصہ میں مزید بہت سے لوگوں کے لاپتہ ہونے کی شکایات ضرور سامنے آئی ہیں۔
یہ کیمپ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نامی تنظیم نے قائم کیا تھا جس کے سرکردہ رہنما ماما قدیر بلوچ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ طویل اور صبر آزما جدوجہد، تکالیف اور دھمکیوں کے باوجود انہوں ںے مستقل مزاجی کے ساتھ یہ دن گزارے ہیں۔
''لاپتہ افراد کے مسئلے پر حکومت نے بہت سے کمیشن، کمیٹیاں اور جے آئی ٹیز بنائیں لیکن ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوا اور لوگوں کی گمشدگیاں بدستور جاری ہیں۔''
ضلع آواران کی تحصیل مشکئے سے تعلق رکھنے والے علی حیدر بلوچ بتاتے ہیں کہ ان کے والد رمضان بلوچ پیشے کے لحاظ سے دھوبی ہیں جنہیں 25 جولائی 2010 کو مشکئے سے گوادر جاتے ہوئے اتھل زیرو پوائنٹ سے اغوا کر لیا گیا تھا۔
علی حیدر ماما قدیر، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، لاپتہ ذاکر مجید کی بہن فرزانہ مجید و دیگر کے ساتھ کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک احتجاجی لانگ مارچ میں بھی شامل تھے۔
"جب ہم اسلام آباد پہنچے تو حکام کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ آپ واپس جائیں اور اس وقت تک آپ کے رشتہ دار گھروں کو پہنچ جائیں گے۔ اس وقت میری عمر 10 برس تھی اور اب میں 18 سال کا ہو چکا ہوں لیکن میرے والد ابھی تک گھر نہیں پہنچے۔''
2005ء میں سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے مسئلے پر سو موٹو نوٹس لیا۔ 2010ء تک اس حوالے سے متعدد شواہد سامنے آنے کے بعد 2011 میں عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ وہ ان شواہد کی روشنی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کارروائی کرے۔ حکومت نے اس معاملے پر کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا جس نے جلد از جلد شواہد جمع کر کے تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ پیش کرنا تھی۔
وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ سمجھتے ہیں کہ اس کمیشن نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔
''اس کمیشن کی وجہ سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دائر مقدمات مفلوج ہو گئے کیونکہ ان تمام کیسوں کو کمیشن کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ اب عدالتیں اس مسئلے پر کارروائی نہیں کرتیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہیں۔''
اِس نمائندے نے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں بنائے گئے اس کمیشن کے ارکان سے رابطہ کرنے اور ان کا موقف جاننے کی متعدد کوششیں کیں لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
نصر اللہ بلوچ نے بتایا کہ صوبائی سطح پر وزیر داخلہ کی سربراہی میں 2012 سے ایک ٹاسک فورس بھی اس مسئلے پر کام کر رہی ہے لیکن اس کا خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا۔
نصراللہ مبینہ طور پر لاپتہ علی اصغر بنگلزئی کے بھتیجے ہیں جو پہلی مرتبہ جون 2000ء میں لاپتہ ہوئے اور 14 روز بعد گھر واپس آ گئے تھے۔ ان کے خاندان نے انہیں جبراً اغوا کیے جانے کا الزام عائد کرتے ہوئے مقدمہ بھی دائر کیا تھا جو گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے پہلا مقدمہ سمجھا جاتا ہے۔ اکتوبر 2001ء کو انہیں محمد اقبال نامی شخص کے ساتھ سریاب روڈ ڈگری کالج کے سامنے دوبارہ اغوا کر لیا گیا۔ اقبال چوبیس روز بعد واپس آ گئے جبکہ علی اصغر تاحال لاپتہ ہیں۔
نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی گمشدگی کے حوالے سے ایف آئی آر کا اندراج وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی کوششوں سے ہی ممکن ہوا۔ اس تنظیم نے 2010 میں سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ جس تھانے کی حدود میں کوئی شخص لاپتہ ہو تو وہاں کا ایس ایچ او لواحقین کی منشا کے مطابق مقدمہ درجے کرنے کا پابند ہو۔
یہ بھی پڑھیں
ریاست کے ناقدین اور حکومت کے مخالفین کی جبری گمشدگیاں: کِس کھوج میں ہے تیغِ سِتم گر لگی ہوئی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی موجودہ حکومت نے بھی لاپتہ افراد کے مسئلے پر گزشتہ سال مئی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ اس کے ارکان نے 8 ستمبر 2022کو کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ مذاکرات کئے اور یقین دہانی کرائی تھی کہ "کمیٹی ان لوگوں کی تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے لاپتہ افراد کے مسئلے کا حل تجویز کرے گی۔" لیکن تاحال اس کی کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ کمیٹی کے سربراہ اعظم نذیر تارڑ اب مستعفی ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ نئے سربراہ کی تقرری بھی نہیں ہو سکی۔
اس کے علاوہ لاپتہ افراد کی بازیابی اور ان لوگوں کے لواحقین کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ نے بھی ایک کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا لیکن اس پر ابھی تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس کمیشن کے سربراہ اور صوبائی سیکرٹری داخلہ میر ضیا لانگو نے لوک سجاگ کو بتایا کہ کمیشن کی ایک میٹنگ ہو چکی ہے اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے بریفنگ بھی لے لی گئی ہے۔ معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے کمیشن کا اجلاس جلد بلایا جائے گا۔
ضیا لانگو کے مطابق اس کمیشن کی پاس دو ٹرمز اینڈ کنڈیشنز (ٹی او آرز) ہیں جن میں "لاپتہ افراد کے لواحقین کو قانونی چارہ جوئی میں سہولیات فراہم کرنا اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کے معاملے کو دیکھنا'' شامل ہیں۔ تاہم کمیشن کو لاپتہ افراد کی تلاش کا اختیار نہیں دیا گیا۔
تاریخ اشاعت 15 اپریل 2023