جولائی 2014 کو راولپنڈی میں جب زاہد امین کو ان کے گھر سے اٹھایا گیا تو ان کی عمر 22 سال تھی۔ اس وقت ان کی شادی کو محض 15 ماہ ہی ہوئے تھے اور ان دنوں وہ ڈیجیٹل ڈیزائن میں ڈپلومہ کر رہے تھے۔
ان کے بڑے بھائی سلطان محمود جو ریٹائر سرکاری ملازم ہیں، اس واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''رات 9 بجے چند نامعلوم افراد نے ان کے دروازے پر دستک دی اور زاہد کے بارے میں پوچھا۔ جب وہ ان سے ملنے کے لیے گھر سے باہر آیا تو ان لوگوں نے اسے دبوچ لیا۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے اور وہ زاہد سے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ زاہد کو تین سے چار روز تک گھر واپس بھیج دیا جائے گا''۔
تاہم اب آٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود زاہد واپس نہیں آیا۔
زاہد کے اہلخانہ عدالتوں اور جبری لاپتہ افراد کے بارے میں انکوائری کمیشن سے رجوع کرنے سمیت ان کی واپسی کے لیے ہرممکن کوشش کر چکے ہیں۔ اس کمیشن نے 14 ستمبر 2020 کو حکم دیا تھا کہ زاہد کو بازیاب کرا کے پیش کیا جائے تاہم ان کے بھائی محمود کا کہنا ہے کہ ''کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے ہمیں زاہد سے ملاقات کی اجازت نہ دی''۔ محمود کے مطابق ''چیئرمین نے ہمیں صرف یہی بتایا کہ آپ کا بھائی خیریت سے ہے اور اس سے ملاقات ممکن نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اسے دور دراز علاقے کے ایک کیمپ میں رکھا گیا ہے''۔
محمود کہتے ہیں کہ ''ہمیں یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ زاہد واپس آ جائے گا لیکن اس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ لیکن اس یقین دہانی سے برعکس زاہد کو واپس لانے کی کوشش میں ان کے دوسرے بھائی بھی لاپتہ ہو گئے ہیں۔
محمود اپنے دوسرے بھائی کی گمشدگی کے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''2020 میں چند لوگوں نے صادق سے رابطہ کیا اور انہیں زاہد کی بازیابی میں مدد دینے کی پیشکش کی جس کے بعد وہ کئی مرتبہ ان سے لوگوں سے ملتے رہے۔ 9 مارچ 2021 کو سیاہ وردیوں میں ملبوس چند مسلح لوگ ہمارے گھر کی دیوار پھاند کر اندر آ گئے اور صادق کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے''۔
ان کے خاندان نے صادق کی بازیابی کے لیے بھی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ جبری لاپتہ افراد کے بارے میں انکوائری کمیشن نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیا لیکن محمود کا کہنا ہے کہ ''اب تک اس معاملے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور ان کے دوسرے بھائی بھی بدستور لاپتہ ہیں''۔
42 سالہ محمد یاسین اور ان کے اہلخانہ کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہو چکا ہے۔
وہ ایک مدرسہ چلاتے ہیں اور 2015 میں جب انہیں خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد میں اپنے آبائی علاقے ایوبیہ سے گرفتار کیا گیا تو وہ ایک مسجد کی تعمیر کے لیے عطیات جمع کر رہے تھے۔ ان کے بھائی منیر حسین کا کہنا ہے کہ ''یاسین کو ایک لاکھ روپے عطیے کا چیک ملا لیکن اسے کیش کرانے سے پہلے ہی انہیں لاپتہ کر دیا گیا''۔ منیر ایوبیہ میں ترکھان کے طور پر کام کرتے ہیں اور اب اپنے لاپتہ بھائی کے گھرانے کا بوجھ بھی اب انہی کے کندھوں پر آ پڑا ہے۔
منیر کہتے ہیں کہ بھائی کے لاپتہ ہونے کے بعد انہوں ںے ایک لاکھ روپے کا چیک کا عطیہ دینے والے شخص سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ آیا وہ ان کے بھائی کی گمشدگی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ عطیہ دہندہ کا کہنا تھا کہ انہیں اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں تاہم وہ تصدیق کرتے ہیں کہ انہیں انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے فون پر یہ عطیہ دینے کے لیے کہا جا رہا تھا۔
منیرحسین نے یاسین کو لاپتہ کیے جانےکے خلاف مقامی پولیس سٹیشن میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) جمع کرائی تھی۔ انہوں ںے اپنے بھائی کو بازیاب کرانے کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں بھی دیں۔ تاہم اس کے باجود، ان کا کہنا ہے کہ جبری لاپتہ افراد کے بارے میں انکوائری کمیشن میں اس معاملے پر کئی سال سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
یاسین کی بیوی اور تین بیٹیاں ان کی راہ دیکھ رہی ہیں جن میں سب سے چھوٹی ان کے لاپتہ ہونے کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ منیر کہتے ہیں کہ ''بھائی کی گمشدگی کے بعد ان کا خاندان مسلسل کرب کی کیفیت سے گزر رہا ہے جب کسی کا کوئی قریبی شخص وفات پائے جائے و لواحقین کو اسے دفن کر کے کچھ عرصہ بعد صبر آ جاتا ہے۔ لیکن جب کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ زندہ ہے یا نہیں تو اس کے اہلخانہ ہر وقت دکھ کی کیفیت میں اس کے منتظر رہتے ہیں''۔
قانون بمقابلہ آئین
14 دسمبر 1971 کو اس وقت مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں صلاح الدین قیصر نامی 44 سالہ بنگالی صحافی کو نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا۔ آج 50 سال بعد بھی کوئی نہیں جانتا کہ اغوا کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ نہ تو کسی حراستی کیمپ میں پائے گئے اور نہ ہی ان کی لاش ان لوگوں میں ملی جو اس وقت مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے دوران مارے گئے تھے۔
بہت سے مورخین نے بتایا ہے کہ اس ہنگامہ خیز دور میں پاکستان میں لوگوں کے اس طرح لاپتہ ہونے کے واقعات عام تھے۔ 1967 اور 1971 کے درمیان مشرقی و مغربی پاکستان میں ہزاروں سیاسی منحرفین لاپتہ ہوئے۔ ان میں کئی لوگ بعد میں واپس آ گئے اور بعض کی لاشیں ہی ملیں۔ ان میں قیصر جیسے بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جنہیں زندہ یا مردہ حالت میں کسی نے نہیں دیکھا۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے وکیل اور فوج کے سابق کرنل انعام الرحیم کے مطابق زیادہ تر واقعات ایسے تھے جن میں ان لوگوں کو پاکستان آرمی ایکٹ کے دفعہ 2(1) (ڈی) کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔ اس قانون میں 1967 میں جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں ترمیم کی گئی تھی جس کے بعد متذکرہ بالا دفعہ کے ذریعے فوج کو عام شہریوں کا کورٹ مارشل کرنے کا اختیار مل گیا جو فوج کو پہلے کبھی حاصل نہیں تھا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے وکیل اسد جمال کہتے ہیں کہ اس ترمیم کے بعد فوج ملکی دفاع اور سلامتی کے خلاف جرائم بشمول بغاوت پر اکسانے اور سرکاری راز افشا کرنے جیسے اقدامات پر عام شہریوں کا کورٹ مارشل بھی کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قانون کی یہ دفعہ اب بھی اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
اس سے کئی سال کے بعد جنرل ضیاالحق کی فوجی حکومت نے اسی دفعہ کے تحت عام شہریوں کو کوڑے مارنے کے لیے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔ 1985 میں انہوں ںے اس دفعہ میں ایک ترمیم کی جس سے فوج کے سربرہا کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ کسی شہری کو اس کے کورٹ مارشل سے متعلق دستاویزات تک رسائی سے روک سکتا ہے۔ جمال کے مطابق اس قانون کی یہ دفعات اب ختم ہو چکی ہیں۔
2007 میں جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے بھی ایک آرڈیننس کے ذریعے اس دفعہ میں ترمیم کی اور اس میں ایسے جرائم کی تعداد بڑھا دی جن کا ارتکاب کرنے والے شہریوں کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا تھا۔ ان جرائم میں غداری، بغاوت اور لوگوں کو فساد پر اکسانے والے بیانات دینا شامل ہیں۔ موخرالذکر جرم کے حوالے سے قانونی ترمیم کے بعد فوج کو ہر ایسے شخص کا کورٹ مارشل کرنے کا اختیار مل گیا جس کے بیانات کو وہ امن عامہ کے لیے خطرہ سمجھتی ہو۔ اس آرڈیننس سے فوج کو یہ اختیار بھی مل گیا کہ وہ ملزم کو وکیل کی خدمات حاصل کرنے سے روک سکتی ہے، کسی خفیہ مقام پر کورٹ مارشل کی کارروائی کر سکتی ہے اور اس کارروائی کو خفیہ رکھ سکتی ہے۔ جمال کے مطابق یہ ترامیم بھی وقت کے ساتھ ختم ہو چکی ہیں۔
2007 میں مشرف نے 'لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973' میں بھی ترمیم کی جس کا مقصد حکومت کو اپنے اقدامات کی مخالفت کرنے والے کسی وکیل کی بار کی رکنیت ختم کرنے کا اختیار دینا تھا۔ رحیم کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی لاپتہ شخص کی نمائندگی کرنے پر ہی کسی وکیل کا لائسنس منسوخ ہو سکتا تھا۔ قانون میں کی جانے والی یہ تبدیلی بھی اب باقی نہیں رہی۔
اسی طرح گزشتہ حکومت نے بھی پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 512، 513 اور 514 میں تین ترامیم کرنے کی کوشش کی۔ ان میں پہلی دو ترامیم کا تعلق اس رپورٹ سے نہیں ہے البتہ تیسری ترمیم یہ کہتی ہے کہ عدالت میں جھوٹی شکایت درج کرانے یا غلط معلومات فراہم کرنے والے کو پانچ سال قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ قومی اسمبلی نے 8 نومبر 2021 کو ان ترامیم کی منظوری کے لیے یہ بل منظور کیا۔ تاہم اسے سینیٹ سے تاحال منظوری نہیں مل سکی۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ کہتی ہیں کہ اگر اور جب کبھی ایسا ہو تو لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے لیے اس ڈر سے شکایت درج کرانا بھی مشکل ہو گا کہ مبادا اسے جھوٹا قرار نہ دے دیا جائے۔ آمنہ مسعود کے شوہر مسعود احمد جنجوعہ 2005 سے لاپتہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ریاست کے ناقدین اور حکومت کے مخالفین کی جبری گمشدگیاں: کِس کھوج میں ہے تیغِ سِتم گر لگی ہوئی۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ان جیسے لوگ متذکرہ بالا تمام قوانین پر متواتر تنقید کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قوانین منصفانہ قانونی کارروائی اور غیرقانونی حراست کے خلاف دی گئی آئینی ضمانت کی نفی کرتے ہیں۔ تاہم آمنہ کہتی ہیں کہ ''غیرمنصفانہ قانونی کارروائی لاپتہ افراد اور ان کے اہلخانہ کو درپیش واحد مسئلہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کو کسی الزام کے بغیر حراست میں رکھا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے اہلخانہ کو بھی یہ کبھی نہیں بتایا جاتا کہ انہوں ںے کون سا جرم کیا ہے''۔
محمود اپنے دو بھائیوں کی گمشدگی کی بات کرتے ہوئے یہی شکایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''اگر انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو انہیں عدالت میں لایا جاتا، ان کے خلاف ثبوت پیش کیے جاتے اور پھر انہیں قانون کے مطابق سزا دی جاتی تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوتا''۔
کمیشن برائے اخفا؟
بہت سے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی جانب سے عدالتوں میں وکیل کی حیثیت سے پیش ہونے والے انعام الرحیم الزام عائد کرتے ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر انکوائری کمیشن نے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی مشکلات اور بھی بڑھا دی ہیں۔ درحقیقت یہ ''(فوجی) اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اس مسئلے کو چھپانے کی کوشش ہے''۔
مارچ 2011 میں سپریم کورٹ کے احکامات پر قائم ہونے والا یہ کمیشن لاپتہ افراد کے اہلخانہ کی شکایات کو وصول کرتا اور ان پر تحقیقات کرتا ہے۔ تین اہم ترین انٹیلی جنس اداروں کی ایک مشترکہ ٹیم ان شکایات پر تحقیقات کرتی ہے۔ ان اداروں میں ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) شامل ہیں جبکہ پولیس بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ٹیم اس بات کے ثبوت جمع کرتی اور ان کی چھان پھٹک کرتی ہے کہ جس شخص کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی گئی ہے آیا اسے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے یا نہیں۔ جب یہ ثابت ہو جائے کہ مطلوبہ شخص کو جبراً لاپتہ کیا گیا ہے تو کمیشن اس کو اپنے سامنے پیش کرنے کے احکامات جاری کرتا ہے۔
لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو شکایت ہے کہ کمیشن کا کام اس قدر غیرشفاف ہے کہ انہیں کبھی یہ علم نہیں ہو سکا کہ کسی لاپتہ شخص کو پیش کرنے یا نہ کرنے کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ ایسے بہت سے مقدمات میں اعلیٰ عدالتیں بھی اس کمیشن کی کارکردگی کو انتہائی غیرتسلی بخش قرار دے چکی ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اس سال 23 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے زاہد امین اور صادق امین کی بازیابی کے لیے عدالت میں دائر کردہ درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ''ریکارڈ پر ایسی کوئی چیز موجود نہیں جس سے واضح ہوتا ہو کہ کمیشن نے لاپتہ افراد کو پیش کرنے سے متعلق اپنے احکامات کی عدم تعمیل پر کبھی سرکاری عہدیداروں سے ذرا سی بھی جواب طلبی کی ہو''۔
رحیم الزام عائد کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو مطمئن کرنے میں کمیشن کی ناکامی کی بنیادی وجہ اس کے ''فریبانہ'' قواعدو ضوابط ہیں۔ ان کے مطابق یہ قواعد و ضوابط منصفانہ قانونی کارروائی کی آئینی ضمانت کی بھی نفی کرتے ہیں۔ مثال طور پر لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو کمیشن کے روبرو سماعت کے دوران اپن وکلا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان کا کہنا ہے کہ ''لوگ کسی وکیل کے بغیر اپنا مقدمہ کیسے لڑ سکتے ہیں''۔
وہ اس حقیقت پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ عام طور پر عدالتیں بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''انہیں انصاف تک رسائی یقینی بنانی چاہیے لیکن جبری گمشدگیوں کے مقدمات میں وہ ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھتیں''۔
اگر عدالتیں اس معاملے میں اپنی رٹ قائم کرنے کی کوشش کریں تو تب بھی ان کے احکامات کی شاذ ہی تعمیل ہوتی ہے۔ یاسین شاہ کا معاملہ اس کی بہترین مثال ہے۔
ان کے بھائی محبت شاہ بتاتے ہیں کہ یاسین 2010 میں لاپتہ ہو گئے تھے جن کی بازیابی کے لیے انہوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے خیبرپختونخوا کے علاقے مالاکنڈ میں قائم ایک نظربندی کیمپ کے سپرنٹنڈنٹ کا خط عدالت میں پیش کیا جس میں یہ غیرمعمولی انکشاف کیا گیا تھا کہ 2011 میں بعض فوجی افسر یاسین شاہ کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
دو سال کے بعد عدالت نے یہ پٹیشن نمٹاتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور خیبرپختونخوا کے گورنر یاسین شاہ کو عدالت میں پیش کرنے کے ذمہ دار تھے۔ اس نے یہ حکم بھی دیا کہ ان کی گمشدگی کے ذمہ داروں کے ساتھ ''سخت اور قانون کے مطابق سلوک کیا جائے''۔
اس کے بعد وزیر دفاع نے مالاکنڈ پولیس کو خود ایک درخواست جمع کرائی کہ یاسین شاہ کی گمشدگی میں ملوث فوجی افسروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ یہ مقدمہ تو درج ہو گیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نکلا۔ نہ تو کسی کے خلاف قانونی کارروائی ہوئی، نہ کسی کو انہیں لاپتہ کرنے پر سزا دی گئی اور نہ ہی یاسین کو عدالت میں پیش کیا گیا۔
تاریخ اشاعت 16 نومبر 2022