سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں اقلیتی امیدواروں کو ٹکٹ کیوں نہیں دیتیں؟

postImg

فیروز خان خلجی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

سیاسی جماعتیں عام انتخابات میں اقلیتی امیدواروں کو ٹکٹ کیوں نہیں دیتیں؟

فیروز خان خلجی

loop

انگریزی میں پڑھیں

بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں خواتین کی طرح اقلیتوں کی تین مخصوص نشستیں ہیں جو جنرل الیکشن میں پانچ فیصد سے زائد حلقے جیتنے والی سیاسی جماعتوں کو الاٹ ہوتی ہیں۔

مگر یہاں کی اقلیتوں کو شکایت ہے کہ سیاسی پارٹیاں 'مخصوص" افراد کو نامزد کر دیتی ہیں اور ان کے انتخاب میں اقلیتوں کی رائے شامل نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ لوگ ان کے مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق بلوچستان کے 35 اضلاع میں 51 ہزار 245 غیر مسلم آبادی ہے جن میں27 ہزار 15 مرد اور24 ہزار 230 خواتین ہیں۔ یہاں سب سے زیادہ غیر مسلم آبادی کوئٹہ میں ہے جہاں اقلیتی برادریوں کے 19 ہزار 567 لوگ رہتے ہیں۔

 دوسرے نمبر پر ضلع جعفرآباد میں پانچ ہزار 115 غیر مسلم آباد ہیں۔اسی طرح لسبیلہ میں چار ہزار 278 اور خضدار میں ڈھائی ہزار لوگ ہیں۔

لیکن یہاں شاید ہی کبھی کسی سیاسی جماعت نے جنرل نشست پر غیر مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا ہو۔

مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے اکمی راجر بتاتے ہیں کہ انتخابات میں ان کی برادری ہمیشہ ووٹ ڈالتی ہے اور کسی نہ کسی پارٹی کے امیدوار کو جتوانے میں کردار ادا کرتی ہے۔

"جب ہمارے لوگ پانی، بجلی،گیس اور نوکری کے مسائل لے کر منتخب نمائندوں کے پاس جاتے ہیں تو جواب ملتا ہےکہ اپنی برادری کے ایم پی ایز کے پاس جائیں۔ اقلیتی نمائندہ کہتا ہے، مجھے پارٹی نے سلیکٹ کیا ہے تو کوٹا اور فنڈز بھی پارٹی کی مرضی پر خرچ ہوں گے۔"

راجر  کہتے ہیں کہ لوگ براہ راست اپنا نمائندہ منتخب کریں تو اقلیتوں کے حقیقی نمائندے اسمبلیوں میں جائیں گے۔ ان پر پارٹی کا دباؤ نہیں ہوگا اور اقلیتوں کے مسائل بھی حل ہوں گے۔

آئین پاکستان 1973ء کہتا ہے کہ ملک کے ہر بالغ شہری کو الیکشن لڑنے اور ووٹ کے ذریعے اپنا نمائندہ منتخب کرنے کا حق ہے۔ 2002ء میں الیکشن سے قبل جنرل پرویز مشرف نے "اقلیتوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے" آئین کے آرٹیکل 33 کی ذیلی شقوں میں ترمیم کر دی تھی۔

اس ترمیم کے تحت قومی اسمبلی میں مخصوص اقلیتی نشتوں کو آٹھ سے بڑھا کر 10 کر دیا گیا اور 'جداگانہ انتخاب' کو 'مخلوط طریقہ انتخاب' میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

بلوچستان میں سیاسی جماعتوں نے مخلوط طریقہ انتخاب میں اب تک کسی اقلیتی رکن کو  جنرل نشست پر ٹکٹ نہیں دیا بلکہ ان کی نامزدگی الیکشن کمیشن کے کوٹے کے مطابق کی جاتی ہے۔

نئے انتخابی طریقہ کار کے مطابق عام انتخابات میں ووٹر اپنے حلقے میں سیاسی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیتا ہے۔ بعد ازاں اسمبلیوں میں مخصوص اقلیتی نشستوں کو سیاسی جماعتوں میں ان کی جنرل نشستوں کے تناسب سے تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ ان نشستوں پر پارٹیاں اپنے اقلیتی نمائندے نامزد کر دیتی ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے اقلیتی رہنما سموئیل ایوب سمجھتے ہیں کہ  پاکستان خصوصاً بلوچستان میں لوگ مذہب، قومیت، قبیلے اور برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ اس لیے سیاسی پارٹیاں اقلیتی امیدوار کو جنرل سیٹ پر ٹکٹ نہیں دیتیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر سیاسی پارٹی اقلیتی نمائندے کو جنرل نشست پر ٹکٹ دے اور سپورٹ کرے تو کوئی بھی جیت سکتا ہے۔

"مثال کے طور پر پچھلے الیکشن میں کوئٹہ کے حلقہ پی بی 25 میں اقلیتی آبادی کی چھ کالونیاں آتی تھیں۔ کوئٹہ کی غیرمسلم آبادی کا بڑا حصہ ان کالونیوں میں رہتا ہے۔ 2018ء میں ملک سکندر یہاں چار ہزار 750 ووٹ لے کر جیتے تھے۔ مگر یہاں کسی اقلیتی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا"۔

سموئیل ایوب کے مطابق کیونکہ اقلیتی برادری کا کوئی بھی امیدوار الیکشن نہیں لڑ رہا ہوتا اس لیے یہ اقلیتیں انتخابی سر گرمیوں میں بھر پور حصہ نہیں لیتیں۔ ستم ظرفی یہ بھی ہے بہت کم سیاسی پارٹیاں ووٹ لینے کے لیے اقلیتوں کے علاقوں کا رخ کرتی ہیں۔

"اگر ہم پچھلے 15 برسوں کا ریکارڈ دیکھیں تو اقلیتی نشستوں پر نامزد افراد میں بہت کم سیاسی بیک گراونڈ رکھتے تھے۔ زیادہ تر نامزد ارکان اسمبلی 'پارٹی فنڈ' کے نام پر پیسے دیتے ہیں اور یہ اقلیتی نمائندوں سے زیادتی ہے۔"

1985ء کے الیکشن سے قبل ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے قانون میں ترمیم کرکے اقلیتوں کے لئے جداگانہ انتخابات وضع کئے۔ مگر اس میں پایا جانے والا ابہام دور نہ کیا گیا۔ اس ترمیم کی وجہ سے قومی اسمبلی کے امید وار کے لئے پورا پاکستان اور صوبائی اسمبلی کے لئے پورا صوبہ انتخابی حلقہ تھا۔ اقلیتی "منتخب" نمائندوں کا کوئی خاص حلقہ نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتی عوام کی اپنے نمائندوں تک رسائی انتہائی مشکل ہو گئی۔

سموئیل بتاتے ہیں کہ 2002ء میں دوسرے ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ترمیم کو ختم کرکے مخلوط انتخابات کا سلسلہ بحال کر دیا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔

مسلم لیگ ن کے سابق رکن اور ایوارڈ یافتہ ہیومین رائٹس ڈیفینڈر سردار جسویت سنگھ بتاتے ہیں  کہ قائداعظم محمد علی جناح نے پہلی آئین ساز اسمبلی میں برابری کی بات کی تھی لیکن پچھلے 50 سال میں یہ بات ختم ہو چکی ہے۔

وہ الزام لگاتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کے بعد اقلیتی سیٹوں کی بولیاں لگاتی ہیں۔ بلوچستان میں اقلیتوں کی بڑی تعداد کے باوجود ان کی حقیقی نمائندگی نہیں ہو رہی۔

 "ہماری برادری میں سخت مایوسی ہے۔کشمیری شہریوں کی طرح اقلیتوں کو بھی دہرے ووٹ کا حق ہونا چاہیے تاکہ وہ قومی دھارے میں بھی رہیں اور اپنے نمائندے بھی منتخب کرسکیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ یہاں نواب اکبر بگٹی نے ایک بار ایک سکھ اقلیتی نمائندے کو وزیر اعلیٰ کے لیے کھڑا کیا تھا، پھر کبھی ایسا نہیں ہوا۔ سیاسی جماعتوں کو پانچ سے دس فیصد ٹکٹیں اقلیتی نمائندوں کو دینے کا پابند کیا جاناچا ہیے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

"مخصوص نشستوں پر منتخب اقلیتی ارکان کے پاس اتنا فنڈ نہیں ہوتا جس سے وہ اپنے لوگوں کے مسائل حل کر سکیں"

"ہم (اقلیتی رہنما) پانچ سال ایک پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ جب وہ الیکشن جیت جاتی ہے تو راتوں رات کہیں سےکوئی اقلیتی شخص "بڑا بیگ" لے کر آتا ہے اور پارٹی اسے صوبائی یا قومی اسمبلی کا رکن بنا دیتی ہے۔ پھر ان میں سے کوئی سرکاری کالونی منظور کراتا ہے تو کوئی کہیں اور سے پیسے بناتا ہے۔"

بلوچستان اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق پچھلی اسمبلی میں شام لال مجلس عمل جبکہ خلیل جارج اور ٹائٹس جانسن بی اے پی سے رکن اسمبلی رہے ہیں۔

اس سے پہلے دو اسمبلیوں میں انیتا عرفان ن لیگ گنشام داس مدوانی بی این پی، ویلیم جان برکت پشتونخواہ میپ، انجنئیر بسنت لال گلشن ہم خیال گروپ، جعفر جارج پیپلز پارٹی اور جے پرکاش جمعیت علماءاسلام (ف) کے رکن رہ چکے ہیں۔

  مسلم لیگ ن بلوچستان کےنائب صدر نسیم الرحمن کا کہنا تھا کہ اقلیتی ارکان ایک لیڈر کی طرح  سوچیں اور فیصلہ کریں کہ ان کو پارٹی سے ٹکٹ کا مطالبہ کرنا چاہئے یا نہیں۔

"اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی بھی حلقے سے سیٹ جیت سکتے ہیں تو ان کو پارٹی میں درخواست کرنی چاہیے ورنہ نہیں۔"

وہ کہتے ہیں کہ  اقلیتی نمائندوں کو اپنی برادری کے لیےایک قدم  آگے آنا چاہیے۔ تمام جمہوری  پارٹیاں جمہوری میکنزم کے تحت ٹکٹ جاری کرتی ہیں۔ اگر کوئی اقلیتی رہنما سمجھتا  ہے  کہ وہ ٹکٹ کا حقدار ہے تو اسے اپنی کوشش جاری رکھنے کا حق ہے۔

تاریخ اشاعت 17 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

thumb
سٹوری

قبائلی اضلاع میں بائیو گیس پلانٹس ماحول اور جنگلات کو بچانے میں کتنے مدد گار ہو سکتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

مصباح الدین اتمانی

بجلی ہو نہ ہو چکیاں چلتی رہتی ہیں

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.