"لگتا ہے مسافر پرندوں نے شکاریوں کے خوف سے گانا چھوڑ دیا ہے"

postImg

عریج فاطمہ

postImg

"لگتا ہے مسافر پرندوں نے شکاریوں کے خوف سے گانا چھوڑ دیا ہے"

عریج فاطمہ

مائی سرور چشمہ بیراج کی جھیل کنارے جال بُن رہی ہیں۔ ان کے شوہر اللہ دتہ یہاں سے مچھلیاں پکڑ کر بیچتے ہیں اور وہ مختلف کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ اس طرح دونوں مل جل کر  اپنا گھر چلاتے ہیں۔

ستر سالہ مائی سرور اپنی عمر سے کہیں زیادہ بوڑھی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کا گھر جھیل کے پاس گاؤں میں واقع ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ سردیوں میں یہاں نت نئے پرندوں کے غول کے غول اترتے ہیں جن کی بولیاں بہت بھلی لگتی ہیں۔

"مگر اب اس جھیل پر پہلے جیسی رونق نہیں رہی۔ لگتا ہے بہت سے پرندوں نے یا تو آنا چھوڑ دیا ہے یا شاید ان کی نسل ہی ختم ہو گئی ہے۔"

انہوں نے بتایا کہ ماگھ اور پھاگن (جنوری، فروری) میں انہوں نے با اثر لوگوں کو کئی بار یہاں مسافر پرندوں کا شکار کرتے دیکھا ہے۔

"میں بینائی کم ہونے کی وجہ سے پرندوں کو دیکھ تو نہیں سکتی البتہ ان کی آوازوں سے ان کی تعداد کا اندازہ لگاتی ہوں۔ شاید شکاریوں کے خوف سے انہوں نے گانا چھوڑ دیا ہو۔ کاش!کوئی لوگوں کو پرندوں کا شکار کرنے سے باز رکھ سکتا۔"

روس کے سرد علاقوں، وسطی ایشیا اور سائبیریا سے لاکھوں پرندے وہاں شدید سردیوں کی آمد سے قبل ستمبر اکتوبر میں دنیا کے گرم خطوں کی طرف نقل مکانی مکانی کرتے ہیں۔ جبکہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو ان کی میزبانی کرتا ہے۔

مہمان پرندے (مائیگریٹری برڈز) سردیوں میں یہاں قیام اور افزائش کے بعد جنوری فروری میں واپس جاتے ہیں۔  آنے اور یہاں سے واپسی کے لیے یہ کوہ قراقرم، ہندو کش کے راستے کوہ سلیمان کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کے اوپر سے سفر کرتے ہیں جسے ان پرندوں کا بین الاقوامی روٹ نمبر 4، گرین روٹ یا انڈس فلائی وے کہا جاتا ہے۔

یہ پرندے شمال سے جنوب تک تقریباً ساڑھے چار ہزار کلومیٹر کا سفر ایک ہی پرواز (گو) میں طے نہیں کرتے بلکہ راستے میں پانی، جھیلیں اور سرسبز مقامات دیکھ کر اترتے ہیں جہاں بھوک پیاس مٹانے اور آرام کرنے کے بعد آگے بڑھ جاتے ہیں۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ان مہمان پرندوں اور مقامی جنگلی حیات کے لیے علاقے مختص کیے گئے ہیں جو انہیں پناہ گاہیں اور خوراک فراہم کرتے ہیں۔ ان 'ریزرو ایریاز' میں ویٹ لینڈز یعنی جھیلوں یا آبی ذخائر کی موجودگی ضروری قرار دی جاتی ہے۔

اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے 1971ء میں ایرانی شہر رامسر میں ایک کنونشن منعقد کیا تھا جس میں ان ویٹ لینڈز یا جھیلوں کے حوالے سے اصول طے کیے گئے تھے۔ اب پاکستان سمیت دنیا کے لگ بھگ 90 فیصد ممالک اس کنونشن پر دستخط کر چکے ہیں۔

رامسر کنونشن کے معیار پر پوری اترنے والی جھیل یا ویٹ لینڈ کو 'رامسر سائٹ' کہا جاتا ہے اور پاکستان میں چشمہ بیراج وائلڈ لائف سیکچری بھی انہیں میں سے ایک ہے۔

محکمہ وائلڈ لائف میانوالی بتاتا ہے کہ چشمہ کی جھیلوں میں ہنس گڈوال، یوریشن ویگن، لال سر، نیل سر،فرجینس، مختلف قسم کی مرغابیاں، مالارڈ، گریب، لٹل ایگریٹ، سارس کرین، لاریڈی،کارمورنٹ، سلٹ، مور مرغ، ناردرن سولر، کامن ٹیل، سرخاب اور کئی رنگوں کے بگلوں سمیت درجنوں اقسام کے مہمان پرندے قیام کرتے ہیں۔

پاکستان ٹورازم پورٹل  اور اقوام متحدہ کی رامسر انفارمیشن سروس  کے مطابق چشمہ بیراج وائلڈ لائف سینکچری 34 ہزار 99 ہیکٹر ( 84 ہزار 260 ایکڑ) رقبے پر مشتمل ہے جسے پہلی بار 1974ء میں وائلڈ لائف سینکچری قرار دیا گیا تھا تاہم عالمی ماہرین کی تجاویز پر اس کے رقبے میں توسیع کر کے 1989ء میں اسے تیسری بار حتمی شکل دی گئی۔

یہ سینکچری تین مارچ 1996ء کو رامسر سائٹ ڈیکلیئر کی گئی  جس کو حیاتیاتی تنوع (بائیو ڈائیورسٹی) کے لحاظ سے چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں ویٹ لینڈ (آبی ذخیرہ/ جھیل )، دریا سندھ کے درمیانی جزائر (ڈیلٹا/ بیٹ یا بیلا)، ارد گرد کا صحرا اور پہاڑی علاقہ شامل ہیں۔

بیراج اور ارد گرد کے علاقے نہ صرف آبی حیات اور پرندوں کی پناہ گاہ ہیں بلکہ وسیع نباتات (پودوں، جھاڑیاں) کی موجودگی کے باعث جنگلی حیات کا بھی بڑا مسکن ہیں۔

ویٹ لینڈ کی زیادہ تر اراضی محکمہ آبپاشی پنجاب کی ملکیت ہے جبکہ اس سے ملحقہ ریزرو ایریا میں سرکاری کے ساتھ نجی رقبے بھی شامل ہیں۔

تاہم رامسر انفارمیشن سروس کے مطابق یہاں پانی کا ذخیرہ آبپاشی، بجلی کی پیداوار اور ماہی گیری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس علاقے سے سرکنڈوں کی صفائی کی بھی اجازت دی گئی ہے جو مقامی کاٹیج انڈسٹری کے کام آتا ہے۔

تاہم آبی ذخائر کے باہر کی زمینیں کھیتی باڑی، مویشی چرانے اور جنگلات کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

چشمہ کے آبی ذخائر پانچ حصوں میں تقسیم ہیں جس میں تین بڑی اور دو چھوٹی جھیلیں شامل ہیں تاہم ان میں سے کسی بھی جھیل کا رقبہ 618 ایکڑ سے زیادہ نہیں ہے۔

یہاں ستمبر، اکتوبر میں مہمان پرندوں کی آمد ہوتی ہے جبکہ دسمبر کے آخر تک یہ جنوب میں چلے جاتے ہیں لیکن فروری مارچ میں اپنے وطن واپسی کے دوران یہ یہاں  پھر پڑاؤ کرتے ہیں اور جھیل کی رونق میں دوبارہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

تاہم اب مقامی افراد شکوہ کرتے ہیں کہ چشمہ جھیل پر مہمان پرندوں کی تعداد ہر سال کم ہو رہی ہے۔

ساٹھ سالہ عمر حیات کندیاں کےرہائشی ہیں جنہوں نے چشمہ جھیل کے قریب اپنی زمین کاشت کر رکھی ہے۔

وہ گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ لڑکپن میں اپنے مرحوم والد محمد نواز کے ساتھ جھیل پر شکار کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ تب چشمہ میں ہر طرف تا حد نگاہ پرندے اڑتے نظر آتے تھے مگر اب وہاں جاتے ہیں تو اکا دکا ہی کوئی مہمان پرندہ دکھائی دیتا ہے۔

رامسر انفارمیشن کی رپورٹ بھی تصدیق کرتی ہے کہ جنوری 1975ء میں چشمہ جھیلوں میں ایک لاکھ 14 ہزار سے زیادہ پرندے موجود تھے جبکہ 1988ءسے 1991ء تک ہر سال جنوری میں یہاں دو لاکھ سے زائد پرندے پائے گئے تھے۔

محکمہ وائلڈ لائف آفس میانوالی سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق 2018ء میں یہاں صرف چار ہزار پرندوں نے پڑاؤ کیا جو پچھلے 32 سال میں کم ترین تعداد تھی۔   2019-2020ء کے سیزن میں یہ تعداد سات ہزار 300 ہو گئی۔

2021ء کے سیزن میں 30 ہزار 400 جبکہ رواں سیزن میں تقریباً 16 ہزار 800 مہمان پرندے شمار کیے گئے ہیں۔

تاہم اسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف میانوالی ابرار احمد مطمئن پرندوں کی تعداد سے مطمئن ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ مائیگریٹری برڈز مختلف روٹس استعمال کرتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہر سال وہ انڈس فلائی وے کا راستہ ہی اختیار کریں۔ اگر پانچ سال پہلے کو دیکھا جائے چشمہ جھیل پر مہمان پرندوں کی تعداد بڑھی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پرندہ شماری بھی دوربینوں کی مدد سے کی جاتی ہے جو سائنسی طریقہ نہیں ہے اور یہ عالمی معیار کے مطابق بھی نہیں ہے۔

آبی حیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ چشمہ کی جھیلوں میں لگ بھگ 40 اقسام کی مچھلیاں پائی پائی جاتی ہیں۔ ایک زمانے تک یہاں ماہی گیری کا ٹھیکہ واپڈا دیا کرتا تھا تاہم بعد ازاں ماہی پروری اور ماہی گیری پر صوبے کا حق تسلیم کر لیا گیا۔

محکمہ فشریز پنجاب  کے مطابق چشمہ بیراج میں مچھلی کی موجودہ صلاحیت 12 سے 15 سو میٹرک ٹن ہے جبکہ ماہی گیری کے ٹھیکوں سے محکمہ تقریباً تین کروڑ 20 لاکھ روپے سالانہ کما رہا ہے۔ تاہم یہاں 'فشریز ہیچری منصوبے' کی تکمیل کے بعد آمدنی میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

درختوں پر طوطے، مینا، نیل کنٹھ اور فاختاؤں کی جگہ چیلوں اور کووں کا بسیرا، لاہور کے خوبصورت پرندے کہاں گئے؟

اس وائڈ لائف سینکچری میں شامل پہاڑی علاقے میں بھیڑیا، گیدڑ، لومڑی، سرخ لومڑی، سیہہ، نیولا سمیت مختلف اقسام کے چوہوں جیسی جنگلی حیات کو پناہ گاہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں کبھی کبھی اڑیال اور کامن لیوپارڈ بھی نظر آجاتا تھا مگر اب ایسے جانور کم ہی دکھا دیتے ہیں۔

یہاں بیلے یا دریائی جزیروں میں ہرن اور سؤر (کامن بور) بھی کبھی کبھی آ جاتے ہیں۔ سینکچری میں شامل ریتلے صحرا میں ریگ ماہی (سینڈ لزرڈ)، مختلف اقسام کی چھپکلیاں، سانپ اور رینگنے والے دیگر کیڑے مکوڑے پائے جاتے ہیں۔

چشمہ کی جھیلیں موسم سرما میں صرف مہمان پرندوں ہی کی میزبانی نہیں کرتیں بلکہ موسم گرما میں 50 سے زائد مقامی پرندوں کو افزائش کے لیے پناہ گاہ بھی فراہم کرتی ہیں جن میں عالمی سطح پر خطرے سے دوچار 'لمبی دم والی چڑیا ( واربلر پرنیا برنیسی) بھی شامل ہے۔

عمر حیات اور مائی سرور کے خیال میں یہاں سینکچری میں لوگوں کی زیادہ آمدورفت اور شکار کی وجہ سے جنگلی حیات اور مہمان پرندوں کی تعداد میں کمی آئی ہے جبکہ اڑیال اور ہرن تو بالکل ہی ختم ہو گئے ہیں۔

اسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف کا کہنا تھا کہ مہمان پرندوں کی آمد میں کمی کی کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں انسانی سرگرمیاں اور شکار بھی شامل ہیں۔

"ہم غیر قانونی شکار پر جرمانہ کرتے ہیں لیکن جنگلی حیات اور پرندوں کی بقا و حفاظت محکمے کے ساتھ مقامی لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے۔"

محمکہ والڈ لائف کی پراگریس رپورٹ کے مطابق دسمبر 2021 ء سے نومبر 2022ء تک 110 شکاریوں کے چالان کر کے انہیں ایک لاکھ بارہ ہزار روپے جرمانہ کیا گیا جبکہ دسمبر 2022ء سے نومبر 2023 ء تک 201 افراد سے دو لاکھ 500 روپے جرمانہ وصول کیا گیا۔

ایک سوال پراسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ ضلع میانوالی میں وائلڈ لائف کے عملے کی منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 29 ہے جن میں سے دس خالی پڑی ہیں۔

تاریخ اشاعت 1 اپریل 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عریج فاطمہ کا تعلق کندیاں، ضلع میانوالی سے ہے۔ عریج نے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ تعلیم، خواتین اور دیہی ترقی ان کے دلچسپی کے شعبے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.