6 ہزار حادثات، 680 ہلاکتیں، میانوالی تا مظفرگڑھ روڈ ڈیڑھ سال میں 'خونی سڑک' کیسے بنی؟

postImg

صابر عطا

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

6 ہزار حادثات، 680 ہلاکتیں، میانوالی تا مظفرگڑھ روڈ ڈیڑھ سال میں 'خونی سڑک' کیسے بنی؟

صابر عطا

loop

انگریزی میں پڑھیں

پچاس سالہ ملک قاسم پچھلے تیس سال سے مسافر بس چلا رہے ہیں۔ عام طور پر وہ میانوالی سے لیہ کے علاقے چوک اعظم کے روٹ پر آتے جاتے ہیں۔ گزشتہ دونوں وہ اس سڑک پر سفر کر رہے تھے کہ ایک نوکیلے پتھر کی زد میں آ کر ان کی بس کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ انہوں ںے بمشکل بس کو کنٹرول میں رکھا لیکن بریک لگاتے وقت دوسرا ٹائر بھی پھٹ گیا۔ تاہم اس وقت تک بس کی رفتار بہت کم ہو چکی تھی اس لیے تمام مسافر محفوظ رہے۔

اس واقعے کے بعد قاسم نے ایک لاکھ 30 ہزار روپے خرچ کر کے بس کے دو ٹائر تبدیل کرائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اتنی رقم انہوں نے پچھلے چھ ماہ میں نہیں کمائی تھی جتنی ٹائروں پر خرچ ہو گئی۔

چوک اعظم کے ٹرانسپورٹر گلزار احمد پٹھان کی دو درجن بسیں میانوالی مظفرگڑھ روڈ پر چلتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئے روز ان  کی کوئی نہ کوئی گاڑی حادثے کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس روٹ پر سڑک پچھلے دس برس سے خراب ہے اور اب دوبارہ تعمیر کے نام پر طویل عرصہ سے اس کی توڑ پھوڑ جاری ہے۔ سڑک تو تاحال نہیں بن سکی لیکن حادثوں میں لاکھوں روپے کا نقصان ضرور ہو رہا ہے۔

اس سڑک کو عام طور پر میانوالی مظفرگڑھ روڈ (ایم ایم روڈ) کہا جاتا ہے۔ یہ شاہراہ مظفرگڑھ، کوٹ ادو، لیہ، بھکر اور میانوالی میں آمدورفت کا بڑا ذریعہ ہے۔ دریائے سندھ کے مشرق میں آباد تھل کے ان اضلاع کو باہم جوڑنے والی سینکڑوں رابطہ سڑکیں ایم ایم روڈ سے منسلک ہیں۔

ایم ایم روڈ جو گلگت سے کراچی جانے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ ملتان اور جنوبی خیبرپختونخوا کے درمیان رابطے کے لیے مدتوں سے یہی سڑک کام آ رہی ہے۔ بھکر اور لیہ کے لوگ معمول میں چکوال یا وفاقی دارالحکومت کو اسی راستے سے جاتے ہیں۔

یہ سڑک تین سال پہلے تک صوبائی محکمہ شاہرات کے زیر انتظام تھی۔ مئی 2020ء میں اسے این 135 کا نام دے کر نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے حوالے کر دیا گیا۔

این ایچ اے نے اسی سال 129 کلومیٹر بلکسر میانوالی روڈ (این 135) اور286 کلومیٹر طویل ایم ایم روڈ (این135) کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت دو رویہ (ڈبل کیرج وے) بنانے کا اعلان کیا۔

تاہم کنسلٹنٹ نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اس منصوبے کی تکمیل  کو 'ناقابل عمل' قرار دیا جس کے بعد این ایچ اے نے بلکسر سے مظفرگڑھ (براستہ میانوالی )موجودہ سڑک ہی کو بحال کر نے کا منصوبہ بنایا۔

اس سڑک پر گزشتہ سال فروری میں کام کا آغاز ہوا جس کی مدت تکمیل ایک سال رکھی گئی۔ تاہم ابھی تک سڑک کی تعمیر مکمل ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ این ایچ اے نے اب منصوبے کی تکمیل کی نئی تاریخ 13 دسمبر دے رکھی ہے۔

ایم ایم روڈ پر فتح پور ٹول پلازہ کے مینیجر فرہاد خان بتاتے ہیں کہ پہلے یہاں سے روزانہ 13سے 15 ہزار گاڑیاں گزرتی تھیں۔تعمیراتی کام شروع ہونے کے بعد ان گاڑیوں کی یومیہ تعداد پانچ ہزار کےقریب رہ گئی ہے اور بیشتر لوگ متبادل شاہراہیں استعمال کر رہے ہیں۔

سڑک کی دوبارہ تعمیر شروع ہوئی تو یہاں ٹریفک میں کمی کے باوجود حادثات بڑھ گئے ہیں۔ ریسکیو 1122کے ترجمان محمد وسیم کے مطابق ضلع لیہ میں اس سڑک پر2022 ء میں 3700 ٹریفک حادثات ہوئے۔ ان میں430 افراد ہلاک اور 40 ہزار زخمی ہوئے۔

رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں 2206 حادثات میں 10ہزار افراد زخمی اور 250 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان میں دوران علاج ہسپتالوں میں ہونے والی اموات شامل نہیں ہیں۔

بڑھتے حادثات کے باعث لوگوں نے ایم ایم روڈ کو 'قاتل روڈ' اور 'خونی سڑک' جیسے نام دے رکھے ہیں۔ فتح پور کے لوگوں نے سڑک کی تعمیر فوری مکمل کرنے کے لیے احتجاج کا راستہ بھی اختیار کیا ہے۔

سڑک کے ایک حصے پر کام کرنے والی تعمیراتی کمپنی سچل کے ایڈمن مینیجر شمس الدین کہتے ہیں کہ کام میں تاخیر فنڈز کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ کمپنی کو ابھی تک نصف رقم بھی نہیں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہفتے میں صرف تین دن کام کرتے ہیں۔

اس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ 13ارب 80 کروڑ روپے تھا لیکن بعد ازاں اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ اس کی کل لاگت کا 90 فیصد وفاقی حکومت اور دس فیصد این ایچ اے کے ذمے تھا۔

این ایچ اے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر فضل اللہ خان بتاتے ہیں۔ کہ ایم ایم روڈ (286 کلو میٹر) کی تعمیرنو کی لاگت کا کل تخمینہ 12 ارب 82 کروڑ 80 لاکھ روپے ہے جس میں سے چھ ارب 61 کروڑ 40 لاکھ روپے کی ادائیگی ہو چکی ہے۔

منصوبے پر کام کرنے والے ایک سول انجینئر نے بتایا کہ یہ سڑک پی سی ون کے مطابق تعمیر نہیں ہو رہی۔ اچلانہ موڑ سے رحمت آباد کے درمیان متعدد مقامات پر سڑک بیٹھ چکی ہے اور سڑک پر تارکول بھی بہت کم استعمال کیا گیا ہے۔

تاہم این ایچ اے ان الزامات کو درست نہیں سمجھتی۔ اتھارٹی کے جنرل مینیجر کے دفتر کا کہنا ہے کہ سڑک پر کام طے شدہ معیار کے مطابق ہو رہا ہے۔ تاہم کام کے دوران کچھ خرابیاں بھی آتی ہیں جنہیں دور کر دیا جاتا ہے۔

بس ڈرائیور ملک جبار کہتے ہیں کہ سڑک پر کام کی رفتار جو بھی ہو ٹریفک کو محفوظ راستہ تو ملنا چاہیئے۔ قاضی آباد سے فتح پور تک پتھر ڈالںے کے بعد ٹھیکیدار تو جیسے غائب ہو چکا ہے۔ دھول کے طوفان میں آگے جانے یا آنے والی گاڑی اکثر اوقات نظر ہی نہیں آتی۔

"میری گاڑی کو ایک سال میں تین مرتبہ حادثات پیش آ چکے ہیں۔موٹر سائیکل سواروں کے لیے تو یہ سڑک اور بھی خطرناک ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

آواران کا جھاؤ-بیلہ روڈ جہاں پیاز سے لدا ٹرک 90 کلومیٹر کا فاصلہ ایک دن میں طے کرتا ہے!

سولہ سالہ نسیم لیاقت ایف ایس سی کی طالبہ ہیں۔ وہ لیہ کے چک 312 ٹی ڈی اے سے  روزانہ رکشے (چنگ چی) پر فتح پور میں کالج آتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایم ایم روڈ پر کام شروع ہونے سے پہلے رکشہ انہیں 20 منٹ میں پہنچا دیتا تھا۔ اب 45 منٹ لگ جاتے ہیں۔

"پورے راستے گرد کا طوفان ہوتا ہے۔جب ہم کالج پہنچتے ہیں تو ہماری شکلیں پہچانی جاتی ہیں اور نہ ہی کپڑوں کا رنگ۔ یہ سڑک نہ تو مکمل ہوتی ہے نہ اس پر کوئی چھڑکاؤ کرتا ہے۔"

ایمبولینس ڈرائیوررانا محمد اعظم بتاتے ہیں کہ وہ اس خراب سڑک پر دیہی علاقوں سے مریضوں کو لاتے ہوئے اکثر ٹریفک جام میں پھنس جاتے ہیں جس سے مریضوں کی زندگی کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔

این ایچ اے کے جنرل مینیجر کے دفتر کا کہنا ہے کہ منصوبے کے بیشتر حصوں پر زیادہ تر کام مکمل ہو چکا ہے۔ کام کی تکمیل فنڈز سے مشروط ہے اور اگر مالی وسائل برقت فراہم کیے جاتے رہے تو سڑک کے تمام حصے 31 دسمبر تک مکمل کر لیے جائیں گے۔

تاریخ اشاعت 2 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

صابرعطا کا تعلق لیہ سے ہے۔صحافی ،شاعر اور محقق ہیں قومی اخبارات میں فیچر شائع ہوتے ہیں ۔ مختلف ویب سائیٹس کے لیے بھی تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی

خیبر پختونخوا، دعویٰ : تعلیمی ایمرجنسی، حقیقت: کتابوں کے لیے بھی پیسے نہیں

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.