بجلی کے میٹروں کی خرابی: لیسکو کی غیر ذمہ داری کا خمیازہ صارفین بھگت رہے ہیں۔

postImg

تنویر احمد

postImg

بجلی کے میٹروں کی خرابی: لیسکو کی غیر ذمہ داری کا خمیازہ صارفین بھگت رہے ہیں۔

تنویر احمد

لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کے ایک ذیلی دفتر کا استقبالیہ صبح کے وقت بالکل خالی پڑا ہے۔ اس سے جڑے شکایات سیل کے کمرے میں بھی کوئی شخص موجود نہیں۔ 

تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ایک اہل کار شکایات سیل کے کمرے میں پہنچ کر ایک بڑے سے رجسٹرڈ پر لائنیں لگانے لگتا ہے تاکہ وہ اس میں شکایات درج کر سکے۔ اسی دوران ایک دوسرا اہل کار تقریباً ستر سال کی عمر کے منیر احمد نامی شخص کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتا ہے اور پہلے اہل کار کو کہتا ہے کہ وہ ان کی بات سنے۔ 

منیر احمد اسے بتاتے ہیں کہ ان کے گھر میں چھ دن سے بجلی نہیں آ رہی کیونکہ کھمبے سے ان کے گھر آنے والی تار ڈھیلی ہو گئی ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس سلسلے میں "آن لائن شکایت بھی درج کرائی ہے" جس کے جواب میں انہیں کہا گیا ہے کہ انہیں لیسکو کے دفتر آ کر ہی اپنا مسئلہ بتانا پڑے گا۔  

وہ کہتے ہیں کہ دفتر پہنچ کر بھی انہیں مزید دھکے کھانا پڑتے اگر لیسکو کا ایک اہل کار ان کا واقف نہ ہوتا۔ اس کے ساتھ شکایات سیل میں آنے کا انہیں اتنا فائدہ ہوا ہے کہ ان کا مسئلہ اور نام پتہ فوری طور پر نوٹ کر لیا گیا ہے تاہم انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس مسئلے کا حل کب اور کیسے ہو گا۔ 

اسی دفتر کے ایک دوسرے کمرے میں ایک شخص ایک میٹر رِیڈر کے سامنے بجلی کے بِل لیے کھڑا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کئی ماہ سے اسے زیادہ بِل بھیجا جا رہا ہے۔ میٹر رِیڈر اسے کہتا ہے کہ وہ اپنے میٹر کی تصویر دکھائے۔ یہ تصویر دیکھنے کے بعد اسے بتایا جاتا ہے کہ دراصل اس کا میٹر خراب ہے جسے تبدیل کرانے کے لیے اسے علیحدہ سے درخواست دینا ہو گی۔

وہ سوال کرتا ہے کہ اگر اس کا میٹر خراب ہے تو پھر کس چیز کو دیکھ کر اسے بل بھیجا جا رہا تھا اور یہ کہ جب نیا میٹر لگ جائے گا تو کیا بل میں ڈالی گئی اضافی رقم اسے واپس مل جائے گی۔ میٹر ریڈر ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیتا۔

یہ واقعات 28 جنوری 2022 کی صبح  لیسکو کے ایک ایسے دفتر میں پیش آئے ہیں جو جنوب مغربی لاہور میں ملتان روڈ اور وحدت روڈ کے سنگم پر مصطفیٰ ٹاؤن نامی علاقے میں واقع ہے۔ اس روز وہاں موجود بجلی کے صارفین شکایت کرتے ہیں کہ لیسکو نے آن لائن شکایات درج کرانے کا نظام تو قائم کیا ہوا ہے لیکن اس پر درج کرائے گئے مسائل کبھی حل نہیں ہو پاتے۔ اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ بلوں پر دیے گئے فون نمبروں کے ذریعے لیسکو اہلکاروں سے بات کرنے کی کوشش کی جائے تو یا تو کوئی فون اٹھاتا ہی نہیں اور اگر کبھی کوئی اٹھا بھی لے تو وہ شکایت کے ازالے کا کوئی راستہ نہیں دکھاتا۔ 

نتیجتاً متعدد صارفین ہر روز اس دفتر کے چکر لگاتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح وہ اپنے مسئلے متعلقہ اہل کاروں کے سامنے رکھ سکیں۔ پچھلے کچھ ماہ کے دوران ان میں لاہور کے علاقے پی سی ایس آئی آر ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہنے والے آفتاب گیلانی اور ان کی اہلیہ شبینہ زیدی بھی شامل رہے ہیں۔ انہوں نے پچھلے پانچ ماہ میں لیسکو کے دفتر کے اتنے چکر لگائے ہیں کہ وہاں کے اہل کار انہیں پہچاننے لگ گئے ہیں۔

آفتاب گیلانی کا کہنا ہے کہ لیسکو کے اہل کار بجلی کے بارے میں شکایت کرنے کے لیے آئے ہوئے لوگوں کو مختلف دفتری قواعد و ضوابط میں اس قدر الجھا دیتے ہیں کہ تھک ہار کر یہ لوگ سفارش اور رشوت کے ذریعے اپنا کام کرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کے بقول "اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ کی مشکلات حل ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہیں"۔ 

اپنی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ انہیں کئی ماہ سے بہت زیادہ بِل آ رہا ہے لیکن متعدد بار لیسکو اہل کاروں کو اپنا مسئلہ بتانے کے باوجود وہ جائز طریقے سے اسے حل نہیں کرا سکے۔ بالآخر انہیں اپنے ذاتی تعلقات استعمال کر کے اور رشوت دے کر اپنے گھر کا میٹر تبدیل کرانا پڑا ہے۔ 

بجلی کے 'اضافی' بل

اگست 2021 میں آفتاب گیلانی کے گھر کا بجلی کا ماہانہ بل 40 ہزار روپے سے یک دم بڑھ کر 70 ہزار روپے ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ "جب میں پہلی بار لیسکو کے دفتر گیا اور وہاں موجود اہلکاروں کو اس کے بارے میں آگاہ کیا تو انہوں نے مجھے کوئی تسلی بخش جواب دینے کی بجائے کچھ دن بعد آنے کا کہا"۔ 

لیکن انہیں یہ پریشانی لاحق تھی کہ اگر انہوں نے وقت پر بل ادا نہ کیا تو ان کا بجلی کا کنکشن کاٹا بھی جا سکتا ہے جسے دوبارہ لگوانے کے لیے انہیں نہ صرف اضافی فیس بھرنا پڑے گی بلکہ بل ادا نہ کرنے کا جرمانہ بھی دینا پڑے گا۔ لہٰذا جلد ہی وہ دوبارہ لیسکو کے دفتر پہنچ گئے۔ 

اس دفعہ ان کی ملاقات دفتر کے ایک سینئر اہلکار، یعنی سب ڈویژنل آفیسر، سے ہوئی جس نے انہیں کہا کہ ان کا بِل دو قسطوں میں بانٹ دیا جائے گا تاکہ انہیں اس کی ادائیگی میں آسانی ہو۔ اس نے ان سے یہ وعدہ بھی کیا کہ لیسکو جلد ہی اس بات کا تعین کر دے گا کہ آخر انہیں اضافی بل کیوں آیا ہے اور یہ کہ ان کی شکایت کے ازالے کے بعد ان سے لی گئی اضافی رقم اگلے بلوں میں سے کم کر دی جائے گی۔

آفتاب گیلانی کہتے ہیں کہ انہیں اس افسر کی باتیں مناسب لگیں۔ چنانچہ انہوں نے بل کو دو قسطوں میں تقسیم کروا کر ایک قسط فوراً ادا کر دی۔ 

تاہم ان کا مسئلہ حل نہ ہو سکا اور ستمبر کے مہینے میں انہیں پھر 70 ہزار روپے کا بل بھیج دیا گیا جس سے ان کا مالی بوجھ بہت بڑھ گیا کیونکہ انہیں پچھلے ماہ کے بل کی بقایا قسط بھی ادا کرنا تھی۔ اس کے بعد ہر ماہ یہی ہوتا رہا حتیٰ کہ دسمبر میں بھی انہیں 40 ہزار روپے کا بل بھیجا گیا حالانکہ 2020 کے اسی مہینے میں ان کا بل صرف چار ہزار روپے کے لگ بھگ تھا۔

جب لیسکو کو اس صورتِ حال سے اگاہ کرنے کے لیے آفتاب گیلانی ایک بار پھر مصطفیٰ ٹاؤن میں واقع اس کے دفتر گئے تو وہاں موجود ڈیوٹی افسر نے انہیں بتایا کہ وہ اپنے میٹر کی تصویر لے کر آئیں۔ انہوں نے فوراً اپنے گھر والوں سے بذریعہ انٹرنیٹ تصویر منگوا کر اسے دکھا دی جس کے بعد اس نے انہیں بتایا کہ ان کا میٹر خراب ہو چکا ہے۔ 

لیکن یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ دسمبر 2021 اور جنوری 2022 میں دو بار ان کا بجلی کا کنکشن کاٹ دیا گیا اور لیسکو اہل کار ان کا میٹر بھی اتار کر لے گئے۔ انہوں نے اس معاملے پر جب بھی لیسکو کے دفتر سے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ ان کی بجلی اس لیے کاٹی گئی ہے کہ انہوں نے اپنا بل جمع نہیں کرایا حالانکہ وہ کہتے ہیں کہ اضافی بل آنے کے باوجود وہ ہر مہینے اسے باقاعدگی سے جمع کرا رہے تھے۔ 

لیسکو کے کئی دوسرے صارفین کو بھی یہی شکایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میٹر کے خراب ہونے میں ان کی کوئی غلطی نہ ہونے کے باوجود انہی کو اس کا خمیازہ اضافی بل کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب اس معاملے کو لیسکو افسران کے سامنے اٹھایا جاتا ہے تو وہ اس کا سوائے اس کے کوئی جواب نہیں دیتے کہ میٹر ریڈر اکثر سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اور صارفین کو بروقت میٹر کی خرابی سے آگاہ نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ: مالی بےضابطگیوں اور بدعنوانی کی 21 سالہ طویل داستان۔

البتہ لیسکو کے ایک اہلکار اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ پچھلے سال کے نصف آخر میں میٹروں کی خرابی کی رپورٹ نہ کیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لیسکو کے پاس نئے میٹروں کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی۔ اس لیے، ان کے بقول، "ان کی خرابی کی شکایات یا تو نظرانداز کر دی جاتی تھیں اور یا صرف انہی لوگوں کو نئے میٹر فراہم کیے جاتے تھے جن کی اعلیٰ حکام تک پہنچ تھی"۔  

لیسکو کی ترجمان افشاں مدثر صارفین کی زیادہ تر شکایات کو درست تسلیم نہیں کرتیں۔ ان کے مطابق عام طور پر ان کا محکمہ ایک شکایت حل کرنے کے لیے 90 دن سے زیادہ وقت نہیں لیتا لیکن اگر کسی شخص کو ایک آدھ بار اس سے زیادہ وقت لگا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر کسی کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ 

اضافی بلوں کی شکایات کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ بجلی کی قیمت میں اضافہ ہے۔ ان کے مطابق پچھلے سال مختلف وجوہات کی بنیاد پر کئی دفعہ یہ قیمت بڑھائی گئی ہے لیکن اس سے لاعلم لوگ جب "موجودہ بلوں کا موازنہ 2021 سے کرتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ شاید انہیں غلط بل بھیج دیے گئے ہیں"۔

اسی طرح اگرچہ وہ تسلیم کرتی ہیں کچھ عرصہ پہلے لیسکو کو میٹروں کی کمی کا ضرور سامنا تھا لیکن ساتھ ہی وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ زیادہ بل آنے یا بجلی کے کنکشن منقطع ہونے کا اس قلت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب اس مسئلے پر "قابو پا لیا گیا ہے"۔ 

تاریخ اشاعت 3 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

تنویر احمد شہری امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایم اے او کالج لاہور سے ماس کمیونیکیشن اور اردو ادب میں ایم اے کر رکھا ہے۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.