خیبر پختونخوا کے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں داخلے کا ٹیسٹ یعنی ایم ڈی کیٹ 26 نومبر کو صوبے کے مختلف شہروں میں دوبارہ لیا جا رہا ہے لیکن پچھلی بار کے تجربے کی وجہ سے امیدوار اب بھی بے یقینی کا شکار ہیں۔
کرک کی طالبہ جویریہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ وہ اپنے نتیجے سے مطمئن تھیں مگر کچھ امیدواروں کے بڑے مارجن سے نمبر آنے اور پھر بلیوٹوتھ ڈیوائس کے استعمال کا سن کر سخت مایوسی ہوئیں، تاہم گورنمنٹ کی طرف سے دوبارہ انعقاد پر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔
"ہم نے تو پہلے بھی نقل نہیں کی تھی۔ ٹیسٹ ایٹا لے یا خیبر میڈیکل یونیورسٹی، ہماری محنت رنگ لائے گی۔ البتہ اب بھی یہ ڈر لگا ہوا ہے کہ پہلے کی طرح ایسا کچھ نہ ہو جس سے مزید وقت ضائع ہو جائے۔"
ایم ڈی کیٹ کا انعقاد اس سال 10 ستمبر کو ایجوکیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایولیوایشن ایجنسی (ایٹا) کے زیر اہتمام صوبے بھر میں قائم 44 امتحانی مراکز میں ہوا تھا جس میں تقریباً 46 ہزار طلبہ و طالبات شریک ہوئے تھے۔
ٹیسٹ کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور کے مراکز سے کل 53 امیدوار (ڈیرہ اسماعیل خان 10، پشاور میں 33 طلبہ اور 10 طالبات) نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ یہ تمام افراد نقل کے لیے ایک ہی طریق کار یعنی ایک بلیو ٹوتھ ڈیوائس کا استعمال کر رہے تھے۔
ان تمام افراد کو ٹیسٹ کے لیے وی آئی پی پاسز جاری کیے گئے تھے اور اس کے لیے ان سے بھاری رقوم وصول کی گئی تھیں۔
یہ اپنی نوعیت کا پہلا سکینڈل تھا جس میں وسیع اور منظم انداز میں نقل کروانے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ جب ٹیسٹ کا نتیجہ آیا تو ایک ہزار سے زائد طلبہ و طالبات نے بہت زیادہ نمبر حاصل کیے تھے، حالانکہ عام طور پر یہ تعداد بمشکل چند سو ہوتی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تفتیش کے نتیجے میں مختلف اضلاع سے 335 ایسے طلبہ کی نشاندہی اور گرفتاری عمل میں آئی جنہوں نے اس ڈیوائس کا استعمال کیا تھا۔
امکان یہ ظاہر کیا گیا کہ 1500 سے زائد طلبہ و طالبات نے یہ طریقہ استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے ٹیسٹ میں 170 سے زائد نمبر لینے والے تمام طلبہ کو کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سولہ ستمبر کو پشاور ہائی کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں دی گئی طلبہ کی درخواست پر ٹیسٹ کے نتائج کا اجرا عدالت کے اگلے حکم تک روک دیا گیا جبکہ حکومت کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی۔
تئیس ستمبر کو پولیس حکام نے اس سکینڈل کا مرکزی کردار ظفر محمود خٹک، اس کے بھائی اور کئی ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔
ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ گروہ امتحان میں شامل طالب علموں کو بلیو ٹوتھ ڈیوائس کے ذریعے نقل کرانے کے لیے 25 لاکھ روپے سے 35 لاکھ روپے تک وصول کر رہا تھا۔
پولیس نے پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں کی جانے والی کارروائی کے دوران گرفتار ہونے والے افراد سے 44 الیکٹرانک ڈیوائسز، چار عدد مائیکرو فون، تین عدد موبائل فون، ایک سمارٹ واچ اور لاکھوں روپے کا ایک بینک چیک بھی برآمد کیا تھا۔
ایم ڈی کیٹ سکینڈل کے مرکزی ملزم ظفر محمود خٹک 2016ء میں انجینیئرنگ یونیورسٹی کے داخلہ ٹیسٹ میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا، جہاں وہ نگران امتحان یا انویجیلیٹر کے روپ میں ٹیسٹ میں موجود تھا۔ ملزم کےخلاف پولیس اسٹیشن، یونیورسٹی کیمپس میں ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی۔ اس کے صرف ایک ہفتہ بعد 24 جولائی 2016ء کو ملزم نے ایم ڈی کیٹ میں بطور جعلی امیدوار حصہ لیا۔
ملزم فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر جبکہ اس کا بھائی نور سردار ریسکیو ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہے۔ دوسرا مبینہ ساتھی حماد قانون نافذ کرنے والے ادارے میں انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھا۔ ان کرداروں کے ساتھ اس کھیل میں یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں کے لوگ بھی مبینہ طور پر ملوث ہیں۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد حکومت نے 26 ستمبر کو ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے نتائج منسوخ کر دیے اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے تحت ٹیسٹ کے دوبارہ انعقاد کا فیصلہ کیا۔ پشاور ہائی کورٹ نے بھی حکومت کے فیصلے کی توثیق کر دی جس کے بعد ٹیسٹ کے لیے نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا۔
ضلع کرک سے تعلق رکھنے والے اعجاز (فرضی نام ) اس گینگ کے طریق واردات کے بارے میں ہونے والے ایک ذاتی تجربے کے حوالے بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ان کی ایک خاتون عزیز نے ان سے رابطہ کیا۔ وہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بطور لیکچرار بھرتی ہونے کی خواہش مند تھیں جس کے لیے ان سے 30 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور رقم کام ہونے کے بعد دینے کی بات کی گئی تھی۔
اعجاز کہتے ہیں کہ خاتون عزیز نے انہیں ان سے معاملات طے کرنے کا کہا، جس پر میں نے ایک وٹس ایپ نمبر پر ان سے بات شروع کی۔ اعتماد قائم ہونے کے بعد انہوں نے فون پر رابطہ کیا۔
"انہوں نے دعویٰ کیا کہ جہاں آپ کی مرضی ہو، آپ پوسٹ بتائیں، ہم وہی ملازمت مہیا کر دیں گے، جس سے مجھے حیرانی ہوئی۔ پبلک سروس کمیشن والی پوسٹس پر بھی کہا کہ کوئی مشکل نہیں ہے، کام ہو جائے گا، مگر اس کے لیے ٹیسٹ میں ڈیوائس استعمال کرنی پڑے گی۔"
اعجاز نے مبینہ ثبوت، واٹس ایپ چیٹ اور وائس نوٹس لوک سجاگ کو بھی دکھائے۔
اعجاز کہتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ سال کے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے بارے میں بھی دعویٰ کیا اس میں ڈیوائس کے استعمال سے بہت سے طلبہ کو کامیاب کرایا گیا جو اب میڈیکل کالجز میں زیر تعلیم ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا کہ اسی طرح کا کام وہ ہر ٹیسٹنگ ایجنسی میں کرتے ہیں حتیٰ کہ خیبر پختونخوا کی یونیورسٹیوں میں بھی اس ڈیوائس کے ذریعے ٹیسٹ پاس کروائے گئے اور سلیکشن بورڈ میں بھی افراد کو پاس کروایا گیا ہے جن میں 17 اور 18 سکیل میں 30 سے 40 لاکھ کی ادائیگی پر بھرتیاں کرائی گئیں ہیں۔
"خاتون عزیز کے اہل خانہ نے رقم کے انتظام کے لیے زمین بیچنے کی تیاری کر لی تھی مگر وہ ڈیوائس کے ذریعے امتحان میں بیٹھ کر ٹیسٹ حل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہی تھیں۔ اس لیے بات نہیں بن پائی اور خود ہی ٹیسٹ کی تیاری کی، جو پاس تو ہو گیا لیکن انٹرویو میں ناکامی ہوئی۔ اب وہی بندہ ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں ملوث پایا گیا ہے جس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔"
یہ بھی پڑھیں
مقابلے کے امتحان میں پیسے کا عمل دخل: پنجاب پبلک سروس کمیشن کے عملے سے مل کر پرچے آؤٹ کرانے والا گروہ کیسے پکڑا گیا؟
صوابی سے تعلق رکھنے والے طالب علم صائم کہتے ہیں کہ ان ملزمان کی گرفتاری اگرچہ خوش آئند ہے لیکن ان کے ساتھ ملوث درجنوں افراد کی نشاندہی اور گرفتاری ابھی بھی باقی ہے۔ ٹیسٹ کے انعقاد سے پہلے تمام متعلقہ کرداروں کی نشاندہی ہونی چاہیے تھی تاکہ طلبہ کا اعتماد بحال ہو کہ آئندہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔
اس بار ٹیسٹ کا انعقاد خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) پشاور کے تحت ہو رہا ہے۔ ٹیسٹ کی تیاری اور چھپائی کے تمام مراحل میں مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کڑی نظر رکھی گئی ہے۔ امتحانی مراکز میں کسی قسم کا سامان یا الیکٹرانک آلات لے جانے کی مکمل ممانعت ہوگی۔ ٹیسٹ کی سکیورٹی کے نام پر پشاور میں دفعہ 144 بھی نافذ کر دی گئی ہے۔ نگراں صوبائی حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ٹیسٹ کے دوران امتحانی مراکز کے اطراف موبائل فون سروسز معطل رکھی جائیں گی۔
تاریخ اشاعت 25 نومبر 2023