چھیالیس سالہ شیر محمد باجوڑ کے رہائشی ہیں جو مردان کی ماربل فیکٹریوں میں دس سال سے مزدوری کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے ان کا ٹھیک گزارہ ہورہا تھا ایک ہزار سے پندرہ سو روپے کے درمیان دیہاڑی بن جاتی تھی مگر اب مزدوری نہیں مل رہی۔
شیر محمد اور ان کے ساتھی کسی ماربل فیکٹری میں کام نہیں کرتے بلکہ ان فیکٹریوں میں تیار ہونے والے ماربل کو ٹرکوں میں لوڈ کرتے ہیں۔
"ہم لوگ صبح گھر سے آتے ہیں اور سارا دن فارغ بیٹھ بیٹھ کر شام کو خالی ہاتھ واپس چلے جاتے ہیں۔ ایسے حالات کبھی نہیں دیکھے بیشتر کارخانے ہی بند ہو رہے ہیں تو ہمیں مزدوری کہاں سے ملے گی۔"
شیر محمد کہتے ہیں کہ وہ کرائے کے گھر میں رہتے ہیں اور مالک مکان روز کرایہ مانگتا ہے لیکن ادھر دیہاڑی ہی نہیں لگتی تو پیسے کہاں سے دیں۔
" جب بھی کوئی کارخانہ دار فیکٹری بند کرتا ہے وہاں کے پندرہ بیس مزدوروں کے ساتھ اس فیکٹری سے ہماری مزدوری بھی ختم ہو جاتی ہے۔ دس سالوں میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے۔"
پچاس سالہ ثناءاللہ بتاتے ہیں کہ انہیں ماربل انڈسٹری میں مزدوری کرتے 20 سال ہو گئے ہیں لیکن انہوں نے اتنے مشکل حالات کبھی نہیں دیکھے۔ پہلے مہنگائی نے پریشان کر رکھا تھا اور اب فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔
صرف شیر محمد اور ثناءاللہ ہی پریشان نہیں یہاں سیکڑوں مزدوروں کا یہی حال ہے۔ انڈسٹری مالکان سمیت اس شعبے سے وابستہ تمام لوگ خیبرپختوںخوا میں ماربل فیکٹریوں کی بندش کا ذمہ دار بھاری حکومتی ٹیکسوں اور بجلی کے بلوں کو گردانتے ہیں۔
محکمہ سمال انڈسٹریز خیبرپختونخوا کے ڈپٹی ڈائریکٹر نعمان فیاض بتاتے ہیں کہ صوبے میں کل ایک ہزار527 ماربل فیکٹریاں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے ایک ہزار 30 چل رہی ہیں۔
اوسطاً ہر فیکٹری میں دس مزدور کام کرتے ہیں جس سے ان کی مجموعی تعداد 15 ہزار 270 بنتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 497 بند ماربل فیکٹریوں میں سے 12 کے مالکان نے کاروبار تبدیل کر لیے ہیں جبکہ 15فیکٹریاں مختلف وجوہ کی بنیاد پر بند ہو چکی ہیں۔ تاہم 470 فیکٹریوں کو ان کے محکمے نے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر سیل کیا ہوا ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر نعمان فیاض کے مطابق مردان کی انڈسٹریل اسٹیٹ میں کل 249 ماربل فیکٹریاں ہیں جن میں سے 42 غیر فعال ہیں۔ اسٹیٹ کی فعال فیکٹریوں میں ایک ہزار 836 مزدور کام کرتے ہیں۔
"انڈسٹریل سٹیٹ فیز ون کی 55 میں سے صرف دو فیکٹریاں بند ہوئی ہیں جن سے آٹھ مزدور متاثر ہوئے ہیں۔ فیز ٹو کی 92 میں سے 15 اور فیز تھری کی 100ماربل فیکٹریوں میں سے 25 بند پڑی ہیں۔ ان دونوں فیزز میں بیروزگار ہونے والے مزدوروں کی تعداد تقریباً چار سو کے قریب ہے۔"
تاہم ماربل انڈسٹری کے اپنے اعدادوشمار اور سرکاری ڈیٹا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ماربل مائنز انڈسٹری ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن(میڈا) کے چیئرمین محمد سجاد خان سرکاری اعدادوشمار پر تبصرہ کیے بغیر کہتے ہیں کہ خیبرپختوںخوا میں مجموعی طور پر چھ ہزار ماربل فیکٹریاں ہیں جو ضم شدہ اضلاع کے علاوہ پشاور، بونیر، صوابی، مردان، نوشہرہ، چارسدہ اور ملاکنڈ میں قائم کی گئی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ صوبے میں اس وقت واحد ماربل اندسٹری ہی ہےجو چل رہی ہے۔ یہاں بیشتر بڑی ماربل فیکٹریوں میں ڈبل شفٹ میں کام ہوتا ہے جبکہ چھوٹی فیکٹریوں میں ایک ہی شفٹ ہوتی ہے جہاں دس مزدور کام کرتے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈیڑھ لاکھ مزدور براہ راست ماربل فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ لیکن اگر مائینز کی لیبر، ٹرانسپورٹیشن اور لوڈنگ کرنے والے مزدوروں کو ملا کر دیکھا جائے تو لاکھوں افراد ماربل انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔
اس حوالے سے مردان میں انڈسٹری مالکان کی تنظیم کے جنرل سیکریٹری اور فیکٹری مالک منیب الرحمن بتاتے ہیں کہ پہلے تو ملکی معاشی صورت حال اور حکومتی پالیسیوں سے تعمیراتی شعبہ شدید متاثر ہوا جس کا براہ راست اثر ماربل انڈسٹری پر پڑا ہے۔
"دوسرا یہ ہوا کہ رواں سال کے بجٹ میں فیکٹریوں کے لیے بجلی کے نرخ 500 روپے فی ایم ڈی آئی (میکسیمم ڈیمانڈ انڈیکیٹر/ مخصوص وقت میں استعمال شدہ بجلی ناپنے کا پیمانہ) سے بڑھا کر ایک ہزار 250 روپے کر دیے گئے۔"
"بجلی کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ہی فیکٹریوں پر ٹیکسوں کی بھی بھرمار کر گئی جس سے انڈسٹری مشکلات کا شکار ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ ماربل کی مائنینگ سے لے کر فنشنگ تک سب کام یہیں خیبرپختونخوا میں ہورہا ہے۔ اس لیے بحران سے کانکن، لوڈنگ، کانٹے والے سے لے کر مزدور اور فیکٹری مالک تک سب متاثر ہوئے ہیں۔
"مردان کی لگ بھگ 400 ماربل فیکٹریز میں سے تقریباً 120 بجلی اور ٹیکسوں کی وجہ سے بند ہو چکی ہیں جہاں ہر فیکٹری میں 15 سے 20 ورکر کام کرتے تھے۔"
ضلع نوشہرہ میں ماربل فیکٹری کے مالک عرفان خان بتاتے ہیں کہ گذشتہ ماہ ان کی فیکٹری کی اکثر مشینیں بند تھیں اس کے باوجود 557 یونٹ کا بل چارلاکھ 66ہزار روپے آیا جو 810روپے یونٹ بنتا ہے۔
"اس لیے بہتر ہے ہم بجلی مزید مہنگی ہونے سے پہلے خود ہی کنکشن کٹوا کر کارخانے بند کر دیں۔"
ماربل انڈسٹری ایسوسی ایشن پشاور کے صدر ہمت شاہ کہتے ہیں کہ ان کے ضلع میں 50 فیصد کارخانے بند ہو چکے ہیں جس کی بنیادی وجہ بجلی کی قیمت اور ٹیکس میں اضافہ ہے۔
ضلع بونیر میں واقع ماربل فیکٹری کے مالک خورشید خان نے دعویٰ کیا کہ اس وقت بونیر میں 215 کارخانے بند پڑے ہیں جس سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ان کے خیال میں صورت حال رواں سال زیادہ خراب ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'کاروبار چلانا دہرا عذاب بن گیا ہے'، باجوڑ میں ماربل کے صنعت کاروں نے فیکٹریاں بند کرنے کا الٹی میٹم دے دیا
چیئرمین میڈا محمد سجاد خان بتاتے ہیں کہ 2018ء سے پہلے ماربل اندسٹری بہتر چل رہی تھی پھر بجلی مہنگی ہوتی گئی اور ٹیکس لگنا شروع ہو گئے۔رواں سال جی ایس ٹی،انکم ٹیکس، لیبر ٹیکس، انوارمنٹل اور ایکسائز کے ساتھ صوبائی ٹیکس بھی لگ گئے۔
"بجلی کی قیمت پہلے 500 سے بڑھا کر دو ہزار روپے فی ایم ڈی آئی کر دی گئی تھی جس کو احتجاج کے بعد ایک ہزار 250 روپے کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ماربل کا ریٹ بڑھ چکا جس سے ڈیمانڈ کم ہوتی جا رہی ہے اور چھوٹی فیکٹریاں بحران میں گھر گئی ہیں۔"
فیکٹری مالک یونس خان کہتے ہیں کہ جس کارخانہ دار کے پاس سرمایہ ہے وہ کروڑوں روپے خرچ کر کے سولر سسٹم پر منتقل ہو رہا ہے۔ باقی سب بجلی کٹوا کر اپنی فیکٹریاں بند کر رہے ہیں۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر سمال انڈسٹریز مردان غالب شاہ نے لوک سجاگ سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ صوبے میں حالیہ ٹیکسز اور بجلی کے نرخوں سے ماربل انڈسٹری متاثر ہوئی ہے۔
"ہماری ماربل فیکٹری مالکان کے ساتھ میٹنگز ہوئی ہیں جن میں سامنے آیا کہ بند ہونے والی فیکٹریوں کے مالکان مالی لحاظ سے کمزور تھے۔ ان فیکٹریوں کو دوبارہ چالو کرنے کے لیے سولرائزیشن کی طرف لارہے ہیں۔"
"ہماری کوشش ہے کہ مالی طور پر کمزور کارخانہ داروں کو بینکوں سے کم شرح سود پر قرضہ مل جائے تاکہ ان فیکٹریوں کو دوبارہ چالو کیا جائے اور یہ سیکٹر تباہ ہونے سے بچ سکے۔"
تاریخ اشاعت 25 اکتوبر 2024