اگست میں آنے والا سیلاب محبوب علی کے گھر اور مال مویشی سمیت ان کا سب کچھ بہا لے گیا لیکن ان کی ہمت اور حوصلے کو شکست نہیں دے سکا۔ وہ کسی جانب سے امداد کا انتظار کیے بغیر انتہائی مشکل حالات میں کاشت کاری کر کے اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
65 سالہ محبوب علی سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ اور بلوچستان کے ضلع جعفر آباد کی سرحد سے گزرنے والی نہر 'سیف اللہ کینال' پر قائم خیمہ بستی میں رہتے ہیں۔ یہاں سے کچھ فاصلے پر واقع ان کے گاؤں گوٹھ غلام محمد میں سیلابی پانی اب بھی جمع ہے جس کے اترنے کے فوری آثار دکھائی نہیں دیتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا خاندان پچھلے چار مہینوں سے اسی خیمہ بستی میں مقیم ہے کیونکہ سیلاب میں ان کے مکان گر گئے ہیں اور گاؤں میں جمع پانی نقل وحرکت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
محبوب نے سیف اللہ کینال کے کنارے لہسن، پالک اور دھنیا کاشت کر رکھا ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت ایک بڑے رقبے کو آباد کر چکے ہیں۔ سیلاب آنے سے پہلے انہوں نے قمبر شہداد کوٹ میں ایک زمیندار کی آٹھ ایکڑ زمین ٹھیکے پر لے رکھی تھی جہاں انہوں نے چاول اور سبزیاں کاشت کی تھیں۔ سیلاب نے نہ صرف ان کی فصلوں کو تباہ کر دیا بلکہ وہ مقروض بھی ہو گئے ہیں۔ محبوب علی کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ پاؤں سلامت ہیں اور ان کے پاس کاشت کاری کی مہارت ہے جس سے کام لیتے ہوئے وہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے۔
انہوں نے اپنی ہمت اور لگن سے نہر کے کناروں پر زمین کو لمبائی کے رخ پر قابل کاشت بنا لیا ہے۔ چونکہ سیف اللہ کینال میں ابھی تازہ پانی نہیں آیا اس لیے وہ اس میں موجود سیلابی اور برساتی پانی سے ہی اپنی فصلوں کو سیراب کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ نہر میں کھڑے پانی کو پیٹر انجن کے ذریعے کھینچ کر پلاسٹک کے پائپوں کی مدد سے اوپر لاتے ہیں اور اسے کھیتوں کے درمیان بنی ایک نالی میں ڈال دیتے ہیں جس سے بعدازاں یہ پانی کھیت کے تمام حصوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
سیف اللہ کینال کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھیں تو نہر کے ایک طرف سندھ کے علاقے قمبر شہداد کوٹ میں کھیت کھلیان دکھائی دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف جعفر آباد کے علاقے پانی میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ محبوب کا کہنا ہے کہ وہ یہ تو نہیں بتا سکتے کہ نہر کے اُس طرف (سندھ) پانی کیوں نکل گیا ہے اور ان کی طرف (بلوچستان) پانی کیوں کھڑا ہے۔ لیکن وہ یہ جانتے ہیں کہ اب جو کچھ کرنا ہے انہوں نے خود ہی کرنا ہے۔ اس لیے وہ اپنی فصل پر سخت محنت کر رہے ہیں اور جب یہ تیار ہو جائے گی تو وہ نہ صرف اس سے اپنا قرض اتاریں گے بلکہ گھر بھی دوبارہ تعمیر کریں گے۔
اگرچہ سیلابی پانی کی مقدار قدرے کم ہونے کے بعد گوٹھ غلام محمد کے کچھ باسی اپنے گھروں کو واپس جانا شروع ہو گئے ہیں تاہم اب بھی بڑی تعداد میں لوگ نہر کنارے خیمہ بستی میں ہی موجود ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے گھر یا تو مکمل تباہ ہو گئے ہیں یا پھر وہاں ابھی تک پانی کھڑا ہوا ہے۔
سر پر بلوچی ٹوپی اور پاؤں میں پلاسٹک کی جوتے پہنے محبوب علی درانتی کے ذریعے زمین کھود کر اس میں بیج ڈالتے ہیں اور پھر ہاتھوں سے اس کے اوپر مٹی ڈال دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ کام نہیں کریں گے تو بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح مدد کا انتظار کرتے کرتے بیماریوں کا شکار ہو جائیں گے۔
کچھ عرصہ پہلے تک وہ یہ سمجھتے رہے تھے کہ گوٹھ غلام محمد سیلاب سے متاثرہ آخری علاقہ ہے اور راستے بحال نہ ہونے کی وجہ سے امدادی ادارے ان تک نہیں پہنچ پا رہے۔ انہیں یہ امید بھی تھی کہ جب سیلاب کا پانی نکل جائے گا تو زندگی معمول پر آ جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا تو انہوں نے اپنی زندگی خود بدلنے کا عزم کیا۔ ان کی ایک گائے سیلاب کی نذر ہونے سے بچ گئی تھی جسے بیس ہزار روپے میں بیچ کر انہوں نے بیج خریدا ہے۔
محبوب علی کہتے ہیں کہ "میں پچھلے پندرہ سال سے سبزیاں کاشت کر رہا ہوں اس لئے مجھے اس کام کی خاصی سمجھ بوجھ ہے۔ میں نے نہر کنارے اس زمین پر صرف ایک مرتبہ کرائے پر ٹریکٹر لا کر اس سے ہل چلوایا ہے جبکہ باقی سارا کام اپنے ہاتھوں سے کیا ہے۔''
جب محبوب کو یہ بتایا گیا کہ جس جگہ انہوں نے فصل کاشت کی ہے وہ سرکاری زمین ہے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ "ان حالات میں اگر سرکاری لوگ ان سے یہ زمین چھین لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سرکار عوام کی بہتری نہیں چاہتی۔"
تاریخ اشاعت 27 دسمبر 2022