ملک کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالخلافے پشاور سے تقریباً 300 کلومیٹر شمال مشرق کی جانب ضلع اَپر دِیر سے تعلق رکھنے والی مسکان بی بی کا تعلق ایک قدامت پسند مذہبی گھرانے سے ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے 2015ء کے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔
چھتیس سالہ مُسکان اور انتخاب لڑنے کی خواہش مند دیگر خواتین کے لئے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا۔ لیکن انہوں نے گھر والوں کی طرف سے حوصلہ افزائی اور تعاون سے یہ مشکل قدم اٹھا ہی لیا اور پہلی ہی بار وہ تحصیل کونسل کی رکن منتخب ہو گئیں۔
وہ سمجھتی تھیں کہ منتخب نمائندہ کے طور پر وہ خواتین کے مسائل کو بہتر طریقے سے اجاگر اور حل کر سکیں گی۔
لیکن منتخب ہونے کے بعد ان پر یہ راز کھلا کہ تحصیل کونسل میں فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے مرد اور خواتین ارکان کے لئے مختلف لائحہ عمل وضع کیا گیا ہے۔ مسکان کہتی ہیں کہ "ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خواتین کونسلروں کو ترقیاتی فنڈز میں اگر زیادہ نہیں تو کم از کم مرد ارکان کے مساوی فنڈ دیا جاتا۔ خواتین ارکان کے لئے کوئی ترقیاتی فنڈ مختص نہیں تھا۔"
خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 — جس کے تحت 30 مئی 2015ء کے بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے — کے مطابق خواتین کے لئے مخصوص نشستیں رکھی گئی تھیں یعنی وہ رائے دہندگان کے براہ راست ووٹ کے ذریعے منتخب نہیں ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ فنڈز کی تقسیم میں ان کی حیثیت 'دوسرے درجےکے شہری' کی سی تھی۔
اس غیر مساویانہ رویے کی وجہ سے وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ "سیاسی جماعتوں نے محض قانونی شرط پوری کرنے کے لئے انہیں ضلعی اور تحصیل کونسلوں میں نمائندگی دی ہے جبکہ اس کا خواتین کو خود مختاری دینے کے نظریے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔"
یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد وہ اور ان جیسی دیگر خواتین نے مایوس ہو کر تحصیل کونسل کے اجلاسوں میں شریک ہونا چھوڑ دیا۔ ان کے مطابق "اگر خواتین ارکان کو ترقیاتی فنڈ نہیں دیئے جائیں گے تو ہم کس طرح خواتین کے مسائل حل کر پائیں گی اور اگر ہم ان کے مسائل نہیں حل کر پائیں گی تو کل ان کا سامنا کس طرح سے کریں گی۔"
لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ کونسل کے سیشنز میں شرکت نہ کرنے کے باوجود وہ رجسٹر میں حاضر ہوتی تھیں۔ مسکان کہتی ہیں "اس مایوس کُن صورتِ حال کے پیش نظر ہم اپنی جگہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو کونسل اجلاس میں بھیج دیتی تھیں اور اپنی توجہ امورِ خانہ پر مرکوز رکھتیں۔ ہاں، بجٹ اجلاس میں ہم خود شریک ہوتی تھیں۔"
مسکان ہی نہیں بلکہ اپر دِیر سے تعلق رکھنے والی دوسری خاتون اراکینِ تحصیل کونسل بھی کچھ ایسی ہی داستان سناتی ہیں۔
ایک اور سابق خاتون رکنِ تحصیل کونسل نے نام نہ بتانے کی شرط پر سُجاگ کو بتایا کہ وہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے تقریباً 40 کلومیٹر دور سے آتی تھیں۔ انہیں اجلاس میں شرکت کے لئے ایک سے زیادہ گاڑیاں بدل کر آنا پڑتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ تسلسل سے آتی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران انہیں پانچ سو روپے یومیہ اعزازیہ ملتا تھا جو، ان کے مطابق، بہت کم تھا جس کی وجہ سے بہت سی خواتین ارکان نے کونسل کے اجلاسوں میں آنا ترک کر دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر انہیں بھی مساویانہ ترقیاتی فنڈ دیئے جاتے تو وہ ان مشکلات کے باوجود اپنی حاضری کو یقینی بناتیں۔
تحصیل کونسل دِیر کی ایک خاتون رکن کے شوہر سید خان کہتے ہیں کہ خواتین کو الیکشن میں حصہ لینے کے لئے راضی کرنا ایک مشکل کام تھا۔ "میں نے اپنی بیوی کو جیسے تیسے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے تو راضی کر لیا لیکن منتخب ہونے کے بعد انہیں اجلاس کے دوران ایک تماشائی کے طور پر ایک طرف بٹھا دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے وہ کونسل اجلاس میں شرکت کرنے سے بد دل ہو گئیں۔"
ایک اور خاتون رکن کے شوہر، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، نے سُجاگ کو بتایا کہ وہ بھی اپنی بیوی کی جگہ کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ انہیں عام اجلاسوں میں تو کبھی کسی اعتراض کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن "بجٹ اجلاس میں خواتین ارکانِ کونسل کی حاضری ضروری ہوتی تھی۔"
وہی ہے چال بے ڈھنگی
خیبر پختونخوا میں 31 مارچ 2022 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ضلع اپر دِیر کی چھ تحصیلوں — ضلعی ہیڈ کوارٹرز کی تحصیل دِیر، تحصیل براول، تحصیل لرجم، تحصیل شرینگل، تحصیل کلکوٹ اور تحصیل واڑی — میں مردوں کے ساتھ ساتھ درجنوں خواتین امیدوار تحصیل اور ویلیج اور نیبرہُڈ کونسلوں کی ارکان منتخب ہوئیں۔ ان چھ تحصیل کونسلوں میں خواتین ووٹرز نے اپنے مسائل کے حل کے لئے 40 خواتین ممبران کو براہ راست منتخب کیا ہے۔
لیکن حسبِ روایت منتخب خواتین ارکان کی اپنی متعلقہ کونسل کے ماہانہ اجلاس میں شرکت سے گریزاں نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں خواتین ووٹرز کے مسائل صحیح طریقے سے ان فورمز پر نہیں اٹھائے جا رہے۔
پچھلے سال 18 جولائی کو حلف برادری کے اجلاس میں تو تمام منتخب خواتین موجود تھیں لیکن اس کے بعد ہونے والے اجلاسوں میں ان کی شرکت نہ ہونے کے برابر رہی اور ان کے مرد رشتے دار ان کے جگہ ان کونسلوں میں شریک ہوئے۔ تحصیل کونسل دیر میں اب تک پانچ اجلاس منعقد ہوئے ہیں۔ اسی طرح شرینگل تحصیل کونسل کے تین اجلاس منعقد کئے گئے ہیں جبکہ تحصیل براول کے اب تک دو اجلاس منعقد ہوئے ہیں۔
قانونی گرفت
اس تمام صورتِ حال پر حکومت کے کردار پر اپر دِیر میں لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر بادشاہ زادہ کہتے ہیں کہ ضلع اپر دِیر میں چھ تحصیلیں، ایک سو 17 ویلج اور پانچ نیبرہُڈ کونسلیں ہیں۔ ان کے مطابق مقامی حکومتوں میں تینوں سطحوں پر خواتین کو نمائندگی دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے ضلع کی خواتین کی کماحقہ نمائندگی کر سکیں "اسی لئے خواتین کی تحصیل، ویلج اور نیبرہُڈ کونسلوں میں شرکت ضروری ہے تاکہ وہ خواتین کے مسائل کو کونسل میں پیش کر کے انہیں حل کروائیں۔"
یہ بھی پڑھیں
قبائلی اضلاع میں مقامی حکومتوں کے انتخابات: 'بے اختیار نمائندے کونسلوں میں بیٹھ کر کیا کریں گے'۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے 2013ء کے لوکل گورنمنٹ کے تحت بنائے گئے رولز آف بزنس — پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس اینڈ میٹنگ 2015 — کی شق نمبر 44 کی ذیلی شق 1 کے مطابق اگر کونسل کا کوئی رکن تحریری درخواست کے بغیر کسی اجلاس سے مسلسل پانچ دن غیر حاضر رہے تو اس کی نشست کو خالی قرار دیا جا سکتا ہے۔
بادشاہ زادہ کہتے ہیں خواتین ارکان کی جگہ ان کے رشتہ داروں کی کونسل اجلاس میں شرکت ایک غیر قانونی عمل ہے "یہی وجہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کونسل کے اجلاس سے غیر حاضر رہنے والی خواتین اور مرد ارکان سے جواب طلبی کے لئے جلد ہی شو کاز نوٹس جاری کرے گا اور تسلّی بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں ان ارکان کو نا اہلی کا سامنا کرنا پر سکتا ہے۔"
لیکن دوسری جانب خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے تنظیم دِیر ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے پروگرام منیجر ارشد ابدالی سمجھتے ہیں کہ کونسل کے اجلاسوں میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں تحصیل کی سطح پر ہونے والے ترقیاتی منصوبوں میں برابر کا حق دار تسلیم کیا جائے "بصورتِ دیگر خانہ پُری کے لئے تو وہ منتخب ہوتی رہیں گی لیکن عورتوں کی خود مختاری کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔"
تاریخ اشاعت 12 جنوری 2023