تین سال پہلے پیش آنے والے ایک سنگین حادثے نے رانا محمد اکمل کی زندگی بدل کر رکھ دی۔
10 نومبر 2017 کی صبح وہ لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ میں بجلی کے لائن مین کے طور پر ڈیوٹی کر رہے تھے جب ان کے لائن سپرنٹنڈنٹ نے انھیں فوارہ چوک میں معطل شدہ بجلی بحال کرنے کے لئے بھیجا۔ وہ کھمبے پر چڑھ کر بجلی کے ٹرانسفارمرکی مرمت کررہے تھے کہ ایک زوردار کرنٹ ان کے جسم سے گزرا اور وہ کھمبے کے ساتھ چپک گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'بجلی کا جھٹکا لگتے ہی میں نے ہوش کھو دیا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا'۔ وہ آدھا گھنٹہ 'کھمبے کے ساتھ لٹکے رہے۔ آخر کار راہ گیروں نے مجھے کھمبے سے اتارا اور ایک موٹرسائیکل رکشے میں ڈال کر میو ہسپتال پہنچایا'۔
قواعد و ضوابط کے مطابق اس وقت اس لائن پر بجلی بند ہونی چاہیئے تھی جہاں وہ کام کر رہے تھے کیونکہ ان کے لائن سپرنٹنڈنٹ نے پرمٹ ٹو ورک حاصل کیا ہوا تھا جس کی ایک کاپی آج بھی رانا محمد اکمل کے پاس موجود ہے۔ اس پرمٹ کے مطابق مرمت کے لئے بند کی گئی بجلی صرف تب بحال کی جاتی ہے جب لائن مین کام مکمل کر کے کھمبے سے اترجاتا ہے۔
مگر اس دن لائن سپرنٹنڈنٹ نے کام مکمل ہونے سے پہلے ہی خراب لائن میں بجلی چلوا دی۔
رانا محمد اکمل تقریباً ڈیڑھ سال تک لاہور کے واپڈا پسپتال اور مزید چھ مہینے گُھرکی ہسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ ان کے جسم سے گزرنے والے کرنٹ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ان کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی اور بعد ازاں ان کا ایک بازو بھی کاٹنا پڑا۔
اب وہ صبح چھ بجے سے دوپہر دو بجے تک لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کی شاہ عالم مارکیٹ سب ڈویژن میں بطور ٹیلیفون آپریٹر کام کرتے ہیں۔
'ہے جرمِ ضیعفی کی سزا مرگِ مفاجات'
پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے لائن مین سینکڑوں کی تعداد میں حادثات کا شکار ہو رہے ہیں۔ محض 2020 کے پہلے نو ماہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم از کم پچپن لائن مین بجلی کا جھٹکا لگنے کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ان میں سات افراد لاہور میں، تین حیدرآباد میں، چار سکھر میں، دو گجرانوالا میں، گیارہ فیصل آباد میں، بارہ ملتان میں، آٹھ پشاور میں اور آٹھ اسلام آباد میں جان لیوا حادثات کا نشانہ بنے ہیں۔
اسی دوران چوالیس ایسے واقعات بھی پیش آئے جن میں لائن مین جزوی یا مکمل طور پر معذور ہو گئے۔
مختلف لیسکو افسران اور لائن مینوں کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی بنیادی وجہ حفاظتی طریقۂ کار پرعمل نہ ہونا ہے۔ لیسکو کے ایک سب ڈویژنل افسر (ایس ڈی او) کے مطابق حفاظتی سامان (جن میں وردیاں، دستانے، ہیلمٹ اور جوتے وغیرہ شامل ہوتے ہیں) پر محکمہ یا تو خرچہ نہیں کرتا یا اگر کرتا ہے تو یہ سامان تمام لائن مینوں تک پہنچتا نہیں پاتا۔
لیکن لائن مینوں کا کہنا ہے کہ یہ حفاظتی سامان اس قدر ناقص ہوتا ہے کہ اسے استعمال کرنا بذاتِ خود ایک مسئلہ ہے۔
لاہور کے مضافات میں کام کرنے والے ایک لائن مین کے بقول انھیں پہننے کے لئے 'جانوروں والے کپڑے' دیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'حفاظتی وردیاں ایسے کپڑے کی بنی ہوتی ہیں جو جلدی خشک نہیں ہوتا لہٰذا ہمیں گرمیوں میں پسینہ آنے کے باعث ہمیں مجبوراً گیلی وردیوں میں کام کرنا پڑتا ہے جو بہت خطرناک ہو سکتا ہے'۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکثر وردیاں لائن مینوں کے ناپ کی نہیں ہوتیں۔ جس کی وجہ سے اکثر لوگ انھیں پہنے بغیر ہی کام کرتے ہیں۔
حادثات کی ایک دیگر وجہ بجلی کی تاروں کی فرسودہ حالت ہے۔ ایک لائن مین کے بقول 'اکثر جگہوں پر تاریں گھِس گھِس کر ننگی ہو چکی ہیں۔ مزید براں ایک ایک کھمبے پر اتنی تاریں ہوتی ہیں کہ یہ تعین کرنا تقریباً نا ممکن ہے کہ کونسی تار کہاں کی ہے۔ کچھ علاقوں میں ایک کھمبے میں دو جگہوں سے بجلی آ رہی ہوتی ہے'۔ 'ان مقامات پر کام کرنے کے دوران ایک لائن مین اگر اپنی سب ڈویژن سے بجلی بند بھی کروا لے تو دوسری سب ڈویژن سے بجلی تار میں موجود رہتی ہے اور وہ اس کے جھٹکے کا شکار ہو جاتا ہے'۔
خاص طور پر گرمیوں میں جب بجلی کے زیادہ تعطل کے مسائل جنم لیتے ہیں تو اکثر ایک سے زیادہ جگہوں پر مرمت کرنے والے عملے کی ضرورت ہوتی ہٌشے۔ ایسی صورت میں لائن مین اور سپرنٹنڈنٹ کے درمیان رابطے کے فقدان کی وجہ سے اکثر بجلی اس وقت بحال کر دی جاتی ہے جب لائن مین ابھی کھمبے پر ہی موجود ہوتے ہیں۔
'ایسے لوگ عملے اور افسران پر اتنا دباو ڈالتے ہیں کہ لائن مین کوتاہی کر بیٹھتے ہیں اور حادثہ ہو جاتا ہے'۔ لیسکو ہیڈکوارٹر میں کام کرنے والے ایک ایس ڈی او کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکثر مرمت کے کام میں حفاظتی تدابیر پر اس وجہ سے عمل نہیں ہو پاتا کہ بجلی کے تعطل کا شکار علاقے میں کسی طاقت ور آدمی کا گھر ہوتا ہے جو مرمت کے کام میں تاخیر کو اپنی شان و شوکت کی توہین سمجھتا ہے۔
'ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات'
سرکاری قوانین کے مطابق بجلی کا کام تین شفٹوں (صبح، سہ پہر اور رات) میں کیا جاتا ہے۔ کاغذوں میں ایک لائن مین کسی ایک شفٹ میں آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے مگر عملی طور پر ان اوقاتِ کار کو پسِ پشت ڈال کر اس سے کئی گھنٹے مزید کام کروایا جاتا ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لیسکو اور اسی طرح کی دوسری کمپنیوں میں عملے کی کمی ہے۔ عمومی طور پر ایک سب ڈویژن میں ایک شفٹ کے لئے صرف ایک لائن مین ہی موجود ہوتا ہے حالانکہ ہر شفٹ کے لئے ہر سب ڈویژن میں کم از کم دو لائن مین اور دو اسسٹنٹ لائن مینوں سمیت بیس افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔
شاہدرہ کی ایک سب ڈویژن کے ایک لائن مین کا کہنا ہے کہ چونکہ لائن سپرنٹنڈنٹ کو خود بھی چوبیس گھنٹے کام کے لئے کام پر موجود ہونا پڑتا ہے اسی لئے وہ جب چاہیں لائن مین کو بھی بلا لیتے ہیں۔ 'خاص طور پر گرمیوں میں تو ہم تین تین شفٹوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر ہم کام سے انکار کریں تو ہمیں نوکری سے نکالے جانے کی دھمکیاں دی جاتیں ہیں۔'
ان غیر معمولی اوقاتِ کار کے ساتھ ساتھ سہولیات کی کمی بھی ایک لائن مین کے کام کو مزید مشکل بنا دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ان کے پاس مرمت کا سامان لانے لے جانے کے لئے کوئی گاڑی نہیں ہوتی۔ شاہدرہ میں متعین لائن مین کہتے ہیں کہ 'ہم نے اپنے تمام اوزار، حفاظتی سامان اور لمبی سیڑھیاں جائے وقوعہ تک منتقل کرنی ہوتی ہیں۔ اگر ہمارے پاس اپنی موٹر سائیکل نہ ہو تو ہمیں یہ سامان ریڑھیوں پر منتقل کرنا پڑتا ہے۔'
وہ مزید کہتے ہیں کہ 'ہمارے اکثر دفاتر میں بکِٹ (ایک کرین نما پلیٹ فارم جس پر کھڑے ہو کر لائن مین کام کرتا ہے) موجود نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے ہمیں کھمبوں سے لٹک کر کام کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں ایک معمولی سی کوتاہی بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔'
لیسکو کے ایک لائن سپرنٹنڈنٹ اس صورتِ حال میں کام کرنے والے لائن مین کو ایک سرجن سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ 'فرق صرف اتنا ہے کہ سرجن کی کوتاہی مریض کی موت کا سبب بنتی ہے اور لائن مین کی کوتاہی اس کی اپنی جان لے لیتی ہے'۔
لائن مینوں کو در پیش ایک مسئلہ ان کے اپنے افسران اور عوام کا ان کی طرف عمومی رویہ بھی بے جو حد منفی ہے۔
شاہدرہ میں متعین ایک لائن مین جبار احمد٭ کے مطابق 'افسران ہم سے ایسے پیش آتے ہیں جیسے ہم جانور ہیں'۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوام کا رویہ بھی ان سے بہت ہتک آمیز رہتا ہے۔ 'عوام لوڈ شیڈنگ کا سارا غصہ ہم پر نکالتے ہیں اور ہمیں گالیاں دیتے ہیں'۔
ایک لائن مین کی جان کی قیمت کیا ہے؟
جبار احمد کے والد بھی واپڈا کے لائن مین تھے مگر وہ 1992 میں ڈیوٹی کے دوران ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ حکومت نے اس وقت ان کے خاندان کو بطور معاوضہ ڈیڑھ لاکھ روپے دیے اور جبار احمد اور انکے بھائی کو لائن مین کی نوکری بھی دے دی۔
کچھ سال قبل ان کے بھائی نے ایک جگہ بجلی کی مرمت کرتے ہوئے اپنے ایس ڈی او کو مطلع کیا کہ بجلی بند کئے بغیر کام کرنا حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن جبار احمد کے مطابق 'ایس ڈی او نے میرے بھائی کو گندی گالیاں دیں اور کھمبے سے اترنے سے منع کر دیا۔ کچھ ہی دیر بعد بجلی کا ایک زوردار دھماکہ ہوا اور میرا بھائی زمین پر گر کر معزور ہو گیا'۔
اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ حادثے کا شکار لائن مین کی اصل جدوجہد حادثے کے بعد شروع ہوتی ہے کیونکہ محکمہ بڑے افسران کو تو بچا لیتا ہے اور ساری ذمہ داری لائن مین پر ڈال دیتا ہے۔ ان کے بقول 'ایک افسر دوسرے افسر کا بھائی بند ہوتا ہے'۔
رانا محمد اکمل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ان کے لائن سپر نٹنڈنٹ نے لیسکو کو بتایا تھا کہ 'میں ایک ذاتی کام سے جائے حادثہ پر گیا تھا۔ تاہم حادثے پر ہونے والی پہلی تحقیق میں میرے حق میں فیصلہ آیا کیونکہ میرے پاس پرمٹ ٹو ورک موجود تھا لیکن پھر ایک اور تحقیق ہوئی جس کا فیصلہ میرے خلاف ہوا۔ آخر کار تیسری تحقیق میں میرے حق میں فیصلہ دیا گیا'۔ اگر لائن مین اپنے ساتھ پیش آنے والے حادثے کا ذمہ دار خود ہو تو اسے کچھ بھی نہیں ملتا۔
بصورت دیگر حادثے کا شکار لائن مینوں کو زر تلافی دی جاتی ہے جس کی شرح سرکاری پالیسی کے مطابق طے کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2019 میں پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) نے فیصلہ کیا کہ ڈیوٹی کے دوران مرنے یا مکمل طور پر معذور ہونے والے لائن مینوں اور ان کے لواحقین کو مندرجہ ذیل مراعات دی جائیں گی:
پینتیس لاکھ روپیہ
ریٹائرمنٹ کی تاریخ تک پہلے سے دیے گئے سرکاری گھر کی برقراری
ایک اولاد یا بیوہ کو ان کی تعلیم کے مطابق نوکری
ان کے علاج معالجے کا تمام خرچہ
ان کی اولاد کی گریجویشن تک مفت تعلیم
ان کے گھر میں مفت بجلی کی فراہمی۔
تاہم متعدد لائن مین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ تمام مراعات صرف ان افراد کے اہلِ خانہ کو ملتی ہیں جو حادثوں میں مر جائیں۔ جزوی طور پر معذور ہونے والے افراد اکثر شکایت کرتے ہی نظر آتے ہیں۔
مثال کے طور پر رانا محمد اکمل کہتے ہیں کہ انھیں ساڑھے اکتیس لاکھ روپے کی ادائیگی تو کردی گئی ہے مگر باقی تمام مراعات کی ادائیگی کے بجائے ان سے کچھ پچھلی مراعات بھی لے لی گئی ہیں۔ 'حادثے کے بعد میرا ڈینجرس الاؤنس جو کہ تقریباً سات ہزار روپے تھا کاٹ لیا گیا کیونکہ میں اب لائن مین کی جگہ ٹیلیفون آپریٹر ہوں۔ یوں حادثے کا شکار ہونے کے بد میری تنخواہ میں کمی ہو گئی ہے'۔
ان کے مطابق ان کے بیٹے کو بھی اب تک لیسکو نے نوکری نہیں دی اور نہ ہی ان کا بازو ٹھیک کرانے کے لئے ادارہ ان کے علاج کا خرچہ اٹھانے کے لئے تیار ہے۔
اس طرح لائن مینوں کا جنرل لائبیلیٹی انشورنش (جی ایل آئی) فںڈ، جو ان کی تنخواہ سے ماہوار کٹتا ہے، انھیں صرف اس صورت میں دیا جاتا ہے جب ڈیوٹی کے دوران کسی حادثے میں ان کی جان چلی جائے۔ ایک لائن مین کے مطابق 'محکمے کا موقف دو ٹوک ہے: اگر ہم اپنی انشورنس کے پیسے چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگی قربان کرنا ہوگی'۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق لیسکو نے 2019 میں ایک حادثات کا شکار ہونے والے لائن مینوں کو معاوضہ دینے کے لیے ایک علیحدہ ادارہ بنایا ہے۔ جس کے ذریعے 2020 میں جان لیوا حادثات کا شکار ہونے والے لائن مینوں میں سے بیشتر کو پینتیس لاکھ روپے کی ادائیگی کر دی گئی ہے جبکہ باقی مراعات دینے کا عمل ابھی چل رہا ہے۔
مگر اس سے پہلے متاثر ہونے والے لائن مینوں اور ان کے لواحقین کو دیے گئے معاوضوں کے کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ لائن مینوں کے مطابق انھیں یہ تمام مراعات حاصل کرنے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے اکثر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں کہ افسران ان سے نالاں ہو کر کہیں ان مراعات کی ادائیگی روک ہی نہ دیں۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 6 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 14 فروری 2022