بلوچستان کے مختلف شہروں اور دیہات میں پچھلی ایک دہائی میں قریباً ڈیڑھ سو نجی لائبریریاں قائم کی جا چکی ہیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت ان لائبریریوں کا قیام لوگوں کی عطیہ کردہ کتابوں کے ذریعے عمل میں آیا ہے۔ ان لائبریریوں کو مقامی نوجوان، اساتذہ، طلبہ اور خاص طور پر ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگ چلاتے ہیں۔
طویل عرصہ سے بدامنی کا شکار رہنے والے ضلع خضدار میں ایسی 11 نجی لائبریریاں موجودہ ہیں۔ تحصیل وڈھ میں قائم سٹوڈنٹس لائبریری کے رکن وحید انجم بتاتے ہیں کہ اس لائبریری میں بلوچی، براہوی، انگریزی اور اردو زبان میں مختلف موضوعات پر تقریباً چار ہزار کتابیں موجود ہیں۔
''پہلے اس علاقے میں پڑھنے لکھنے کا زیادہ رجحان نہیں تھا لیکن لائبریری کے قیام کے بعد بہت سے لوگ خصوصاً نوجوان کتب بینی کی جانب راغب ہوئے ہیں۔ بیشتر قارئین ادب اور سیاسی و سماجی سائنس کی کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس وقت دو سو سے زیادہ لوگ باقاعدگی سے لائبریری میں آتے ہیں جبکہ دوسرے علاقوں سے بہت سے قارئین بھی اس لائبریری سے کتابیں منگواتے ہیں۔ یہاں آنے والوں میں لسبیلہ یونیورسٹی، وڈھ گورنمنٹ کالج اور مقامی سکولوں کے طلبہ کی اکثریت ہے۔''
خضدار میں ہی قائم کرخ پبلک لائبریری کا قیام ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے عمل میں آیا ہے۔ اس لائبریری کے قیام کی مہم میں شامل طالب علم نعیم بلوچ بتاتے ہیں کہ پہلے ضلعی انتظامیہ نے انہیں کچھ کتابیں فراہم کیں جس کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کتابیں جمع کرنے کی مہم چلائی جس میں بہت سے لوگوں نے اپنی کتب عطیہ کیں۔
تاہم نعیم کا کہنا ہے کہ اس علاقے علاقے میں تعلیم کا رحجان نہ ہونے اور خواندگی کی کمی کے باعث لائبریری لوگوں کی توجہ حاصل نہیں کر سکی۔ چونکہ لائبریری میں تاحال بجلی، پانی اور بیت الخلا کی سہولت بھی نہیں ہے اس لیے یہاں زیادہ لوگ نہیں آتے۔ انہوں نے لائبریری میں یہ سہولتیں مہیا کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ سے درخواست کی تو جواب ملا کہ وہ خود چندہ جمع کر کے لائبریری کو فعال کرنے کا اہتمام کریں۔
ضلع خضدار میں اپنی مدد آپ کے تحت 11 نجی لائبریریاں چلائی جا رہی ہیں
انہوں نے کہا کہ لائبریری تو کسی نہ کسی طور کھڑی ہو گئی لیکن اسے پوری طرح فعال کرنے میں کامیابی نہیں مل سکی۔ انہیں یقین ہے کہ اگر انتظامیہ انہیں تھوڑی سی مدد فراہم کرے تو اس لائبریری کے ذریعے علاقے میں شرح خواندگی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
خضدار کے علاقے گریشہ میں دامنِ شاشان پبلک لائبریری 2018 میں قائم کی گئی تھی جس میں اس وقت تین ہزار کتابیں موجود ہیں۔ اس لائبریری کو قواعد و ضوبط کے مطابق چلایا جاتا ہے اور اس کے ڈھائی سو رکن ہی کتابیں حاصل کرنے کے اہل ہیں جس کے لیے سو روپے فیس رکھی گئی ہے۔لائبریری کے سیکرٹری جنرل نصیر کا کہنا ہے کہ جہاں لائبریری موجود ہو گی وہاں پڑھنے والے بھی آئیں گے اور انہیں دیکھ کر دیگر لوگ بھی مطالعے کی جانب راغب ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لائبریری اس مقصد میں کامیاب رہی ہے۔
اسی ضلعے کے علاقے نال میں صلاح الدین بزنجو اور ان کے ساتھی طلبہ نے اپنی مدد آپ کے تحت مقامی بوائز ہائی سکول میں لائبریری بنا رکھی ہے۔ انہوں نے یہ لائبریری کورونا وبا کے دوران قائم کی تھی جس کے لیے ان طلبہ نے خود ہی میز کرسیوں کا بندوبست کیا، وائی فائی لگای اور یہیں آن لائن کلاسیں لینے لگے۔
صلاح الدین کا کہنا ہے کہ جب تک آن لائن کلاسیں جاری رہیں اس وقت تک تو طلبہ کی بڑی تعداد لائبریری میں آتی رہی لیکن بعد میں لائبریری آنے اور یہاں مطالعہ کرنے کا رحجان بہت کم ہو گیا ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں قائم بک پوائنٹ کے مالک عیسیٰ رِند نے دشت، گریشہ اور قلات سمیت بہت سے علاقوں کی لائبریریوں کو کتابیں عطیہ کرنے کے علاوہ بلوچستان سٹڈی سنٹر کو بھی 50 ہزار روپے مالیت کی کتابیں دی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
کتابیں جمنیزیم میں ڈھیر اور عمارت پر تالا: کیا تربت پبلک لائبریری پر قبضہ ہو چکا ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں میں حصول تعلیم اور مطالعے کا رحجان بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہروں کے علاوہ چھوٹے قصبوں اور دیہات میں بھی لائبریریاں موجود ہیں۔ وہ صوبے کے مختلف شہروں میں ہونے والے کتاب میلوں کو بھی بڑی تعداد میں لائبریریوں کے قیام کا سبب بتاتے ہیں۔
بلوچستان کے لائبریریز ڈیپارٹمنٹ کے مطابق صوبہ بھر میں 78 سرکاری لائبریریاں قائم ہیں جن میں سے صرف 24 فعال ہیں۔ صوبائی بجٹ میں لائبریریوں، آرکائیوز اور عجائب گھروں کے لیے 18 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے۔ نجی لائبریریوں کے جائزے سے یہ سامنے آیا ہے کہ انہیں چلانے والے لوگوں کی اس مقصد سے لگن کے باوجود بہت سی جگہوں پر یہ لائبریریاں محض بنیادی سہولتوں کی کمی کے باعث فعال کردار ادا نہیں کر پا رہیں۔
تاریخ اشاعت 23 مارچ 2023